خون ناحق

| وقتِ اشاعت :  


یار کورونہ وائرس نے زندگی عذاب بنادی اب ویسے بھی کلاسز نہیں ہونگے اس لیے میں نے سوچا ہے کچھ ٹائم اپنے گھر جاکر گزارا جائے،وہاں میری ماں، میرے بابا اور بھائی بہن کب سے میرے منتظر ہیں۔ مجھے اپنے بلوچستان کی مٹی یاد آرہی ہے مجھے اپنی زمین سے پیار ہے، میں بلوچستان ہوں، ویسے بھی اب کراچی یونیورسٹی میں میرا آخری سال ہے اس کے بعد میں سی ایس ایس کر کے ملک اور قوم کا نام روشن کرونگا۔ چہرے پر ہمیشہ مسکان رکھنے والا جوان جو یاروں کا یار اور محفل کی جان بھی تھا سب دوستوں سے الوداع کیا اور کراچی سے تربت کا سفر شروع کیا۔



حضرت خالد ؓ بن ولید؛ ایک مثالی سپہ سالار

| وقتِ اشاعت :  


حضرت خالد بن ولید ؓ کا تعلق قریش کے ایک نمایاں خانوادے سے تھا۔ ابتدا ہی سے ان کی شناخت ایک جرات مند اور زیرک سپاہی کی تھی۔ قبول اسلام سے قبل مسلمانوں کے خلاف میدان اُحد میں وہ قریش کے گھڑ سواروں کے دودستوں میں سے ایک کی سربراہی کررہے تھے، جب کہ دوسرا دستہ عکرمہ کی سربراہی میں تھا۔ اُحد میں جب لشکر اسلام کے تابڑ توڑ حملے کے سامنے قریش کی پیادہ فوج کے قدم اکھڑ رہے تھے تو خالد دور سے میدان کا جائزہ لے رہے تھے اور موقعے کی تلاش میں تھے۔ اسی وقت اس جنگی حکمت کار کی نگاہوں نے دیکھا کہ عقب میں گھاٹی سے مسلمانوں کے تیر انداز میدان میں اپنی برتری دیکھتے ہوئے اپنی پوزیشن چھوڑ گئے ہیں۔ نبی ﷺ نے ان تیر اندازوں کو اس مقام پر جمے رہنے کی تاکید کی تھی لیکن یہاں موجود چند تیر اندازوں کے علاوہ دیگر اس فرمان سے روگردانی کے مرتکب ہوئے جس کی وجہ سے مسلمانوں کو میدان میں پہلی مرتبہ پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔



*تجدید یوم آزادی,ملکی ترقی اور ہماری غلامانہ سوچ*

| وقتِ اشاعت :  


پاکستان 14اگست کو وجود میں آیا۔دنیا میں دو ممالک پاکستان اور اسرائیل ہیں جو مذہب کے نام پر معرض وجود میں آئے اسی وجہ سے ہی پاکستان کا مطلب کیا لا الہ اللہ کے نعرے لگائے گئے۔ لیکن قائداعظم کا پاکستان ہمارے حکمرانوں کی نااہلی کے باعث ترقی سے ہمکنار ہونے کے بجائے ایشیاء کے تمام چھوٹے بڑے ممالک میں معاشی و اقتصادی حوالے سے سب سے آخری نمبر پر آچکا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان قائداعظم کی انتھک محنت اور قائدانہ صلاحتیوں کی بدولت مسلمانان ہند کو عرض پاک جیسا عظیم اور خوبصورت ملک نصیب ہوا، یقینا آزادی جیسی عظیم نعمت پاکستانیوں کیلئے قدرت کا ہی تحفہ ہے۔



اندیکھی بندشوں سے آزادی کا جشن کب منائیں گے؟

| وقتِ اشاعت :  


اگست آزادی کا مہینہ ہے جشن آزادی ہر سال کی طرح اس بار بھی جوش سے منائیں گے جہاں توپوں کی سلامی ہو گی، تقاریب ہونگی، سیمینار ہونگے، گلی گلی قریہ قریہ قومی پرچم، جھنڈا، برقی قمقمے سجے ہونگے لیکن بے انصافی، ظلم، جبر، حقوق کی پامالی اور ان دیکھی بندشوں سے آزادی کا جشن کب منائیں گے، نہیں معلوم۔ اگست آتے ہی جہاں قومی دن کی تقریبات کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں وہیں ذرائع ابلاغ کے ذرائع ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے جشن آزادی کی تیاریاں، لوگوں کا جوش و جذبہ اور ساتھ ہی کبھی کبھار علیحدہ وطن کے اغراض و مقاصد، تحریک آزادی اور دو قومی نظریے پر بھی روشنی ڈال دیتے ہیں۔



آخر ترقی کیا بھلا ہے؟

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے جس کے حکمران اپنے عوام کو سوائے جھوٹی تسلی اور سبز باغ دکھانے کے اورکچھ نہیں کرتے۔ پچھلے کئی دہائیوں سے حکمرانوں نے اپنی نااہلی اور کمزوری کا ذمہ دار کبھی وفاق کو یا کبھی قبائلی سرداروں کو ٹھہرایا ہے تاکہ اپنی نااہلی کو چھپا سکیں۔بلوچستان میں جتنی بھی حکومتیں آئیں ان کا ہمیشہ سے دعویٰ رہا ہے کہ انھوں نے یہاں ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا ہے مثلاً تعلیمی اداروں کے لئے رنگ ورغن کے اخراجات، ایسے سکول،کالجزکو اپ گریڈ کرنا جہاں پہلے سے ہی اساتذہ اورپروفیسرز کی کمی ہویا۔



*حزب اختلاف کے چھپے وار*

| وقتِ اشاعت :  


اپنے قیام کے وقت سے پاکستان میں بظاہر تو پارلیمانی جمہوریت اور وفاقی نظام ہے لیکن حکمرانوں نے اس طرزِ حکومت و سیاست کے بنیادی اصولوں کو سمجھا ہی نہیں۔ سول حکمرانوں نے ابتدا ہی سے ذاتی، خاندانی اور گروہی مفادات کے لیے اپنی توانائیاں صرف کیں اور اپنے خاندانی اور گروہی مفادات کے لیے سیاسی جماعتوں کو آلے کے طور پر استعمال کیا۔ جاگیردار صنعت کار بن گئے اور بہت سے بارسوخ لوگوں جاگیردار، ان دونوں ہی نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے اسٹیٹس کو برقرار رکھا اور عوام نے اس کی قیمت ادا کی۔ انہی حالات کے پیش نظر فوج نے ملک کی سالمیت کو بچانے کے لیے بار بار زمام اقتدار سنبھالنا ضروری جانا اور ہماری نصف قومی تاریخ فوجی اقتدار میں گزری لیکن ان ادوار میں بھی جمہوری طرز عمل اور نظام حکومت کے اصلاح کو فروغ نہیں مل سکا۔



لاوارث بلوچستان

| وقتِ اشاعت :  


موجودہ اور سابقہ حکومتوں کے کھوکھلے دعوؤں کے پول کھول گئے، بارش کیا ہوئی عربوں اور کروڑوں روپے مالیت سے بنے روڈ سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔ ہر طرف غریبوں کی بستیاں ڈوب رہی ہیں غریب رو رہا ہے سینکڑوں لوگ بے گھر ہوئے،خدا سے مدد مانگی جارہی ہے زمینی خداؤں نے تو صرف قبضہ جما رکھا ہے۔ڈوبے ہوئے بستیوں میں سوائے فوٹو سیشنز کے کچھ نہیں ہو رہا۔ فلاں خان نے فلاں جگہ کا دورہ کیا اور فوٹو نکال کر رفو چکر ہوگیا۔ ہر جانب افرا تفری کا عالم ہے لوگوں کی امیدیں اب صرف خدا سے جڑی ہیں۔



*موت کا کنواں *

| وقتِ اشاعت :  


گوادر کے مختلف وارڈز(ماہی گیروں کے علاقے) میں درجنوں مکانات انتہائی خستہ حال و ناقابلِ استعمال ہیں اور کسی بھی وقت بڑے حادثے کا سبب بن سکتے ہیں جس سے قیمتی جانوں کا ضیاع ہو سکتا ہے۔ مملْکتِ خْدائے داد کا عالمی شْہرت یافتہ شہر گوادر میں درجنوں ایسے خاندان ہیں جن کو چوبیس گھنٹوں میں بمشْکل ایک وقت کی روکھی سوکھی روٹی نصیب ہوتی ہے۔ الغرض روزانہ کی بنْیاد پر اگر اْنکو مزدوری نہ ملے تو رات کو اْنہیں کھانا نصیب نہیں ہوتا جسکی وجہ سے وہ کسی چھوٹی سی مرض سے اپنے کمزور و لاغر جِسم اور کم قوتِ مْدافعت کے سبب موت کے آغوش میں چلے جاتے ہیں۔



میر بزنجو۔۔۔ ایک سیاسی تاریخ

| وقتِ اشاعت :  


کون نہیں جانتا کہ تاریخ کے دو بڑے حصے ہوتے ہیں ایک وہ جس کو ہم ماضی کہتے ہیں یعنی جو گزر چکا ہے اور دوسرا وہ جسکو مستقب کا نام دیا جاتا ہے یعنی جو آنے ولا ہے جس کو ظہور پذیر ہونا ہے اگر کسی بھی ملک کی سیاسی قیادت وژنری ہے اور عقل و بصیرت رکھتا ہے تب وہ اپنی تاریخ میں سر زد ہوین والے غعلطیوں سے مستفید ہوکر ماضی اور حال کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی روشن مستقبل کے لئے اس قسم کی پالیسی اور حکمت عملی مرتب کرتا ہے تاکہ آنے والے چیلنجوں کا بخوبی مقابلہ کیا جاسکے اور نا اہل اور نالائق قیادت اپنے ملک اور قوم کے ساتھ وہی سلوک کرتا ہے جو دھمک لکڑی کے ساتھ کتا ہے۔



بابا بزنجو۔۔ جہد مسلسل

| وقتِ اشاعت :  


آج دنیا کی بدلتی ہوئی صورتحال اور خصو صاًبلوچستان کے اندر گذشتہ برسوں سے جو کچھ ہوتا چلا آرہا ہے اور موجود ہ حالات کے تنا ظر میں دور اندیش رہنما بابا نزنجو کے سائے سے محروم ہم تقسیم در تقسیم کے مراحل سے دو چار ہیں۔ آنے والے حالات اور ان کے اثرات ابھی سے جس طرح ہم پر پڑ رہے ہیں ان کو دیکھ کر بابا بزنجو کی شدید کمی محسوس کر تے ہیں۔ گزشتہ دہائیوں میں بابا بزنجو کی جمہوری و عملی سیاست، ان کے تبصرے اور سیاسی بصیرت ان کے بتائے ہوئے مشاہدے جس طرح سچ ثابت ہوئے ہیں ان کا انداز ہ آج عرب ممالک کے اندر، افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے اور سوویت یونین میں جو آخری مرتبہ آپ نے گوربا چوف اور دیگر عالمی رہنماؤوں سے ملاقاتیں کی اور سوویت یونین کے اندرونی حالات کا جو جائزہ لیا اور جو پیش بینی کی اور ان کے اثرات، دنیا پر کس طرح اثر انداز ہونگے وہ آج سب کے سامنے ہیں۔