امریکہ میں ’ہفتہ آزادی ء اظہار‘ (Free Speech Week) کے نام سے ایک باقاعدہ ادارہ کام کرتا ہے، جو ہر سال اکتوبر کے تیسرے ہفتے میں اس سلسلے میں ایک سرگرمی منعقد کرتا ہے، جس کا بنیادی مقصد آزادی ء اظہار کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ اس ایونٹ میں افراد سے لے کر مختلف ادارے سبھی حصہ لے سکتے ہیں جو اس بنیادی انسانی حق کی ترویج پر یقین رکھتے ہوں۔ یہ تحریر و تقریر کے مختلف ذرائع استعمال کرتے ہوئے شہریوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی قسم کے خوف اور دباؤ سے بالاتر ہو کر اپنے خیالات کا اظہار کرنا ان کا بنیادی حق ہے۔
آج بھی یہ سوال معاشرے کے ایوانوں میں گونج رہی ہے کہ کیا معاشرے نے معذور افراد کو اپنا حصہ بنا لیا ہے یا ابھی تک انہیں یہ احساس دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ معاشرے میں ایک اور مخلوق کی صورت میں اپنا وجود رکھتے ہیں۔ 3دسمبر کو معذوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے اس دن کے منانے کا خاص مقصد معذوروں کے مسائل وضروریات نیز اسکی صلاحیتوں اور کارکردگی سے متعلق معاشرے اور حکومت کو متوجہ کرنا ہے۔ تاکہ مختلف اداروں کی بامقصد منصوبہ بندی ہوسکے۔اور آئندہ کا لائحہ عمل طے ہوسکے پاکستان کی قومی پالیسی 2007میں معذوروں کے حقوق اور حیثیت کا تعین کیا گیا ہے۔ لیکن اس پر عملدرآمد کے لئے جسطرح کے اقدامات کی ضرورت ہے
آج کل مری معاہدہ کا بڑا چرچا ہے ۔کہ 5 دسمبر 2015 کو چند دن باقی رہ گئے ہیں ۔یہ معاہدہ دراصل ایک سہ فریقی میثاق ہے ۔جو جون 2013 کو مری کی پر فضاو شاداب وادیوں میں تین سیاسی پارٹیوں کے درمیان طے ہوا تھا ۔یعنی مسلم لیگ (ن) کے میاں نواز شریف ،پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی اور نیشنل پارٹی کے میر حاصل خان بزنجو نے سر جوڑ کر بلوچستان میں حکومت سازی کے گنجلک اور پر پیچ مسئلہ کو بہ حسن و خوبی سلجھایا تھا ۔جس کے تحت ایک متفقہ فارمولا طے کیا گیا تھا جس میں اور بہت ساری شقوں کے علاوہ سب سے نمایا ں شرط یہ ٹھہری تھی کہ نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر
یہ بات بالکل غلط ہے کہ کسی کے نْقصان سے دُوسرے کا فائدہ نہیں ہوتا۔ جب تلک کوئی بیمار نہ پڑے ڈاکٹر کے گھر کا چھولا نہیں جلے گا۔ اگر کسی کا جوتا پھٹ جائے تب ہی موچی کو پیسے مل سکیں گے۔یہ بات آج میری سمجھ میں آگئی کیونکہ میرا موبائل ہاتھ سے گرکر ٹوٹ گیا تو میں بڑا پریشان ہوا، اور اُسے بنانے کے لیے موبائل رپیئرنگ کی دُکان پہ چلا گیا، ایک نوجوان فارغ بیٹھا پاکستان اور انگلینڈ کا میچ دیکھ رہا تھا اور اس تجسس کے ساتھ دیکھ رہا تھا کہ میرے اندر آنے کا اُسے پتا ہی نہیں چل سکا۔
زندگی سے اگر قدرتی مناظر کو جدا کیا جا ئے تو یقیناًزندگی کی خوبصورتی برقرار نہیں رہ سکتی۔ کسی کامقولہ ہے کہ صبح اٹھتے ہی اگر آپکی نظریں سبزہ زار پر پڑ جائیں تو یقیناًآپکے دماغ کے دریچے کھل سکتے ہیں اور آپ کھل کھلا سکتے ہیں۔ تو یعنی انسان اور ان شجروں کا رشتہ صدیوں پرانا ہے اسی رشتے کو برقرار رکھنے کے لئے مہذب قوموں نے انکی بقاء کے لئے جدو جہد کی ہے اور عملی جدو جہد کی ہے۔ اور ماحول کو خوشگوار بنانے کے لئے اور اسے پروان چڑھانے کے لئے درختوں کو اگانے کا کام کیا ہے۔
ایک دن راہ چلتے چلتے اچانک میری نظر ایک ایسی درخت پر پڑی
ٹھیکیدار نے دفتر میں داخل ہوتے ہی متعلقہ محکمے کے اعلیٰ افسر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جناب ہمارے بل ابھی تک پاس نہیں ہوئے کیا وجہ ہے ؟افسر نے کاغذات سے نظر ہٹانے کے بعد قلم ایک طرف رکھ کر اپنی عینک اتاری اور ٹھیکیدار کو بغور دیکھنے کے بعد کہا کہ آپ نے فلاں علاقے میں سڑک تعمیر کی ہے ؟ٹھیکیدار نے اثبات میں سر ہلایا۔ افسرنے پھر کاغذات کی طرف نظر دوڑانے کے بعد اسے دیکھ کر کہا کہ بل تو لیٹ ہونگے کیونکہ آپ کی بنی ہوئی سڑک تکمیل سے قبل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی ہے
ٹڑانچ میں اکیسویں صدی ابھی تک نہیں پہنچی اس کے باسی آج بھی انیسویں صدی کے باشندے لگتے ہیں اور اسی میں جی رہے ہیں۔ آیا وہ اپنی اسی زندگی کے ساتھ خوش ہیں یا انہیں جینے پر مجبور کیا گیا ہے؟ ٹڑانچ کے بارے میں سنا تو تھا لیکن کبھی جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ بیلہ میں ٹڑانچ سے آئے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ نام پوچھنے پر ان میں سے ایک نے اپنا نام بابو بتایا۔ پہلے یہ سمجھا کہ چونکہ ہمارے ہاں کلرک کو بابو کہتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ یہ کسی ادارے میں ‘بابو گیری’ کا کام کرتے ہوں۔
پنجگور واقعی اسم باسمیٰ بن گیا ہے یعنی پانچ قبروں کا دیس۔ اب جیسا نام ویساکام اور جیسی روح ویسے فرشتے کا مقولہ بھی اس پر صادق آنے لگا ہے۔ اس کو میں کبھی قبول نہ کرسکا کہ تاریخ اس کے برعکس تعبیر کی نشاندہی کرتی ہے اور ہم نے جب ان قبروں یا مردوں کو ڈھونڈا تو ان کو تلاش نہ کرسکے یہاں پانچ صحاب کرام کی قبریں ہیں۔
سکندر و اعظم اپنے استاد محترم کے ہمراہ کہیں جارہے تھے راستے میں ایک دریا آیا جس کو پار کرنے میں موت کا خطرہ تھا تو اسکندر اعظم جب دریا پار کرنے لگے تو استاد محترم نے روک کر کہاکہ آپ بادشاہ ہو ۔کئی آپکو کچھ ہو گیا تو سلطنت کا کیا بنے گا اس لئے پہلے میں جاتا ہوں بعد میں آپکو اندازہ ہو جائے گا کہ ردیا کتنا خطر ناک ہے
یہ بی بی سی لندن ہے اب آپ رضا علی عابدی سے خبریں سنئیے‘‘ اپنے دور کی خوبصورت آواز کے ساتھ ایک خوبصورت نام ۔ خبریں سننے کے لئے سامعین کی ایک بڑی تعداد ریڈیو کے گرد جمع ہوکر بیٹھ جاتے تھے۔ پھر کس کی مجال کہ دوران خبر کسی خبر پر تبصرہ کرتا بس ایک گھنٹہ ساکت ہوکر گزارنا پڑتا تھا۔