چلیں اب بات کرتے ہیں وزارت تعلیم کی حالت بھی کچھ اچھی نہیں رہی،نواب اسلم رئیسانی کی کابینہ میں مرحوم شفیق احمد خان وزیر تعلیم تھے تو جان علی چنگیزی بھی تعلیم ہی سے جڑے ایک حصے کے وزیررہے، اس دور میں وزرا ء کو کھپانے کیلئے ہم نے تعلیم کے دو سے زائد وزیر دیکھے انکے بعد یہ محکمہ پشتونخواہ میپ کو کوٹے پر ملا پہلے سردار رضا محمد بڑیچ مشیر تعلیم ہوئے پھر کچھ عرصے بعد یہ محکمہ عبدالرحیم زیارتوال کو ملا یہاں تک کہ موجودہ حکومت میں بھی تعلیم کا قلمدان بطور مشیر محمد خان لہڑی کے پاس تھا، انکی حالت بھی پی ٹی آئی کے نکالے گئے وزیر موصوف سے مختلف نہ تھی لیکن نصیر آباد گروپ انہیں بچا گیا۔
میں حیران ہوا جب ہمارے وزیر خارجہ صاحب نے استحصال کی بات کی، پھر سوچنے لگا کہ یہ ٹھیک ہے کیا فرق پڑتا ہے جو خود استحصال کا شکار ہو اور زمانے کے استحصال کی بات کرے۔ موجودہ حکمران خودکروڑوں لوگوں کے استحصال کا سبب ہیں، اب وہ ایک اور بیانیہ کے پیچھے چھپنے کی کوشش کررہے ہیں اور عوام کو جذباتی نعروں میں ورغلا کر اصل میں اْنکی سیاسی و شعوری استحصال کرنے لگے ہیں۔ میں دنیا کے تمام مظلوم اقوام پہ ہونے والی بربریت کا مذمت کار ہوں، اور دْعا گو ہوں کہ ایسی قومیں جو استحصال کا شکار ہیں جلد ظلم و ستم سے نکل جائیں اور اپنا حق خود ارادیت رکھیں۔
اکرام سہگل
ٓٓٓآج اس الم ناک دن کی پہلی برسی ہے، جب بھارت نے اپنے تئیںمسئلہ کشمیر کایکطرفہ حل متعارف کرایا۔ 5اگست 2019 کو بھارت کے زیر تسلط جموں و کشمیرکی ،بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کے تحت خصوصی حیثیت ختم کردی گئی۔
ہم اپنے پیارے “پاکستان” کو پھلتا اور پھولتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں. ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ دنیا بھر میں پاکستان کی مثبت تصویر ابھرے……. لیکن ہم صرف چاہنے اور سوچنے تک ہی محدود ہیں… ہم نے کبھی یہ معاملہ زیر غور نہیں لایا کہ تعلیم کے شعبے میں پاکستان کا نمبر آگے آنے کی بجائے پیچھے کی طرف کیوں جارہا ہے. ہماری نوجوان نسل پڑھ رہی ہے…… ڈگریوں کے انبار اکٹھے کر رہی ہے……..جب ہمارے بچے اسکولوں میں جا رہے ہیں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ہمارے اساتذہ اپنی محنت اور لگن سے تعلیم کے زیور سے پوری قوم کو آراستہ کر رہے ہیں تو پھر ہمارا ملک بجائے ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے تنزلی کی طرف محو سفر کیوں ہے؟
ہمارے موجودہ حالات پر ایک دانشور نے کیا خوب کہا تھا اور اس میں جو کہا نی تھی اسکے مرکزی کردار مولوی اور مولو تھے مولو ہمارے اس دانشور اور مصنف کے گاؤں کا مولابخش ہے اور اسکے پاس ایک خر ہے فارسی زبان میں جس کے معنی گدھے کے ہیں اور یہ خر مولابخش مولو کی سیٹی پر چلتا ہے۔مولو،اسکے گدھے اور ہمارے نظام کی کہانی میں بڑی مماثلت ہے اور ظفر معراج نے ایسا کیوں کہا اس پر تحریر کے آخر میں بات کرتے ہیں۔ ویسے آجکل بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایک ایسا ایشو میڈیا میں اہم ہے جس پر ہر جماعت کا بیان ایک جیسا ہے۔
بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بلوچ اسٹوڈنٹس نے اپنی مدد آپ کے تحت لائبریریوں کا قیام عمل میں لایا، جن میں سوراب پبلک لائبریری کے علاوہ دالبندین، وڈھ، نال، حب، آواران، گدر، سمیت بہت سارے پبلک لائبریریاں شامل ہیں،جہاں لوگوں کو لائبریری کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے وہاں لائبریری کیلئے کوششیں جاری ہوتی ہیں، بامقصد لوگ اپنے لائبریریوں کوبہت اہمیت دیتے ہیں، اگر ہمارے کتب خانے رات دیر تک کھلے رہیں گے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی۔“ یہ خوبصورت جملہ مشہور برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل نے کہا تھا۔
فرعون دنیا کا واحد حکمران تھا جو خدائی کا دعویدار تھا لیکن اس فرعون میں تین اچھائیاں تھیں جن کی بدولت خدا انہیں مزید مواقع دے رہا تھاکہ شاید وہ راہ راست پر آجائے۔ان تین خوبیوں یاصفات میں پہلی خوبی بہترین عدل و انصاف اور منصف یعنی حقائق پر مبنی فیصلے کرتے تھے،دوسری خوبی سخاوت روزانہ سینکڑوں گائے اونٹ بکریاں ذبح کرکے اپنے عوام اور رعایا کو کھانا کھلاتا تھا،تیسری خوبی مظلوم ومحکوم پر رحم دلی اور ترس کا مظاہرہ کرتا تھا۔ ان تین خوبیوں کی بدولت فرعون کی فرعونیت جاری و ساری تھی جب فرعون نے ان خوبیوں میں کمی یا ان کو بند کرنا شروع کر دیا۔
آبنائے باسفورس کے کنارے، جہاں بحیرہئ مرمرہ اور بحیرہئ اسود ملتے ہیں اور اسے یورپ و ایشیاء کی سرحد کہا جاتا ہے، آیا صوفیا کی یہ عظیم الشان عمارت واقع ہے۔ استنبول کا شمار یوریشیا ء کے اہم ترین میں شہروں میں ہوتا ہے جس کی حدود دو براعظموں میں ہیں اور اس کی آبادی آج ڈیڑھ کروڑ ہوچکی ہے۔ 660قبل مسیح میں یہ شہر ”بازنطین“ کے نام سے آباد ہوا اور 330میں جب رومی شہنشاہ قسطنطین نے اسے سلطنت روما کا پایہئ تخت بنایا تو اس کا نام قسطنطنیہ ہوگیا۔ قسطنین نے اس شہر اور اپنی سلطنت کو عیسائیت کا مرکز بنایا۔
جب کوئی قوم ترقی کرنے لگتی ہے تو اس کے کارخانے اور کتب خانے آباد ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اور جب کوئی قوم زوال پذیر ہوتی ہے تو اس کے مالز اور ہوٹلز آباد ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ آپ کو دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک میں لوگ ہوٹلوں سے لے کر بسوں اور ٹرینوں تک میں کتابوں کے ساتھ نظر آئینگے۔ اور دنیا کی ہر ترقی یافتہ قوم کے گلی محلوں اور گاؤں دیہاتوں تک میں کارخانے ملینگے۔1600 صدی عیسویں دنیا کی تاریخ اور بالخصوص مسلمانوں کے زوال کی صدی تھی۔ اس صدی کے بعد سے ایجادات، تخلیقات اور تحقیقات کا سلسلہ سست روی کا شکار ہوتے ہوتے بالآخر ” ختم شد ” ہوگیا۔
انسان زمانہ قدیم سے لے کر دور حاضر کی تیز رفتار زندگی میں قدم رکھنے تک مختلف مراحل طے کرتے ہوئے کئی دشواریاں، سختیاں اور تکلیف سے گزرتے ہوئے جدت پسندی کی منزل تک پہنچا ہے۔ مگر جب ہم ماضی بعید سے دور جدید کا تجزیہ کریں تو ایک بات واضح اور صاف نظر آتی ہے کہ اس تمام سفر میں عورت کو برابری کی زندگی میں یکساں مواقع نہ ملنے کے سبب ایک تفریق کی لکیر جو ہم انسانوں نے کھینچ لی ہے وہ لکیر جو مردوں نے کھینچ کر عورت کو صنف نازک کا نام دیا تو کسی نے اشتہار کے ساتھ بکنے والی شے سمجھ کر شو کیس میں بے جان اشیاء کی مانند سجادیا۔