|

وقتِ اشاعت :   November 16 – 2015

ٹھیکیدار نے دفتر میں داخل ہوتے ہی متعلقہ محکمے کے اعلیٰ افسر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جناب ہمارے بل ابھی تک پاس نہیں ہوئے کیا وجہ ہے ؟افسر نے کاغذات سے نظر ہٹانے کے بعد قلم ایک طرف رکھ کر اپنی عینک اتاری اور ٹھیکیدار کو بغور دیکھنے کے بعد کہا کہ آپ نے فلاں علاقے میں سڑک تعمیر کی ہے ؟ٹھیکیدار نے اثبات میں سر ہلایا۔ افسرنے پھر کاغذات کی طرف نظر دوڑانے کے بعد اسے دیکھ کر کہا کہ بل تو لیٹ ہونگے کیونکہ آپ کی بنی ہوئی سڑک تکمیل سے قبل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی ہے ۔ٹھیکیدار نے یہ جواب سن کر کہا کہ جناب سنیے کیا ہمارے ملک میں ایسی کوئی سڑک ہے جو چھ مہینے سے زیادہ چلی ہو۔ یہ کہانی کسی دوست نے سنائی جو شاید وہاں اپنے کسی کام سے گیا تھا ٹھیکوں کیلئے باقاعدہ کمیشن کے نام سے پیسے لینے کا سلسلہ جاری ہے جس کے بغیر ٹھیکیدار کے بل پاس نہیں ہوتے جو ایک طرح لیگل ہے جس کے نہ ملنے سے نہ صرف ٹھیکیدار کے بل روک دئیے جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات ٹینڈر بھی منسوخ کردیے جاتے ہیں چہ جائیکہ اس ٹھیکے کے خاتمے سے اس علاقے کے کسی بھی فلاحی منصوبے سے کتنے لوگوں کا نقصان ہو ۔کمیشن سسٹم کا خاتمہ کیا جائے اس کیلئے قانون سازی کی ضرورت ہے ۔ترقی یافتہ ممالک میں کسی بھی ٹھیکے میں کل رقم کا 70فیصد خرچ کرنا ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں کمیشن اور دوسرے ناموں سے اتنے پیسے لیے جاتے ہیں کہ ٹھیکیدار کے بقول چھ مہینے بھی نہیں چلتے تو ایسے منصوبوں کی افادیت اور پائیداری کیا ہوگی سوچنے کی بات ہے ۔اگر بغور جائزہ لیں تو ہمیں اس طرح کی کئی مثالیں ملیں گی جس میں ناقص میٹریل ،ناقص کام اور کرپشن کی وجہ سے وہ منصوبہ ناکامی سے دوچار ہوا اور یہ سلسلہ چھوٹے پیمانے لیکر اعلیٰ سطح تک ہورہا ہے ۔ نیب کی کوششیں کسی حد تک کامیاب ہیں جس کے باعث بدعنوانی میں ملوث عناصر گرفتار کرکے پیسے وصول کرکے ان کو سزائیں بھی ملی ہیں لیکن ایسے واقعات کی تشہیر کم ہے جس کے باعث جو لوگ کرپشن کررہے ہیں یا دوسرے ذریعے سے پیسے کمانے کے چکر میں سرکاری خزانے کو نقصان پہنچارہے ہیں تو وہ بلا خوف و خطر یہ کام کررہے ہیں اس کیلئے ایسے بدعنوانی لوگوں اور ان کے کرپشن کی داستانیں او ر سزائیں ہر ایک تک پہنچانا لازمی ہے تاکہ دوسرے عبرت حاصل کریں جیسے اگر کسی کو قتل کے جرم کی سزا سرعام دی جائے تو بہت سے دوسرے لوگ بھی ڈر سے ایسا نہیں کرینگے ۔پہلے سننے میں�آتا تھا کہ فلاں شخص نے اتنے کا غبن کیا اور نیب نے کارروائی کرکے اسے گرفتار کرلیا جرم ثابت ہونے پر اس نے نیب کیساتھ بارگیننگ کرلی او ر کچھ رقم ادا کرکے پھر سینہ پھلا کر واپس اپنے کام میں لگ گیا جس سے ایک تاثر نکل رہا تھا کہ بدعنوانی کرکے پھر بھی سرخرو ہونا آسان ہے لیکن اب جن بدعنوان لوگوں کو سزائیں ملنا اور ان کی جائیداد کی ضبطی کے فیصلے اگر اسی طرح جاری رہے اور کوئی بھی بااثر شخص اس سے بچ نہ پائے تو شاید اگلے وقتوں میں بدعنوانی کا خاتمہ ہوجائے لیکن کڑا احتساب ہونا ضروری ہے جس میں یہ تخصیص نہ ہو کہ یہ کسی وزیر یا بڑے عہدیدار کا بندہ ہے میڈیا بدعنوانی کے خاتمے میں ا ہم کردار ادا کرسکتاہے لیکن اس کیلئے ایسے قوانین لانے چاہیں جس کے ذریعے وہ ایسے چیزوں کو سامنے لائے جس سے اس کی تحقیر ہو تشہیر نہ ہو۔ کچھ عرصے سے چلنے والے ایک اسکینڈل میں منی لانڈرنگ کی گئی او ر ایک ملک کی مشہور ماڈل اس میں ملوث پائی گئیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ میڈیا میں ماڈل زیادہ نظر آتی ہیں اس کا خراب کام نظر نہیں آتا جس سے نہ صرف ماڈل کی پبلسٹی ہورہی ہے اور وہ مزید مشہور ہوگئیں اور اس سے دوسروں کو بھی سبق ملا کہ کچھ خراب کرکے مشہور ہونا آسان ہے اگر میڈیا یہاں منی لانڈرنگ کے مضمرات اور اس سے ملک کو نقصان کو زیادہ واضح کرتا تو شاید دوسروں کو کچھ نصیحت ہوجاتی ایسے کیسوں میں میڈیا کو راہ راست پر لانے کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے ۔بدعنوانی کے خاتمے کیلئے تین راہنما اصولوں پر عمل درآمد ضروری ہے ۔تعلیم پر توجہ: تعلیم واحد ذریعہ ہے جس کے بغیر کسی بھی بڑی تبدیلی ممکن نہیں اس لیے پرائمری لیول سے لیکر یونیورسٹی کی سطح تک تعلیم کے فروغ کیلئے اقدامات کرنے ہونگے اور تمام نوجوان نسل کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہوگا اور یہ ضروری ہے کہ تعلیم ہر بچے تک پہنچے لیکن یہ صرف فارمل سکولوں تک محدود نہ ہو بلکہ مذہبی اور کمیونٹی کے اداروں کے ذریعے بھی تعلیم کو عام کیا جائے ،فنی تربیت اور انٹر ن شپ کے مواقع پید اکیے جائیں اور ایسا ماحول بنایا جائے جس کے ذریعے نوجوان اور سیاسی اداروں کے درمیان خلیج کا خاتمہ ہو تاکہ زیادہ ڈائیلاگ اور رابطہ کا ذریعہ بن سکے جس کے ذریعے ایک نیا معاشرہ تشکیل پاسکتاہے ۔پرائمری جو کہ بنیادی تعلیم ہے اس میں آسان نصاب رکھا جائے کہ طلباء لکھ پڑ ھ سکیں کیونکہ اکثر بچے پرائمری کے بعد سکول چھوڑ دیتے ہیں یا مڈل کے بعد تو اس طرح شرح خواندگی بہتر نہیں ہوسکتی وہ اپنے حقوق سمجھ نہیں پاتے اور بدعنوانوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں ۔دیانتداری کا کلچر عام کرنا : تعلیم کیساتھ ہمیں دیانت داری کے کلچر کو بھی عام کرنا ہے جو ایک معاشرے میں ایک Hard wiredکام ہے دیانت داری پر مشتمل معاشرے کے ذریعے کوئی بھی بڑی تبدیلی اور ترقی ممکن ہے ۔اسلام نے بھی کسی بھی معاشرے کی بہتری اور اس کی ترقی کیلئے دیانتداری کو اہم اصول قرا ردیا ہے ۔اس کیلئے ہمارے پاس خلفائے راشدین حضرت عمرؓ کی مثال سب سے اہم ہے کہ جب اس نے ایک بار اپنے تنخواہ ایڈوانس لینے کا سوچا اورا س کا تذکرہ گھر میں اہلیہ کیساتھ کیا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ آپ ایک مہینے کی بات کررہے ہیں کیا آپ پاس ایک مہینے تک زندہ رہنے کی گارنٹی ہے جس کے بعد انہوں نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا یہ ایک بہتری مثال ہے کہ عہدیدار وں میں خود احتسابی ہو تو وہ بدعنوان نہیں بن سکتے ۔سخت اور کڑا احتساب : کسی بھی معاشرے کی کامیابی کیلئے احتساب اور دیانتداری دو لازمی جز ہیں احتساب کا عمل سب کیساتھ یکساں ہونا چاہیے جس میں سیاسی رہنما ،سرکاری ملازم اور پرائیوٹ سیکٹر میں کام کرنیوالے شامل ہیں کیساتھ کوئی رعایت نہ کی جائے تب جاکر ایک ایسا معاشرہ تشکیل پاسکتا ہے جہاں تمام کام دیانتداری کیساتھ ہونگے اور معاشرہ ترقی کرسکتا ہے اگر ہم ماضی کی طرف نظر دوڑائیں تو ہمیں کچھ ایسی چیزیں نظر آئینگی جو سو سال قبل بنائی گئیں لیکن آج تک پائیدار حالت میں ہیں جن کو بنانے والے انگریز تھے لیکن انگریز صرف نگرانی کرتا تھا کام یہاں کے مقامی باشندے کرتے تھے جنہوں نے پل ،سڑکیں ،برج اور سرنگیں بنائیں لیکن ان کی پائیداری کی وجہ یہ تھی کہ کام لینے والا بندہ دیانتدار تھا اور اس نے اپنے کام سے غداری نہیں کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ تمام ابھی تک قائم ہیں اس لیے آج بھی نگرانی کرنیوالوں کو دیانت دار بننا ہوگا جس کے لیے تعلیم کے ذریعے دیانتداری کو عام کرکے نوجوان نسل کی ایک ایسی کھیپ تیار کرنا ہوگی جو معاشرہ کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکے جبکہ کرپٹ لوگوں کیلئے معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے ۔