کوئٹہ : حکومت بلوچستان کے ترجمان اور صوبائی وزیر سردار عبد الرحمان کھیتران نے کہا ہے کہ پرامن اور خوش اسلوبی سے گوادر دھرنا ختم ہوا جو اصل جمہوریت ہے، یہ جمہوریت نہیں کہ آپ بکتر بند گاڑی سے اسمبلی گیٹ توڑ کر ایک منتخب عوامی نمائندے پر چڑھائیں ہماری حکومت میں بھی احتجاج ہو رہا ہے سوال پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی کسی کو انگلی بھی لگائیں ینگ ڈاکٹرز کا دھرنا اس بات کا ثبوت ہے۔
کوئٹہ: پبلک اکاونٹس کمیٹی کے چیئرمین اختر حسین لانگو نے کہاہے کہ سرکاری بسوں میں سفر کرنے والے ملازمین سے مکمل کنونس الائونس کاٹنا ناانصافی ہو گی جن ملازمین کے پاس سرکاری گاڑیاں ہوں ان سے کنونس الاونس کی کٹوتی کا جواز بنتا ہے لیکن پک اینڈ ڈراپ لینے والے ملازمین سے سرکاری گاڑی رکھنے والے ملازمین کی طرح مکمل الاونس کاٹنا ٹھیک نہیں ہو گاپی اے سی اپنے سابقہ رپورٹ میں ایک ارب 25کروڑ روپے مختلف محکموں سے ریکور کرکے سرکاری خزانے میں جمع کراچکی ہیں ۔
گوادر: سی پیک اور گوادر بندرگاہ کے نام پر حکمران ترقی کے سہانے ڈھول بجارہے ہیں۔ گوادر کا بلوچ بنیادی ضروریات اور روزگار کے لئے ترساں ہیں۔ بلوچستان حق دو تحریک ناانصافیوں کے خلاف بلوچ یکجہتی اور اتحاد کا استعارہ بن کر ابھری ہے۔ پشتون عوام بلوچستان حق دو تحریک کی مکمل حمایت کا اعلان کرتی ہے۔ اے این پی اس تحریک کی کامیابی کے لئے ثابت قدم رہے گی۔ ان خیالات کا اظہار عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی جنرل سیکریٹری ما بت کاکا اور ضلع لسبیلہ کے صدر عبدالعنان افغان نے بلوچستان کو حق دو تحریک کے 31 روز سے جاری دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے قائد اسفند یار ولی خان کی ھدایت پر اپنے بلوچ بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے یہاں آئے ہیں۔
کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے ممبرچیئرمین جاویدبلوچ نے کہاہے کہ حکمران افغانستان کے سیاسی معاشی وعمومی حالات کیلئے پریشان ہیں جبکہ بلوچستان کواکای کے بجاے کالونی کی طرح چلارہے ہیں افغانستان کے حالات میں بے جامداخلت عالمی مفادات کی تابع آزمائی کے پیش نظرپیچیدہ ہیں جن کی فکرکرنیوالے ہی ان حالات میں انھیں دکھیل کرمعاشی وسیاسی مفادات حاصل کرنے کے درپر ہے جنھیں المیوں وانسانی بحران تک پہنچانیکی ذمہ داری کوی قبول نہیں کررہے ہیں
کوئٹہ: نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر سابق وزیراعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ تحریک کبھی بھی کمزور نہیں ہوتی آہستہ آہستہ وسعت آتی ہے جب تک موجودہ حکومت نے الیکشن کرانے کا اعلان کیا ہے تب تک پی ڈی ایم کی تحریک جاری رہے گی اور اب اس میں مزید شدت آئے گی گوادر دھرنے کے شرکا کے مطابق جائز ہیں حکومت فوری انکے مطالبات تسلیم کریں نہیں تو وہ تحریک پورے بلوچستان میں پھیل سکتی ہے۔
کوئٹہ: قائدحزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان ایک نواب کی ذہنیت رکھتا ہے وہ عوام کے توقعات پر اور ان کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہا ان کی کوشش تھی کہ غیر منتخب افراد کوترقیاتی فنڈز جاری کرکے آئندہ انتخابات میں بلوچستان عوامی پارٹی کو زیادہ نشستیں حاصل ہوں لیکن افسوس ان کے پارٹی کے اندر ساڑھے تین سال بعد اختلافات آگئے جس کی وجہ سے انہیں وزارت اعلیٰ کے منصب سے ہٹادیا گیا۔
کوئٹہ: جمہوری وطن پارٹی کے مرکزی رہنماء چوہدری نوید نے کہا ہے کہ نواب اکبر خان بگٹی نے ایک خاتون کی عزت کی خاطر اپنے شاہانہ زندگی چھوڑ کرے پہاڑوں کا رخ کیا لیکن کوئٹہ میں بچیوں کو بلیک میل کرکے ان کے فحش ویڈیو بنانے والے پورے گینگ کو گرفتار کرکے اُسے عبرتناک سزا دکی جائے مجرموں کی پشت پناہی کرنے والوں میں سے کسی کے ساتھ رعایت نہ کی جائے۔
کوئٹہ : پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہاہے کہ آئین پاکستان میںاچھی باتیں لکھی ہے لیکن عمل کافقدان ہے ،موجودہ سسٹم آئینی نہیں اپنے منصب کا حلف تو سب لیتے ہیں لیکن اس وقت پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے سب غیر آئینی ہیں ،اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ وہ اپنے مرضی کا پاکستان ہم پر تھوپنے گا اور ہم اسکے ڈھول کی تھاپ پر پاکستان زندہ باد کہیں گے؟نہ بابا ہم پشتون و بلوچ اتنے بے غیرت بھی نہیں ،پاکستان کے 9 سال کا سارا جھگڑا یہ ہے کہ پنجاب بنگال کے اکثریت سے ڈرتا ہے جب اکانومی بیٹھ گئی تو سوویت یونین بے تحاشا اسلحوں ایٹم بموں فوجوں و اداروں کیساتھ ایک دن میں 16ملکوں میں بٹ گیا؟بدقسمتی سے پاکستان کی اکانومی بھی تیزی بیٹھ رہی ہے
کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ملک سکندر خان ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ میر عبدالقدوس بزنجو کو اپنے پیش رو جابر کی ظالمانہ اقدامات ہر گز نہیں دہرانے چاہیے، غریب عوام، بوڑھوں، بزرگوں، بچوں اور خواتین پر طاقت کی استعمال کی ہرگز اجازت نہیں دی جائیگی۔گوادر میں بنیادی انسانی حقوق کی شدید ابتری یقینا ایک لمحہ فکریہ ہے۔
کوئٹہ : صوبائی وزیر برائے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ میر ظہوراحمدبلیدی نے کہاہے کہ بلوچستان میں ترقی کیلئے مالیاتی گنجائش 75بلین سے زیادہ نہیں ہمارے پاس دو آپشنز ہیں یا تو ضرورت کے مطابق پی ایس ڈی پی پرنظرثانی یا پھر معمولی فنڈز مختص کئے جائیں البتہ ضرورت کی بنیاد پر پبلک سیکٹر کی ترقی کا جائزہ لینا ان اسکیموں کو آگے بڑھانے کے بجائے بہترین آپشن ہوگا جو صوبائی خزانے پر بوجھ بھی نہیں ہوگا۔