پاکستان ڈیفالٹ سے تو بچ گیا اب ملک میں معاشی سرگر میاں تیز کرنے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات اٹھائے جارہے ہیں تاکہ ملکی معیشت بہتر ہوسکے مگر اس کے لیے مستقل معاشی پالیسیاں اور کرپشن، بدعنوانی کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں سیاسی اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئے… Read more »
آئی ایم ایف پروگرام کے بعد پاکستانی معیشت میں بہتری آرہی ہے۔ حکومت کی جانب سے مختلف شعبوں میں کام شروع کردیا گیا ہے جس کا مقصد معاشی اہداف حاصل کرنا ہے تاکہ مستقبل میں معاشی مسائل پیدا نہ ہوسکیں جس طرح ماضی میں قرض تو لیے گئے مگر وہ معاشی اہداف حاصل نہ کئے گئے۔
کوئٹہ کے شہریوں کے لیے بڑی خوشخبری ہے کہ اب شاہراہوں پر گرین بس سروس چلے گی جس کا اعلان گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو نے کیا تھا۔ یہ انتہائی خوش آئند عمل ہے گزشتہ کئی برسوں سے عوامی حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ کیاجارہا تھا کہ انہیں سستی اور معیاری سفری سہولیات فراہم کی جائیں جس طرح دیگرصوبوں کی بڑی شہروں میں بس سروسز صوبائی حکومت کی سطح پر چل رہی ہیں۔بہرحال دیرآید درست آید کیونکہ کوئٹہ میں کوئی سہولت شہریوں کے لیے دستیاب نہیں اور جو لوکل بسیں ہیں ان کی حالت انتہائی خستہ ہے جس سے خواتین، بزرگ، اسٹوڈنٹس سب کو پریشانی کا سامنا کرناپڑتا ہے کوئی مستقل اسٹاف بھی بسوں کانہیں،انتہائی اذیت کے ساتھ شہری لوکل بسوں میں سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
نئے صوبے بنانے کا بل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں پیش کر دیا گیا، اس حوالے سے صوبوں سے مشاورت کا بھی فیصلہ ہوا ہے۔قائمہ کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں اور اپوزیشن اراکین نے شرکت کی، اجلاس میں نئے صوبے بنانے پر مشاورت کی گئی۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں رانا محمود الحسن نے سرائیکی اور سینیٹر محمد صابر شاہ نے جنوبی پنجاب صوبے سے متعلق بل کمیٹی میں پیش کیا جس کے بعد نئے صوبوں کے قیام پر مزید مشاورت ہوئی اور فیصلہ کیا گیا کہ صوبوں سے تجاویز لی جائیں گی۔اجلاس میں شریک پی پی کے سینیٹر اور معروف قانون دان فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ بھارت میں انتظامی اکائیاں بنتی ہیں تو آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں پڑتی لیکن پاکستان میں صوبوں کے معاملے پر آئینی ترمیم ضروری ہے، یہ کام جذبات کا نہیں ہے کیونکہ قانون جذبات نہیں دیکھتا، قانون اندھا ہوتا ہے۔
بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ میں گزشتہ کئی ماہ سے بدامنی، چوری، ڈکیتی کی وارداتیں رونما ہورہی ہیں جس کے خلاف سیاسی، مذہبی جماعتوں سمیت سول سوسائٹی کی جانب سے احتجاج بھی کیاجارہا ہے۔
پولیو ایک خطرناک مرض ہے جو بچوں کو عمر بھر کی معذوری کاشکار کرتا ہے، ہر سال پولیومہم اس بنیاد پر شروع کی جاتی ہے کہ پاکستان سے پولیو جیسے موذی مرض کا مکمل خاتمہ ہوسکے دنیا بھر میں پاکستان ، نائجیریا اور افغانستان اس وقت پولیو جیسے موذی مرض کے ریڈار پر ہیں مگر پولیو مہم چلانے والے اور اس کی ٹیمیں مہم کے دوران ملک بھر کے کونے پر پہنچ کر بچوں کو پولیو کے قطرے پلاتے ہیں
موسم گرما کے دوران ملک بھر میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے شدید گرمی میں لوگ شدید ذہنی اذیت سے دوچار ہوتے ہیں، بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پانی کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے خاص کرخواتین کا جینا دوبھر ہوجاتا ہے گھر کے کام بری طرح متاثر ہوتے ہیں،مزدور طبقہ رات بھر جاگ کر صبح مزدوری کے لئے نکلتا ہے یہ ایک انسانی المیہ ہے جبکہ کاروبار بھی بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ٹھپ ہوکر رہ جاتاہے۔
جمہوری معاشروں میں مضبوط حکمرانی کے لیے مقامی نظام حکومت بنیادی حیثیت رکھتی ہے، سیاسی قیادتیں آمریت پر تنقید تو بہت کرتی ہیں، لیکن وہ اپنی اپنی حکومت کے دور میں مقامی جمہوری حکومتوں کا نظام نہیں دے سکیں۔
ملک حقیقی انصاف وعدل کے بغیر نہیں چل سکتا اور نہ ہی سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لیے اداروں کو استعمال کرتے ہوئے مخالفین کو دیوار سے لگاکر جمہوریت اور نظام کو مضبوط کیاجاسکتا ہے۔
آئی ایم ایف معاہدے سے ملکی معیشت کو بڑا سہارا مل گیا ہے اور اب اس کے اثرات مارکیٹ میں بھی دیکھے جارہے ہیں اسٹاک ایکسچینج میں تیزی اور ڈالر کی قیمت میں بڑی کمی ہوئی ہے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے۔