ہم نے جس راج میں آنکھ کھولی اس راج میں بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی پہ پی ٹی وی کو پایا،ایک عمر تک اس سے وابستگی رہی،پی ٹی وی پہ شاندار ڈراموں کے ساتھ ساتھ انٹرٹینمنٹ کے مختلف شوز اور پروگرامز ٹیلی کاسٹ ہوتے تھے جس میں سر فہرست نیلام گھر تھا۔ہم اسی نیلام گھر کو دیکھتے دیکھتے بڑے ہوئے اور دیکھتے دیکھتے یہ شو اس قدر مقبول ہوا کہ لوگ اس شو کو دیکھنے کے لیے بے تاب رہتے بے صبری سے انتظار کرتے۔اس شو میں مختلف قسم کے سیگمنٹس ہوتے، جنرل نالج اور شعر و شاعری کا سیگمنٹ شو کا سب سے منفرد سیگمنٹ ہوتا اور جو اس شو کی میزبانی کرتے تھے ان سے کون واقف نہیں۔
“پاکستان میں اکثریتی آبادی دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔ گلگت بلتستان سے لے کر خیبر پختونخوا کے اکثریتی قبائلی علاقے اور جنوبی پنجاب بھر کے طلبہ بھی ایچ ای سی کے اس فیصلے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہاں ذمہ داران کو مزید غفلت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے ہم طلبہ کے حقیقی مسئلوں پر اب فوری غور کرنا چاہیے۔” “ہر وہ جگہ جہاں طلبہ اور ہم اساتذہ کے لیے انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں ہے وہاں احتجاج ہوگا، کیونکہ احتجاج کرنے والے جانتے ہیں کہ یہ ان کے ساتھ نا انصافی ہے۔”
میں نے ان کو کئی سالوں کے بعد 5 برس پہلے دیکھا تھا،وہ میرا دوست تھا،ہم ایک ساتھ پڑھتے تھے اسکول میں مدرسے میں بھی،وہ بھلا کا ذہین لڑکا تھا،جب ہم نے عم پارہ ایک ساتھ پڑھنا شروع کیا تو میرے 4 ورق مکمل نہیں تھے کہ انہوں نے آدھا پارہ ختم کیا،وہ اسکول میں میرے مقابلے کا لڑکا تھا، ہر سال تیسری پوزیشن حاصل کرتا تھا،اسکول کے آخری 3 سالوں میں اتنی محنت کی کہ وہ میرے مقابلے پہ آ کھڑا ہوا،انہوں نے مجھے چیلنج کیا ہوا تھا کہ “دشتی”اس سال آپ کی فرسٹ پوزیشن کو میں ہی چھین لونگا،اس دھمکی کا اتنا اثر تھا کہ میں رات کے آخری پہر نیند سے بیدار ہوکے اپنا سبق یاد کرنے لگا کہ کہیں میرا 4 سالہ ریکارڈ تھوڑ نہ دے۔
جس طرح آپ سب جانتے ہیں کورونا وائرس جوکہ ایک عالمی وباء ہے جس نے پوری دنیا کولپیٹ میں لے رکھاہے اور پاکستان بھی اس سے بہت متاثر ہورہا ہے جسے مدِ نظر رکھ کر پورے ملک کے تعلیمی ادارے گزشتہ کئی عرصے سے بند ہیں۔حالیہ دنوں میں ایچ ای سی کی جانب سے ملک کی تمام یونیورسٹیوں میں آن لائن کلاسزکے اجراء کا فیصلہ کیا گیا لیکن اس کے ردِ عمل میں ملک کے تمام طلباء و طالبات سراپا احتجاج ہیں جنکا مطالبہ صرف یہی ہے کہ ملک بھر میں ایسے علاقے ہیں جہاں انٹرنیٹ موجود ہی نہیں ہے وہاں انٹرنیٹ مکمل طور پر بحال کیا جائے اور جہاں جہاں انٹرنیٹ موجود بھی ہے۔
چین کے صوبے ووہان سے نومبر میں کورونا وائرس کا آغاز ہوا تو اس وقت کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ وائرس اتنی خوفناک صورت اختیار کرجائے گا پوری دنیا میں کورونا وائرس سے اموات میں پچھلے چند ماہ کئی گنااضافہ ہو چکا ہے پاکستان میں بھی یہ تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے کورونا وائرس سے جہاں پر عام شہری تو متاثر ہوہی رہے ہیں وہاں پر سب سے زیادہ متاثر طبی عملہ ہورہا ہے جن میں ڈاکٹرز پیرامیڈیکل سٹاف اور نرسز شامل ہیں ملک کے نصف حصے پر محیط اور قدرتی معدنیات سے مالا مال صوبہ بلوچستان کو بھی اس خطرناک وباء نے شدید نقصان پہنچایا ہے۔
وہان چین کے صوبے ہوبی کا دارالحکومت ہے جس کی آبادی تقریباً 11.8 ملین ہے گنجان آبادی والے اس شہر میں ضروریات زندگی کی جدید سہولیات میسر ہیں لوگ خوشحال جگہ جگہ پارکس اور ماڈرن ٹیکنالوجی نے اس شہر کی خوبصورتی میں چار چاند لگا رکھے ہیں شہر کی آبادی گنجان، لاتعداد ٹرانسپورٹ ریلوے کا ایک بہت بڑا نظام کاروباری لحاظ سے چین کی معیشت میں اس شہر کا ایک بڑا کردار ہے دسمبر 19 وہان میں رہنے والے ایک کروڑ سے زائد لوگوں کے لیے ایک بھیانک دن تھا جب اس دن شہر میں ایک وائرس کا انکشاف ہوا میں اس وائرس سے متاثرہ افراد میں اضافہ ہوتا گیا ہے۔
آج کے اس ترقی یافتہ دنیا کے ممالک کی ترقی کا راز تعلیم کے ساتھ سمجھوتہ نہ کرنا ہے،ان ممالک نے اس راز کو پا لیا تھا کہ اگر ستاروں کے اس پار جھانکنا ہے،سیاروں کو پرکھنا ہو،چاند کا دل چھیر کے راز نکالنے ہوں،خلاء کا تسخیر ہونا ہو یا سات سمندر کی تہہ تک جھانکنا ہو،زمین میں پڑی ہوئی دولت کا انبار اکھٹا کرنا ہو یا پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرکے معدنیات نکالنا ہو،اس راز کو آج کے ترقی یافتہ یورپ و ایشیاء سمیت بہت سے ممالک نے پالیا تھا کہ کیسے ہم اوج ثریا پر پہنچ سکتے ہیں سب سے پہلے انہوں نے اپنے اسکول، کالج، یونیورسٹی سے لیکر ہر اس عمل کی پذیرائی کی جس سے وہ اس دنیا کو اپنی مٹھی میں بند رکھ سکیں۔
18 ویں ترمیم سے قبل صوبہ اوور ڈرافٹ اور قرضوں پر ہی چلایا جاتا رہا، وزیر اعلیٰ بلوچستان صوبائی ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے ہر مہینے اسلام آباد یاترا کرتا اور پھر ملازمین کے تنخواجات کی ادائیگی کی جاتی- بلوچستان میں 1972 سے لیکر آج تک کسی بھی وزیر اعلیٰ نے وفاق سے صوبے کے حقوق کیلئے دو ٹوک موقف یا صوبے کے حقوق اور ترقی کیلئے نہ تو بات کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی صوبے کے ساتھ روا رکھنے جانے والے وفاقی پالیسیوں پر کبھی کھل کر بات کی یا عوام کی سوچ کو وفاق تک پہنچانے کی ہمت کی۔
کرونا وائرس کی وباء نومبر کے شروع میں چائنا سے ہوتے ہوئے فروری کے وسط میں پاکستان کے دروازے پر آکر دستک دے گئی، اور دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں لوگوں کو اس وبا نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بہت سارے لوگ اس وبا کی زد میں آکر اپنی زندگی کی بازی ہار گئے، اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ میڈیکل کے شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اپنی زندگیوں کی پرواہ کئے بغیر بہت سی قیمتی جانوں کو بچایا اور اب تک اس پر کام جاری و ساری ہے۔ مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کرونا وائرس سے بچاؤ کے خلاف جنگ جاری ہے تو پھر عید الفطر کے بعد کیوں اس وبا کا پھیلاؤ اور بھی بڑھ گیا ہے؟
بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے جہاں سی پیک،سیندک،ریکوڈک، سوئی گیس، اور اوچ پاور پلانٹ جیسے بڑے بڑے منصوبے موجود ہیں جوکہ پاکستان کی معیشت میں ریڈھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں، جن کی وجہ سے آج پاکستان کا نام سرمایہ کار ملکوں میں شمار ہوتاہے، انہی کی وجہ سے امریکہ، روس، اور چین جیسے سپر پاور ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری کے خواہشمند ہیں، مگر اتنے وسائل کے باوجود یہاں کے مسائل اس سے بھی زیادہ ہیں،کہیں پانی کا مسئلہ ہے، تو کہیں بجلی کا مسئلہ ہے جن علاقوں میں اگر بجلی ہے تو وہاں اٹھارہ سے بیس گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتا ہے۔