|

وقتِ اشاعت :   November 8 – 2015

ٹڑانچ میں اکیسویں صدی ابھی تک نہیں پہنچی اس کے باسی آج بھی انیسویں صدی کے باشندے لگتے ہیں اور اسی میں جی رہے ہیں۔ آیا وہ اپنی اسی زندگی کے ساتھ خوش ہیں یا انہیں جینے پر مجبور کیا گیا ہے؟ ٹڑانچ کے بارے میں سنا تو تھا لیکن کبھی جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ بیلہ میں ٹڑانچ سے آئے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ نام پوچھنے پر ان میں سے ایک نے اپنا نام بابو بتایا۔ پہلے یہ سمجھا کہ چونکہ ہمارے ہاں کلرک کو بابو کہتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ یہ کسی ادارے میں ‘بابو گیری’ کا کام کرتے ہوں۔ میرے دوبارہ اصرار پر بھی انہوں نے اپنا نام بابو ہی بتایا اور اپنے آپ کو تعلیم سے بے بہرہ قرار دیا۔ بابو کا خاندان کئی پشتوں سے ٹڑانچ میں آباد ہے (ٹڑانچ ضلع آواران کی تحصیل جھاؤ کی حدود میں آتا ہے) لیکن ان کی حالات زندگی میں کوئی تبدیلی کبھی نہیں آئی۔ بابو کے پانچ بچے ہیں، بابو خود بھی ان پڑھ ہے اور یہی حال اس کے پانچ بچوں کا ہے۔ بابو کے ساتھ ایک اور لڑکا غلام قادر تھا جو عمر میں بابو سے چھوٹا تھا لیکن ذہانت میں بابو کی نسبت ذرا تیز تھا میں بابو سے سوال کرتا تھا تو وہ بابو کے منہ سے بات چھین کر خود اس کا جواب دیا کرتا تھا۔ مجھے امید کی کرن نظر آئی کہ بابو نہ سہی تو غلام قادر ہی سہی ہو سکتا ہے وہ کچھ پڑھا لکھا ہو۔ تعلیم کا نام سن اس کا جواب بھی وہی تھا کہ تعلیم سے ان کا دور کا واسطہ بھی نہیں۔ البتہ ساتھ کھڑے مولانا کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ مولانا صاحب ان کے بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ کیا پڑھاتے ہیں جواب ملا سپارہ۔ یعنی تعلیم کا دائرہ صرف دینی تعلیم اور وہ بھی ناظرہ تک محدود ہے۔ بابو کے بقول ٹڑانچ کی آبادی 400گھرانوں پر مشتمل ہے۔ زندگی کی تمام تر جدید سہولیات سے محروم یہ علاقہ ان گھرانوں کی کئی پشتوں سے آبا ئی علاقہ ہے۔ ناپید شہری سہولتوں کے باوجود یہاں کے باسیوں نے آج تک نہ تو خود تبدیلی کا راستہ چنا اور نہ ہی حکومت کی توجہ حاصل کر سکے۔ البتہ 2008کے انتخابات تک ان کے ووٹ موجودہ صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر اور اس کے والد سابق ایم پی اے آواران کو جاتے تھے۔ میرے سوال کرنے پر کہ ووٹ دینے کے بعد کبھی اپنے حقوق مانگنے کے لیے حکام بالا کا دروازہ کھٹکھٹایا یا منتخب نمائندوں نے علاقے کا دورہ کرکے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرائی تو ان کا جواب نفی میں تھا۔ آواران کی حدود میں واقع تین صدیوں سے زائد عرصے سے آباد اس علاقے کے مکین اپنا راشن پانی لینے بیلہ کا رخ کرتے ہیں جہاں سے وہ مہینے بھر کا سامان اونٹوں پر لاد کر اپنے گھر لاتے ہیں۔ پکی سڑک کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے کئی گھنٹے کا سفر پیدل یا اونٹوں کے ذریعے طے کرنا پڑتا ہے۔ ٹڑانچ سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر افراد بیلہ میں پرچون کی دکان چلانے والے سیٹھ عبدالمجید سے راشن خریدنے آتے ہیں۔ عبدالمجید کا ناطہ ٹڑانچ والوں سے نہ صرف پرانا ہے بلکہ وہ ان کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ضرورت کے وقت ادھار بھی دیتے ہیں۔ عبدالمجید کہتے ہیں کہ ٹڑانچ سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر افراد کے روزگار کا ذریعہ گلہ بانی ہے۔ 100سے زائد افراد اپنے خاندان کی کفالت کے لیے متحدہ عرب امارات میں محنت مزدوری کر رہے ہیں جہاں سے وہ اپنے گھر والوں کو پیسے بھیجتے ہیں۔ ٹڑانچ اور آس پاس کے علاقوں میں ہسپتال یا رابطے کے لیے موبائل یا ٹیلی فون جیسی سہولت موجود نہیں۔ قریب ترین ہسپتال 120 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جہاں کچے اور دشوار گزار راستے کی وجہ سے پہنچنے میں دس گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔ عبدالمجید نے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کئی سال پہلے جب ٹڑانچ میں گلے کی بیماری پھیل گئی تھی اور کئی افراد اس وبا ء کی زد میں آکر ہلاک ہوگئے تھے تو عبدالستار ایدھی صاحب خود ایدھی فاؤنڈیشن کی امدادی ٹیمیں لے کر آئے تھے۔ اس دوران عبدالستار ایدھی کی ٹیم کو کہیں پیدل تو کہیں اونٹ پر سفر کرنا پڑا تھا۔ بڑی مشکلات کے بعد وہ متاثرہ علاقے تک پہنچے اور کئی روز تک لوگوں کی تیمارداری کرتے رہے۔ کئی دن تک رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے عبدالستار ایدھی اور ان کی ٹیم کی گمشدگی کی افواہیں گردش کرنے لگیں تو فوج نے ہنگامی بنیادوں پر انہیں وہاں سے نکالا اس موقع پر جو تاثرات ایدھی نے پیش کیے وہ رلانے کے لیے کافی تھے۔ اتنی بڑی آبادی آخر صحت و تعلیم کی سہولت سے محروم کیوں؟ بابو کہتا ہے کہ حکومت کی جانب سے ایک پرائمری اسکول یہاں بنایا گیا تھا لیکن آج تک اس میں کوئی استاد تعینات نہیں کیا گیا ہے۔ اگر کیا گیا ہے تو بھی وہ اس حوالے سے لاعلم ہیں کیونکہ اسکول آج بھی ویسے کا ویسا ہے۔بابو سے جب پوچھا کہ کیا کبھی انہوں نے اپنے بچوں کی مستقبل کی زندگی کے بارے میں سوچا ہے تو وہ جواب دیتا ہے کہ وہ کیوں سوچے؟ آخر حکومت کو ہی سوچنا چاہیئے۔ بابو کے بقول تعلیم کی طرح صحت کی سہولیات بھی نا پیدہیں۔ زچگی کے موقع پر ماؤں کی اموات کی شرح انتہائی زیادہ ہے۔ گو کہ وہ تعداد بتانے سے قاصر ہیں لیکن سڑکوں کی مخدوش صورتحال اور صحت عامہ کی سہولیات کی عدم دستیابی بابو کے دعوؤں کو تقویت پہنچانے کے لیے کافی ہیں۔ بابو کی بات مجھے حیرت زدہ کر گئی کہ کسی بیماری کی صورت میں انہیں ڈاکٹر کی فیس دس ہزار روپے تک برداشت کرنا پڑتی ہے۔ پورے علاقے میں نہ صحت کی سہولت موجود ہے نہ دیگر ضروریات زندگی پھر آخر وہ کون سی چیز ہے جو بابو اور باقی ماندہ افراد کو اپنی طرف کھینچ کے رکھتی ہے وہ ہے اس زمین سے محبت۔ یہاں کے مکین کہیں اور جانے کا نہیں سوچتے بلکہ وہ تمام تر سہولیات سے محرومی کے باوجود اس علاقے کو اپنے وجود کا ضامن قرار دیتے ہیں۔ اکیسویں صدی مواصلاتی رابطوں، جدید ٹیکنالوجی اور شہری سہولیات کے ذریعے زندگی کو نیا رنگ دے رہی ہے مگر ٹڑانچ کے باسی آج بھی انیسویں صدی کے باسی ہیں، نہ انگریزوں نے ان کی حالت بدلی نہ پاکستان کے بننے سے انہیں کچھ ملا۔ حکومتیں بدلنے سے بھی ان کے ہاتھ کبھی کچھ نہیں آیا وہ اب بھی اونٹوں پر سفر کرتے ہیں، جڑی بوٹیوں سے اپنا علاج کرتے ہیں اورمریض کو مرتا دیکھ کر غم کے آنسو پی جاتے ہیں لیکن پھر بھی وہ اپنے حالات میں تبدیلی کا نہیں سوچتے۔میں سوچتا ہوں کہ کیوں نہیں سوچتے؟؟