ملک میں غذائی اجناس کی قلت ، بجلی ، گیس کا بحران تاحال موجود ہے جس کی وجہ سے ملک کی بیشتر عوام بری طرح متاثر ہوکر رہ گئی ہے۔ اگر بلوچستان کی بات کی جائے توہر سردی کے موسم میں دارالخلافہ کوئٹہ میں گیس تو بالکل ہی نہیں ہوتی ،پہلے تو کم پریشر کامسئلہ تھا اب تو گیس کسی علاقے میں نہیں آرہی۔ اسی طرح دیگر اضلاع میں بھی صورتحال یہی ہے شدید سردی کے باعث لوگوں کی معمولات زندگی برح طرح متاثر ہیں سوئی سدرن حکام بارہا یقین دہانی کراکے اراکین اسمبلی کو ٹرخارہے ہیں تو عوام کی دادرسی کیسے کرینگے، ان کی شکایات ردی کی ٹوکری میں پھینک دی جاتی ہیں۔ یہ حالیہ توانائی بحران صرف سیلاب کی وجہ سے نہیں بلکہ ہر موسم سرما میں بلوچستان میں گیس کی قلت پیدا ہوجاتی ہے ۔
بلوچستان میں تعلیم کامسئلہ دیرینہ ہے اسکولز ، کالجزاوریونیورسٹیز بہت سارے مسائل کا شکار ہیں جن کی بہتری کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ تعلیم واحد ذریعہ ہے جس سے قوموں کی تقدیر بدلتی ہے اور وہ ترقی کے منازل طے کرتی ہیں بلوچستان کی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ تعلیمی اداروں کی زبوں حالی ،مالی مشکلات جیسے اہم مسائل ہیں بلوچستان کے نوجوانوں کی بڑی تعداد صوبے سے باہر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے جاتے ہیں غریب والدین تمام تر مالی مسائل کے باوجود کوشش کرتے ہیں کہ ان کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں مگر گزشتہ چند برسوں کے دوران یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ بلوچستان میں یونیورسٹیز اور کالجز پر خصوصی توجہ دی گئی ہے جس کے نتیجے میں اب بیشتر اسٹوڈنٹس اپنے صوبے کے اندر ہی تعلیم حاصل کررہے ہیں، اس سے ان کو مالی حوالے سے بہت سارے مسائل سے چھٹکارا مل چکا ہے مگر ابھی بھی ایک گھمبیر اور دیرینہ مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے وہ اسکولز ہیں جو تعلیم حاصل کرنے کی پہلی سیڑھی اور بنیاد ہیں بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں اسکول خستہ حالی کا شکار ہیں، اساتذہ کی کمی ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ جنیوا کانفرنس کی کامیابی عوام کی دعائوں اور اتحادی حکومت کے اخلاص کا نتیجہ ہے، سیلاب متاثرین کی بحالی تک کوششیں جاری رکھیں گے۔ یہ کامیابی ٹیم ورک کا نتیجہ ہے، سیلاب متاثرین کی دوبارہ آبادکاری تک کوششیں جاری رکھیں گے،بال اب ہمارے کورٹ میں ہے، ایک ایک پائی عوام کی ترقی، خوشحالی اور فلاح پر استعمال کرنی ہے، اب ہم نے شبانہ روز محنت کر کے عوام کی خدمت کرنی ہے۔
بلوچستان کی قوم پرست اورسیاسی جماعتوں کے لیے پاکستان پیپلزپارٹی آئندہ عام انتخابات میں بڑی چیلنج بن کر سامنے آرہی ہے۔ کیچ سے لیکر تفتان تک اہم اضلاع سے قبائلی وسیاسی شخصیات پاکستان پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کررہے ہیں۔ اس وقت لسبیلہ میں یہ فیصلہ نہیں ہوا ہے کہ بھوتانی یا جام کون پیپلزپارٹی میں جائے گا؟ سردار محمد اسلم بھوتانی نے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے وقت یہ بات واضح کردی تھی کہ آصف علی زرداری ان کے قریبی دوست ہیں اور ان سے گہرا تعلق ہے ان کا ساتھ دے رہا ہوں جبکہ انہوں نے یہ بات بھی تسلیم کی کہ جب سے وہ رکن قومی اسمبلی بنے ہیں انہیں جتنے فنڈز وفاق سے ملتے تھے وہ اپنے حلقے میں لگاچکے ہیں۔
ملک بھر میں آٹے کی کمی کا روناجاری ہے ، عوام سستے آٹے کے حصول کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں آٹے کی مصنوعی قلت پیداکی جارہی ہے اور مہنگے داموں میں اس کی فروخت جاری ہے ، عوام سرکاری آٹا خریدنے کے لیے دھکے کھانے پر مجبور ہیں ۔عام مارکیٹ میں آٹے کی قیمت میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے لوگوں کی قوت خریدجواب دے گئی ہے۔ اس وقت سب سے سنگین مسئلہ آٹے کی قلت ہے جس کا عوام کو سامنا ہے۔ بلوچستان میں گندم کا بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ترہوتا جارہا ہے ، سرکاری نرخوں پر آٹا نہ ملنے کی وجہ سے شہریوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے۔
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث جو تباہی بارشوں اورسیلاب کی وجہ سے پیدا ہوئی اس کی نظیر تاریخ میں نہیںملتی۔ بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصانات ہوئے اور اس کے ساتھ جو معاشی حوالے سے ملک کو دھچکا لگا، وہ ناقابل تلافی ہے ۔ کھڑی فصلیں تباہ ہونے سے سبزی، پھل سمیت دیگرغذائی اجناس کابحران پیدا ہوا ہے ،زمیندار سڑکوں پر آگئے، مال مویشی مرگئے لوگوں کے سروں سے چھت چھن گیا۔ سیلاب اور بارش نے مکمل تباہی مچائی ۔پوری دنیا نے پاکستان میں ہونے والی تباہی پر نہ صرف افسوس کااظہارکیا بعض دوست ممالک نے مالی امداد کی اور اقوام متحدہ نے اس حوالے سے بھرپور اپنا کردار ادا کیا اور اب بھی اقوام متحدہ کی جانب سے سیلاب متاثرین کی بحالی کے حوالے سے کوششیں جاری ہیں اور حکومت مسلسل اقوام متحدہ سمیت دیگر ممالک کے ساتھ رابطے میں ہے کہ ملک کوموجودہ بحرانات سے نکالنے کے لیے مالی حوالے سے امداد مل سکے۔
بلوچستان اور پنجاب میں بڑی سیاسی تبدیلیاں پیدا ہورہی ہیں سب کی نظریں ان دوصوبوں پر مرکوز ہیں۔ پنجاب میں اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد واضح ہوجائے گا کہ سیاسی منظر کس رخ اختیار کرے گا مگر اس وقت تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے عام انتخابات سے قبل سیاسی صف بندیاں شروع کردی ہیں اور اپنی سیاسی سرگرمیوں میں تیزی لائی ہے۔
ملک میں عام انتخابات جلد کرانے کے لیے پی ٹی آئی کی جانب سے مسلسل مطالبہ کیاجارہا ہے مگر جن صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے وہاں اب تک اسمبلیاں تحلیل نہیں کی گئیں ہیں ۔پنجاب میں سیاست دلچسپ موڑ اختیار کرتی جارہی ہے کل تک پنجاب کے وزیراعلیٰ چوہدری پرویزالہٰی اور ان کے صاحبزادے مونس الہٰی یہ کہہ کر نہیں تھکتے تھے کہ جب بھی خان صاحب اسمبلیاں تحلیل کرنے کا کہیں گے۔
ملک میں توانائی کا بحران گزشتہ کئی برسوں سے چل رہا ہے، تاجر اور عوام کو بجلی پہلے سے ہی شیڈول کے مطابق فراہم نہیں کی جارہی ہے، غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے باعث تاجر اور شہری متعدد بار اپنااحتجاج ریکارڈ کراچکے ہیں مگر اس کے باوجود ملک میں بجلی کی فراہمی ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے ۔
بلوچستان میں تیزی سے بدلتی سیاسی صورتحال کوئی نئی بات نہیں ہے ماضی سے لے کر اب تک بلوچستان میں ایک مخصوص طبقہ ہر وقت حکمران جماعت کے ساتھ چلنے کی خواہش مند رہی ہے اب وہ قوم پرست جماعتیں ہوں یا مرکزی جماعتیں ان کی ترجیحات یہی رہی ہیںکہ ہوا کا رخ کس طرف ہے وہ اسی مناسبت سے اپنا سیاسی فیصلہ کرتے ہیں اور ہر دور میں حکومت کا حصہ بنتے آرہے ہیں، ان کی خواہش اہم عہدوں پر فائز ہونا ہے گوکہ اس میں ماضی کے تجربات بھی شامل ہیں کہ بلوچستان میں سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے کس طرح سے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں، حکومتوں کو چلتا کیا گیا ،عدم اعتماد کی تحریک کبھی لائی گئی تو کبھی گورنر راج نافذ کیا گیا ۔