ملک میں سیاسی انجینئرنگ کا مسئلہ دیرینہ ہے مگر یہ تجربات یکطرفہ طور پر نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں اور مقتدرحلقوں،اسٹیبلشمنٹ کی ملی بھگت اور گٹھ جوڑ کے ذریعے کئے گئے۔ اس کی ایک طویل تاریخ ہے مگر سیاستدانوں نے کبھی بھی اس سے سبق نہیں سیکھا،چور دروازے سے اقتدار تک رسائی حاصل کرنا ہمیشہ سے ان کی ترجیح رہی ہے۔
ملکی معیشت اور مستقبل میں پیداہونے والے بحرانات سے متعلق بتایاجارہا ہے کہ حالات بہتری کی طرف نہیں جارہے بلکہ معیشت مزیدتنزلی کا شکار ہوتا جائے گامگر ہمارے ہاں سیاسی کھیل ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ روز نئی شہ سرخی سیاسی حوالے سے سامنے آجاتی ہے گرفتاریاں، انتخابات، ضمنی انتخابات، نیب آرڈیننس، کیسز سے ریلیف، ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات، آڈیولیکس، ویڈیو لیکس پر طویل پریس کانفرنسز اور جلسے جلوس، ان بنیادوں پر تمام تر تبصرے شروع ہوجاتے ہیں میڈیا کو سیاسی ماحول میں گھمادیاجاتا ہے ہر خبر سنسنی خیز طریقے سے پیش کیاجاتا ہے۔ ملک کے اندر اس وقت جو صورتحال معاشی حوالے سے پیدا ہورہی ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں ضمنی مالیاتی بل 2023 پیش کردیا۔قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ کابینہ نے 170 ارب روپے ٹیکس کے مالیاتی بل کی منظوری دے دی۔
ملک کے بیشتر علاقوں میں پہلے سے ہی توانائی بحران موجود ہے، بجلی نہ ہونے کی وجہ سے تاجربرادری اور شہری دونوں ہی پریشان ہیں۔ چوبیس گھنٹوں کے دوران بمشکل دس گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی ہے غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے احتجاج کے باوجود بھی متعلقہ محکموں سمیت حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی بلکہ یہ درس دیاجاتا ہے کہ مشکل وقت ہے بجلی کی پیداوار کا مسئلہ موجود ہے ماضی کے غلط فیصلوں کی وجہ سے بحرانات کاسامنا ہے لہذا تھوڑا صبر کا مظاہرہ کریں، مشکل وقت جلد ٹل جائے گا۔
بلوچستان میں سیاسی تبدیلی کوئی انوکھی بات نہیں ہے دہائیوں سے بلوچستان سیاسی تجربہ گاہ بنا ہوا ہے، کبھی بھی صوبے میں ایک مضبوط حکومت نہیں بنی اور نہ ہی کسی وزیراعلیٰ نے اپنی مدت پوری کی۔ سردار عطاء اللہ خان مینگل سے لے کر جام کمال خان تک، ایک بھی وزیراعلیٰ نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کی کیونکہ ان کے ادوارحکومت میں مختلف نوعیت کے مسائل پیداہوئے یا پیداکئے گئے۔
پاکستان میں اس وقت سب سے زیادہ بحث مہنگائی پر ہورہی ہے آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں جو شرائط طے کی جائینگی اس کے بعد پیداہونے والی صورتحال کا عوام پر کیا اثرات پڑینگے، پیشگی یہ تشویش پیدا ہوگئی ہے کہ مہنگائی کی شرح بہت زیادہ بڑھ جائے گی اور اس کے اثرات عام لوگوں پر ہی پڑینگے۔دوسری جانب ملک میںسیاسی عدم استحکام اپنی جگہ پر ہے۔
پاکستان میں اس وقت معاشی صورتحال انتہائی خراب ہے، گزشتہ کئی دہائیوں سے لئے گئے قرضوں کابوجھ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرات سر پر منڈھلانے لگے ہیںاور اس سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے تمام شرائط کو تسلیم کرنا پڑرہا ہے۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات جاری ہیں ۔ آئی ایم ایف نے پیشگی سخت شرائط رکھنے شروع کردیئے ہیں، معاشی اصلاحات اپنی جگہ مگر تمام تر ملبہ عوام پر لادھ دینا ،ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی، سرکاری محکموں کی نجکاری جیسے اقدامات سے بہت سے مسائل سر اٹھائینگے جس کے بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میںاضافہ سمیت دیگر معاملات بھی اس میںشامل ہیں اس کا اثر عوام پر ہی پڑے گا ۔
سابق صدر اور (ر) آرمی چیف جنرل پرویز مشرف دبئی میں طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔پرویز مشرف کی تاریخ کارگل سے شروع ہوتی ہے جب کارگل میں بڑا آپریشن کیا گیا ، اس دوران مسلم لیگ ن کی حکومت تھی، اس دوران حالات کارگل میں انتہائی کشیدہ رہے ن لیگ کی قیادت نے یہ دعویٰ کیا کہ کارگل آپریشن سے وہ آگاہ نہیں تھے جبکہ اس وقت کی فوجی قیادت پرویز مشرف ان کے برعکس یہ بتاتے کہ تمام حالات سے حکومت واقف تھی ۔
پاکستان میں اس وقت معاشی صورتحال انتہائی خراب ہے، گزشتہ کئی دہائیوں سے لئے گئے قرضوں کابوجھ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرات سر پر منڈھلانے لگے ہیںاور اس سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے تمام شرائط کو تسلیم کرنا پڑرہا ہے کیونکہ اس کے بغیر ملک کو چلانا مشکل تر ہوچکاہے ۔اس وقت حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ موجودہ معاشی بحران سے نکلا جائے اور حالات کو معمول پر لایاجائے، سرمایہ کاروں کے اندر موجود بے چینی کو ختم کیاجائے، ڈالر پر قابو پایاجائے ۔