بلوچستان میں ان دنوں ایک ایشو پر بھرپور مہم جاری ہے اور وہ ہے بلوچستان کے کوٹے پر غیر مقامی افراد کی وفاقی ملازمتوں پر تعینات ہونے کا، گوکہ اس مہم کیلئے بہت سی کوششیں ہوئیں جہاں نوجوانوں نے سوشل میڈیا کامحاذ سنبھالا وہیں سول سوسائٹی نے بھی آواز بلند کی لیکن یہ ایشو دوبارہ کیوں زندہ ہوا؟ جی ہاں سوال یہی ہے یہ ایشو اس لئے زندہ ہوا کہ وزیر اعلٰی بلوچستان جام کمال نے معاملہ سینیٹ میں ایک بار پھر اٹھنے پر باقاعدہ ٹویٹر کا محاذسنبھالنے سے پہلے وٹس ایپ پر ہدایات دیں اور بلوچستان کے ضلع مستونگ کے ڈپٹی کمشنر نے سب سے پہلے لبیک کہا اور اپنے ضلع مستونگ سے جعلی لوکلز کی نشاندہی کردی جسکے۔
بلوچستان میں ان دنوں ایک ایشو پر بھرپور مہم جاری ہے اور وہ ہے بلوچستان کے کوٹے پر غیر مقامی افراد کی وفاقی ملازمتوں پر تعینات ہونے کا، گوکہ اس مہم کیلئے بہت سی کوششیں ہوئیں جہاں نوجوانوں نے سوشل میڈیا کامحاذ سنبھالا وہیں سول سوسائٹی نے بھی آواز بلند کی لیکن یہ ایشو دوبارہ کیوں زندہ ہوا؟ جی ہاں سوال یہی ہے یہ ایشو اس لئے زندہ ہوا کہ وزیر اعلٰی بلوچستان جام کمال نے معاملہ سینیٹ میں ایک بار پھر اٹھنے پر باقاعدہ ٹویٹر کا محاذسنبھالنے سے پہلے وٹس ایپ پر ہدایات دیں اور بلوچستان کے ضلع مستونگ کے ڈپٹی کمشنر نے سب سے پہلے لبیک کہا اور اپنے ضلع مستونگ سے جعلی لوکلز کی نشاندہی کردی جسکے بعد ہمارے وزیر اعلٰی بلوچستان جام کمال نے ٹویٹر پر آکر عوام کو بتایا کہ جب سینیٹ میں معاملہ اٹھا ہے۔
امریکا سے ایک بار پھر اٹھنے والا نعرہ “Black lives Matter” (سیاہ فاموں کی زندگی اہم ہے) دنیا بھر میں گونج رہا ہے۔ امریکا میں یہ نعرہ نسلی منافرت کے خلاف بلند ہوا تھا اور اس کے بعد ”سب زندگیاں اہم ہیں“ کی تحریک نے بھی کروٹ لی۔ برطانوی پاکستانیوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے مظالم کی جانب دنیا کو متوجہ کرنے کے لیے اسی طرز پر ”کشمیریوں کی زندگی بھی اہم ہے“ کی آواز اٹھائی۔ معروف فلم اسٹار مہوش حیات جو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف آواز بلند کرتی رہی ہیں انہوں نے بھی ایک انٹرویو میں کشمیریوں کا درد بیان کرنے کی خاطر اس نعرے کا حوالہ دیا۔ مودی کے اقتدار سے کشمیریوں کی زندگی میں ایک خونیں موڑ آیا ہے لیکن بھارتی شہریوں کا دامن بھی اس آگ سے محفوظ نہیں ہے۔
عدل و انصاف، رزق حلال مسلمانوں کی نشانی ہے اور جب ایک فیڈریشن اسلام کے نام پر بنا ہو اور جس کا مطلب ہی کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ ہو تو پھر اس ملک میں حرام کیوں، ظلم کیوں،نا انصافی کیوں،کسی کے حق پر ڈاکہ کیوں؟ اخلاق سے گری ہوئی بات بھی نہیں سنی جانی چاہیے ایک طرف اسلام کے بلند و بالا دعوےٰ کرنا تو دوسری طرف وہ سب کچھ جو اسلام میں ممنوع ہو اس مملکت میں ہو رہا ہے۔ یہاں ظالم کو مظلوم پر، قاتل کو مقتول پر، بے ایمان کو ایماندار پر، بد اخلاق کو اخلاق والے پر، ناحق کو حقدار پر برتری حاصل ہے۔
معزز قارئین! درج بالا جملہ اکثر مختلف موبائل نیٹ ورک کی کمپنیوں کی طرف سے بھی آتی ہے اور اکثر دیواروں پر بھی لکھی ہوئی ہوتی ہے اور تعلیمی اداروں میں تو ہمیشہ زیر بحث بھی رہتی ہے، یہ اس لیے تاکہ عوام میں شعور اجاگر ہو اور وہ نشہ جیسی لعنت سے بچ جائیں، نشہ سے بچنے کا مطلب زندگی کا بچ جانا ہے، کیونکہ نشہ ایک ایسی لعنت ایک ایسی خرابی، ایک ایسی بربادی ہے کہ اس کے ساتھ ہی تمام برائیاں، بربادیاں جنم لیتی ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ بدعنوانی نے ہماری دیانتداری بیچ دی ہے۔ ہم اپنے آس پاس کے لوگوں کو دیکھ کر اندھے ہوچکے ہیں جو ننگے پاؤں بھٹک رہے ہیں،اور فاقہ کشی کے عالم میں مر رہے ہیں۔ ہر روز سینکڑوں غریب سڑکوں پر گھومتے پھرتے ہیں تاکہ ایک وقت کا کھانا مل سکے۔ غربت کے حوالے سے ایک رپورٹ کے مطابق ہر چھ میں سے ایک پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزاررہا ہے۔ ان میں سے 74 فیصد روزانہ 2 امریکی ڈالر سے کم اور 17 فیصد روزانہ 1.25 امریکی ڈالر سے کم اجرت کماتے ہیں۔
کالاباغ ڈیم نا منظور، سندھ دشمنی بند کرو، جیسے نعرے لگاتے ہوئے ریلی ریگل چوک صدر سے کراچی پریس کلب کی جانب رواں دواں تھی۔ مظاہرین ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھائے ہوئے تھے۔ جن پر حکومتی پالیسیوں کے خلاف نعرے درج تھے۔ یہ ریلی سندھ دشمن منصوبہ کالا باغ ڈیم کے خلاف تھی۔ کالاباغ ڈیم وفاقی حکومت کا پانی کو ذخیرہ کر کے بجلی کی پیداوار و زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے ایک بڑا متنازعہ منصوبہ تھا جو تاحال متنازع ہونے کی وجہ سے قابل عمل نہیں ہو سکا۔ اس منصوبہ کے لیے منتخب کیاگیا، مقام کالا باغ تھا جو ضلع میانوالی میں واقع ہے۔
حوصلہ افزائی کا تعلق انسانی نفسیات ہے۔یہ انسان کی فطرت ہے کہ داد دینے سے اس کا حوصلہ بڑھتاہے اور کام کرنے کا لگن اور دلچسپی مزید بڑھ جاتی ہے۔وہ پہلے کی نسبت زیادہ محنت اور دل جمعی سے کام کرتاہے۔مشہور ماہر نفسیات ولیم جیمز کا کہنا ہے کہ انسان کی فطری خواہش یہ ہے کہ اس کی تعریف اور اس کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اسے سراہا جائے۔لوگ وہ کام زیادہ شوق سے کرتے ہیں جس کی دوسرے تعریف کریں۔تعریف اور حوصلہ افزائی سے انسان اچھا رویہ اختیار کرتاہے،اس کی خود اعتمادی بھی بحال رہتی ہے اور تعریف کرنے والے سے اس کا تعلق بھی بہتر ہوتا ہے۔
کورونا وائرس کی وبا نے نسلی منافرت کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں کے ساتھ ساتھ ایک انتہائی اہم موضوع ’استعماریت‘ یا ”نوآبادیات“ (کولونیل ازم) پر بحث کا از سر نو آغاز ہوا ہے۔ اس میں یہ سوال بہت اہم ہے کہ نوآبادیاتی تاریخ کو کس انداز سے دیکھنا چاہیے۔ وبا کے باعث اختیار کی گئی تنہائی نے بے چینی کو انگیخت کیا اور کئی مقامات پر پیدا ہونے والے تنازعات میں تشدد کا عنصر شامل ہوگیا۔ کولمبیا میں مظاہرین جنوبی کیرولینا کے دارالحکومت سے کنفیڈریشن کا پرچم اتارنے کا مطالبہ لے کر سڑکوں پر نکل آئے۔ امریکا کی دیگر چار ریاستوں ٹیکساس، مسی سپی، ورجینیا اور ٹینسی میں بھی ایسے مظاہرے ہوئے۔
یہ سال 1973ء ماہ اگست کے دن تھے بالعموم بلوچستان خصوصاً کوئٹہ میں ہنگامہ خیز سیاست اپنے زوروں پر تھی اس مہینے کے دوسرے ہفتے کے دوران بلوچستان کی سیاست کے چوٹی کے رہنماؤں میر غوث بخش بزنجو، سردار عطاء اللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری گرفتار کر لیے گئے۔ یوں تو 15فروری1973ء کے دن سے احتجاج اور گرفتاریوں کے سلسلے کا آغاز ہوچکا تھا جب پاکستان پیپلزپارٹی کی مرکزی حکومت نے گورنر بلوچستان میرغوث بخش بزنجو کو سبکدوش کرکے ان کی جگہ نواب اکبر خان بگٹی کو بلوچستان کا گورنر نامزد کیا اور اس کے ساتھ ہی بلوچستان اور صوبہ سرحد میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت العلماء اسلام کی مخلوط حکومتیں توڑ دی گئیں۔