بلوچستان کو نیا وزیراعلیٰ تو مل گیا مگر نئی کابینہ کی تشکیل تاخیر کا شکار ہے ۔اب تک اتحادیوں کی جانب سے کوئی واضح بیانات بھی سامنے نہیں آئے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے جو کہ 2024ء میں بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی جبکہ ن لیگ اور باپ اس کے اتحادی ہیں۔
ملک میں مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے ویسے بھی ماہ صیام اور عید المبارک کے دوران ہر چیز کی قیمتوں میں خود ساختہ اضافہ کیا جاتا ہے جس کی روک تھام کیلئے کوئی بھی منظم میکنزم موجود نہیں ہے۔ غریب عوام مافیاز کے رحم و کرم پر ہیں حکومتوں کی جانب سے محض نوٹس ہی لیا جاتا ہے پھر برہمی کا اظہار کرکے کارروائی کا عندیہ دیا جاتا ہے مگر اس کا اثر نہیں پڑتا۔
پاکستان ہمیشہ امریکہ سے بہترین تعلقات کا خواہاں رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد کی صورتحال کے بعد پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف فرنٹ لائن کا کردار ادا کیا اس جنگ کے دوران اور ابھی تک پاکستان جانی و مالی نقصان اٹھاتا آرہا ہے مگر اس کے باوجود امریکہ نے پاکستان کو وہ مقام نہیں دیا جو بطور اتحادی اس کا حق بنتا ہے۔
ملک موجودہ حالات میں قرض کے بغیر نہیں چل سکتا اس کا سب کو بخوبی علم ہے اور یہ پہلی بار نہیں کہ موجودہ حکومت آئی ایم ایف سے قرض لے رہی ہے بلکہ یہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔
بلوچستان میں طوفانی بارشیں عوام کیلئے عذاب کا باعث بن جاتی ہیں۔ بارشوں کی وجہ سے اموات ہوتی ہیں، شاہراہیں تباہ ہو جاتی ہیں، پل سیلابی ریلوں میں بہہ جاتی ہیں، کھڑی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں زمینداروں کو بڑے پیمانے پر نقصان اٹھانا پڑتا ہے، مہینوں تک نکاسی آب کا عمل پورا نہیں ہوتا ،پورا نظام درہم برہم ہوکر رہ جاتا ہے۔
ملک میں قومی ادارے جو خسارے میں جارہے ہیں ان میں اصلاحات کی جائیںیا پھر پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے چلایا جائے تو بہتر ہوگا اس سے قومی خزانہ پر بوجھ بھی نہیں آئے گا اور تمام ملازمین کی ملازمتیں اوردیگر مراعات خطرات میں نہیں پڑینگی کیونکہ موجودہ حالات سے سب ہی واقف ہیں کہ فی الحال معاشی حالات ایسے نہیں کہ روزگار کے دیگر ذرائع وسیع پیمانے پر پیدا کئے جاسکیں اور نہ ہی ملک میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ہورہی ہے اگرچہ چند ممالک کام کررہے ہیں مگر اس سے خسارہ کو پورا کرنے ،ڈیفالٹ جیسے خطرات سے بچنے اور معیشت کو چلانے کے ساتھ قرض کی ادائیگی ہوپارہی ہے جس میں عوام کا بھی ایک بڑا حصہ ہے جو ان سے ٹیکس کی مد میں لیا جارہا ہے۔
بلوچستان کے میگا منصوبوں کے ذریعے صوبے میں بڑی معاشی تبدیلی ممکن ہے، خطے میں موجود پسماندگی، محرومیوں کا خاتمہ، اندرونی سیاسی مسائل کا حل بھی خوش اسلوبی سے نکل سکتا ہے صرف سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق معیشت کو دستاویزی شکل دینے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلئے نیشنل ڈیٹا ویئر ہاؤس کی تیاری پر کام جاری ہے، نیشنل ڈیٹا ویئر ہاؤس کا مقصد ٹیکس نادہنگان کی معلومات جمع کرنا ہے اور متعلقہ ڈیٹا کو استعمال کرنے کا اختیار صرف ایف بی آر کے پاس ہوگا۔