اپنے قیام کے وقت سے پاکستان میں بظاہر تو پارلیمانی جمہوریت اور وفاقی نظام ہے لیکن حکمرانوں نے اس طرزِ حکومت و سیاست کے بنیادی اصولوں کو سمجھا ہی نہیں۔ سول حکمرانوں نے ابتدا ہی سے ذاتی، خاندانی اور گروہی مفادات کے لیے اپنی توانائیاں صرف کیں اور اپنے خاندانی اور گروہی مفادات کے لیے سیاسی جماعتوں کو آلے کے طور پر استعمال کیا۔ جاگیردار صنعت کار بن گئے اور بہت سے بارسوخ لوگوں جاگیردار، ان دونوں ہی نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے اسٹیٹس کو برقرار رکھا اور عوام نے اس کی قیمت ادا کی۔ انہی حالات کے پیش نظر فوج نے ملک کی سالمیت کو بچانے کے لیے بار بار زمام اقتدار سنبھالنا ضروری جانا اور ہماری نصف قومی تاریخ فوجی اقتدار میں گزری لیکن ان ادوار میں بھی جمہوری طرز عمل اور نظام حکومت کے اصلاح کو فروغ نہیں مل سکا۔
موجودہ اور سابقہ حکومتوں کے کھوکھلے دعوؤں کے پول کھول گئے، بارش کیا ہوئی عربوں اور کروڑوں روپے مالیت سے بنے روڈ سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔ ہر طرف غریبوں کی بستیاں ڈوب رہی ہیں غریب رو رہا ہے سینکڑوں لوگ بے گھر ہوئے،خدا سے مدد مانگی جارہی ہے زمینی خداؤں نے تو صرف قبضہ جما رکھا ہے۔ڈوبے ہوئے بستیوں میں سوائے فوٹو سیشنز کے کچھ نہیں ہو رہا۔ فلاں خان نے فلاں جگہ کا دورہ کیا اور فوٹو نکال کر رفو چکر ہوگیا۔ ہر جانب افرا تفری کا عالم ہے لوگوں کی امیدیں اب صرف خدا سے جڑی ہیں۔
گوادر کے مختلف وارڈز(ماہی گیروں کے علاقے) میں درجنوں مکانات انتہائی خستہ حال و ناقابلِ استعمال ہیں اور کسی بھی وقت بڑے حادثے کا سبب بن سکتے ہیں جس سے قیمتی جانوں کا ضیاع ہو سکتا ہے۔ مملْکتِ خْدائے داد کا عالمی شْہرت یافتہ شہر گوادر میں درجنوں ایسے خاندان ہیں جن کو چوبیس گھنٹوں میں بمشْکل ایک وقت کی روکھی سوکھی روٹی نصیب ہوتی ہے۔ الغرض روزانہ کی بنْیاد پر اگر اْنکو مزدوری نہ ملے تو رات کو اْنہیں کھانا نصیب نہیں ہوتا جسکی وجہ سے وہ کسی چھوٹی سی مرض سے اپنے کمزور و لاغر جِسم اور کم قوتِ مْدافعت کے سبب موت کے آغوش میں چلے جاتے ہیں۔
کون نہیں جانتا کہ تاریخ کے دو بڑے حصے ہوتے ہیں ایک وہ جس کو ہم ماضی کہتے ہیں یعنی جو گزر چکا ہے اور دوسرا وہ جسکو مستقب کا نام دیا جاتا ہے یعنی جو آنے ولا ہے جس کو ظہور پذیر ہونا ہے اگر کسی بھی ملک کی سیاسی قیادت وژنری ہے اور عقل و بصیرت رکھتا ہے تب وہ اپنی تاریخ میں سر زد ہوین والے غعلطیوں سے مستفید ہوکر ماضی اور حال کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی روشن مستقبل کے لئے اس قسم کی پالیسی اور حکمت عملی مرتب کرتا ہے تاکہ آنے والے چیلنجوں کا بخوبی مقابلہ کیا جاسکے اور نا اہل اور نالائق قیادت اپنے ملک اور قوم کے ساتھ وہی سلوک کرتا ہے جو دھمک لکڑی کے ساتھ کتا ہے۔
آج دنیا کی بدلتی ہوئی صورتحال اور خصو صاًبلوچستان کے اندر گذشتہ برسوں سے جو کچھ ہوتا چلا آرہا ہے اور موجود ہ حالات کے تنا ظر میں دور اندیش رہنما بابا نزنجو کے سائے سے محروم ہم تقسیم در تقسیم کے مراحل سے دو چار ہیں۔ آنے والے حالات اور ان کے اثرات ابھی سے جس طرح ہم پر پڑ رہے ہیں ان کو دیکھ کر بابا بزنجو کی شدید کمی محسوس کر تے ہیں۔ گزشتہ دہائیوں میں بابا بزنجو کی جمہوری و عملی سیاست، ان کے تبصرے اور سیاسی بصیرت ان کے بتائے ہوئے مشاہدے جس طرح سچ ثابت ہوئے ہیں ان کا انداز ہ آج عرب ممالک کے اندر، افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے اور سوویت یونین میں جو آخری مرتبہ آپ نے گوربا چوف اور دیگر عالمی رہنماؤوں سے ملاقاتیں کی اور سوویت یونین کے اندرونی حالات کا جو جائزہ لیا اور جو پیش بینی کی اور ان کے اثرات، دنیا پر کس طرح اثر انداز ہونگے وہ آج سب کے سامنے ہیں۔
کہتے ہیں کہ کتاب انسان کی بہترین دوست ہوتی ہے،ہر اچھی کتاب انسان کا دوست ہے ساری زندگی میں انسان کی اخلاقیات کو سنوارتی رہتی ہے کتاب زندہ ہے پڑھنے والے بھی زندہ ہیں۔کتاب جتنی پرانی اور بوسیدہ ہوتی ہے تو اس کی قیمت اور زیادہ ہوتی ہے۔ مارکیٹ میں کتابوں کی قیمتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ پہلے ایک کتاب کی قیمت دس روپے تھی اب ایک ہزار روپے ہے کمپیوٹر پرانا ہو تو ناکارہ ہوجاتا ہے۔موبائل فونز میں بیٹری یا پاور نہ ہو تو وہ نہیں چلتے۔کتاب خود ایک پاور ہے۔ کتاب بینی کے لئے الیکٹرک آلات کی ضرورت نہیں پڑتی۔ سورج اور چاند کی روشنی میں کتاب پڑھی جا سکتی ہے۔
معاشرے میں سیاسی اور غیر سیاسی لوگوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ سیاسی کارکن کا معاشرے کے ساتھ ایک کمٹمنٹ ہوتا ہے جبکہ غیر سیاسی فرد کا نہیں ہوتا ہے۔ دراصل غیر سیاسی فرد میں سیاسی شعور کا فقدان ہوتا ہے۔ اور وہ معاشرتی برائی کو سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے۔ سیاسیات ایک علم ہے جس کو ریاست کو جاننے کا علم کہا جاتا ہے۔ علم سیاسیات کی تعریف کرتے ہوئے یونان کے ممتاز فلسفی، مفکر اور ماہر منطق ارسطو کہتا ہے کہ“علم سیاسیات شہری ریاستوں کا علم ہے۔“کراچی کی قدیم آبادی لیاری نے بے شمار سیاسی ورکرز پیدا کئے۔ جنہوں نے ریاست کی غیر جمہوری پالیسوں اور ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان ورکروں نے جیل کی سلاخیں اور شہادتیں بھی دیکھیں۔ اپنی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے لیاری کو لٹل ماسکو بھی کہا جاتا ہے۔ جبکہ اسپورٹس کے میدان میں لٹل برازیل کالقب ملا ہے۔
عید قرباں سے قبل ایک تحریر کی آخری لائنیں لکھتے ہوئے میں یہ سوچ رہا تھا کہ آئندہ دس سے پندرہ دن تک لکھنے کو کچھ نہیں ہوگا اور ویسے بھی کوئٹہ میں عید کی چھٹیاں تھوڑی طویل ہوتی ہیں اب ہم بھی کوئٹہ وال ہوگئے ہیں تو ایسا سوچنا تو بنتا ہے۔ قومی سطح پر بڑی خبر بنی، شاہ محمود قریشی کا کشمیر کے معاملے پر سعودی رویئے پر دیا گیا کاشف عباسی کا انٹرویو یاد رکھیں چند دن قبل لکھ چکا تھا بڑی خبر کیساتھ بڑے فیصلے کا وقت ہے۔ یہ اسی سلسلے کی کڑیاں لگتی ہیں چلیں بڑی خبر اور بڑے معاملے پر تحقیق کے بغیر کچھ نہ ہی لکھا جائے تو بہتر ہے۔ویسے عید قربان کے بعد جو پکنک پلان بنے تھے سب ادھورے رہ گئے۔
حضرت انسان کو اللہ نے پیدا کیا اس کو سارے مخلوقات پر فوقیت دیکر اشرف المخلوقات بنایا، اس کے لئے آسمان اور زمین کے چیزوں کو مسخر کیا،اس کے لئے رزق کے وسائل بھی پیدا کئے، اللہ ہی اپنے مخلوق کو اور ان کے حوائج کو بہتر جانتاہے۔روئے زمین پر اور اسی طرح سمندروں، بحروں اور دریاؤں میں لاکھوں قسم کے کروڑوں کی تعداد میں حیوانات رہتے ہیں،انسان تو درکنار، اللہ نے ان سب حیوانات کو بھی رزق بہم پہنچانے کا عجیب وغریب سسٹم قائم کیا ہے۔حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر نبی تھے، حضرت داؤد علیہ السلام کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی تھے۔
آج ہم سانحہ 8 اگست 2016 کے شہداء کی چوتھی برسی منا رہے ہیں چار سال گزرنے کے باوجود ابھی کل کی طرح زخم تازہ ہیں 8 اگست 2016 کو سول ہسپتال کوئٹہ میں 57 وکلاء شہید ہوئے اور تقریباً 92 وکلاء زخمی ہوئے وکلاء کے علاوہ صحافی اور عام شہری بھی شہید اور زخمی ہوئے اس روز صدر کوئٹہ بار ایسوسی ایشن بلال انور کاسی ایڈووکیٹ پر فائرنگ اور ان کی شہادت کی اطلاع پاکر وکلاء برادری اپنے رفیق کا آخری دیدار کرنے کے لیے سول ہسپتال کاسی شعبہ حادثات پہنچے وکلاء اپنے شہید وکیل اپنے رفیق کی میت کو کاندھا دینے اور آخری دیدار کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔