پانی زندگی ہے اور پانی کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے، کھانے کے بغیر شاید ایک ہفتہ گزارا جاسکتا ہے، لیکن پانی کے بغیر ایک پل یا لمحہ گزارنا مشکل ہے،کیا حال ہوگا ان لوگوں کا جن کو پانی بڑی مشکل سے ملتا ہے۔تحصیل پسنی کے مشرقی دیہات کلمت پانی جیسی نعمت سے محروم ہے، کلمت چھوٹے چھوٹے دیہاتوں پر مشتمل تحصیل پسنی کی ایک یونین کونسل ہے، جن میں چنڈی، کرود، گرو، جونڑ، بل، کنر، ہومریک، کوہی گوٹھ، اسپیاک، جڈکی اور سنڈی شامل ہیں. چونکہ کلمت کا سارا علاقہ ساحلی پٹی پر ہے، جب بھی بارش ہوتی ہے یا توایک یا دو مہینے کے بعد پانی خشک ہوجاتی ہے۔
پچھلے کالم میں بات ہو رہی تھی کہ مسلم لیڈرشپ جو بڑی visionary لیڈرشپ تھی ایک وفد(معروف شملہ وفد) کی صورت میں جب گورنر جنرل منٹو سے ملنے گئی تو اس نے گونر جنرل کو جو مطالبات پیش کیے وہ بڑی اہمیت کے حامل ہیں اور انہی مطالبات نے مسلمز آف انڈیا کے لیے سیاسی راہ ہموار کی۔ان Demands میں جو بھی نکات رکھے گئے آگے چل کر ان کو کسی حد تک برٹش نے تسلیم بھی کیا۔
پاکستان میں عوام عمران خان کی اپوزیشن کے دور میں باتیں اور تقاریر سنتے تھے تو وہ حیران ہوتے تھے کہ عمران خان کو ملک کاوزیرا عظم ہونا چاہئے تاکہ وہ بہتر سالوں سے ملک اور عوام کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں ظلم و جبر کا خاتمہ کرکے عوام اور ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر سکیں۔ عوام کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ بھی ان کے جادوئی باتوں پر یقین کر چکی تھی اور عمران خان کو ہی نجات دہندہ سمجھ رہی تھی چنانچہ2018 کے انتخابات میں عمران خان کو وزرات عظمیٰ کے تخت کو تاراج کرنے کا موقع ملا تاہم اپوزیشن نے متفقہ طور پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگانے اور عمران خان کو ملک و عوام پر مسلط کرنے کا الزام لگایا۔
کچھ روز قبل آزاد ی نیوز کے یو ٹیوب چینل کیلئے میں نے ایک وی لاگ ریکارڈ کیا تھا ا س وی لاگ کی ٹیگ لائن رکھی تھی جام نے کمال کردیا اب یہ ٹیگ لائن کیوں رکھی تھی قصہ مختصر وزیر اعلٰی بلوچستان جام کمال نے دسویں این ایف سی ایوارڈ کیلئے جاوید جبار صاحب کو غیر سرکاری رکن نامزد کیاتھا جو کہ ایک زور دار مہم کے بعد رضاکارانہ طور پر مستعفیٰ ہوئے۔ اب جام صاحب نے جو کمال کیا تھا وہ یہ تھا کہ بلوچستان کے وزیر خزانہ سے لیکر وزارت خزانہ کے اہلکار بھی اس تعیناتی پر انگشت بدنداں تھے کیونکہ سب کا خیال تھا کہ یہاں کسی معاشی ماہر جسے فنانس اکانومی اور محصولات کے معاملے پر بھر پور گرفت ہو، اسے ہی نامزد ہونا چاہئے۔
تخلیق انسان کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بندگی ہے۔اسی عبادت اور بندگی پر ابھارنے کیلئے اللہ نے انبیاء و رسل علیھم السلام مبعوث فرمائے۔عبادت کے کئی شعبے ہیں جیسے نماز،روزہ،جہاد، زکوٰۃ وغیرہ لیکن ان تمام اوامر کو بجالانے کیلئے قیام خلافت ضروری ہے۔اسی وجہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین میں خلیفہ مقرر فرمایا تاکہ ان اوامر و منہیات پر دوسرے انسانوں کو پابند بنائے۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین نے زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لے کر مسلمانوں کو معروفات کاحکم کرتے رہے اور منہیات سے روکتے رہے اور اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے اعداء اللہ سے جہاد بھی کرتے رہے۔
تعلیمی ادارے بلوچستان میں اتنے ہیں کہ یونیورسٹی میں کسی ڈپارٹمنٹ کی 40 سیٹوں پر 4 ہزار فارم جمع ہوتے ہیں اور بیروزگاری کا کیا کہیں نائب قاصد کی پوسٹ کے لئیے ماسٹر ڈگری کے لوگ بھی دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔ہاں اگر وفاق میں کوئی پوسٹ آجائے تو اس پر بھی جعلی لوکل ڈومیسائل کا حامل فرد بلوچستان کے کوٹے پر بھرتی ہوجاتا ہے جس نے کبھی بلوچستان دیکھا بھی نہیں ہوتا۔چلو آتے ہیں اصل موضوع پر، کورونا کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند ہیں۔ کالجز اسکولز یونیورسٹی میں آن لائن کلاسز کا فیصلہ کیا گیا ہے لیکن فیصلہ کرنے والے زمینی حقائق سے ہی واقف نہیں کہ بلوچستان کے 65% فیصد علاقوں میں انٹرنیٹ نہیں،ہاں اگر کہیں موجود بھی ہے تو اسکے چلنے کی رفتار کچھوے سے بھی کم ہے یعنی نہ ہونے کے برابر۔
مکران کا صدر مقام تربت جہاں تمام انتظامی افسران کے دفاتر ہیں انتظامیہ کے اعلیٰ افسران بشمول کمشنر مکران کا دفتر بھی تربت میں ہوتا ہے۔ بلوچستان میں کوئٹہ کے بعد تربت صوبے کا سب سے بڑا شہرہے۔ ایک حلقے کاکہنا ہے 2013 کے الیکشن کے بعد ڈاکٹر مالک بلوچ نے تربت کو کوئٹہ کے برابر کا کھڑا کردیا ہے۔ ویسے ڈاکٹر مالک بلوچ نے جس سرعت کے ساتھ تر بت کا نقشہ تبدیل کیا اس ملک میں بہت کم ایسا ہوا ہے۔ مالک بلوچ نے صرف ڈھائی سالہ دور وزارت میں شہر تربت کو نو رونقیں بخشیں مثالی ہیں یہ وہ عوامی تحائف ہیں جو مالک بلوچ نے اپنے دور وزارت میں مکران کے عوام کو دیئے۔
وباء اور انسان کا ساتھ نیا نہیں، اسی طرح جہالت بھی انسانی سوچ میں کئی سالوں سے ڈیرہ لگائے بیٹھی ہے۔کرونا سے متعلق نظریہ ضرورت کے مطابق طرح طرح کی تھیوریز پیش کرنی والی قوم اور حکومت باجماعت اس بات کا ادراک کرنے سے قاصر ہے کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے۔چین اور اور باقی دنیا کا ہمیں پتہ نہیں پاکستان اور باقی بلوچستان کو چھوڑ کر ہم اگر مکران کی جانب نظر دوڑائیں جسے بلوچستان کا لکھنؤ یا کم ازکم روشن خیال علاقہ سمجھا جاتا تھا کی طبی اور سماجی حالات سیاسی حالات سے قطعی مختلف نہیں۔ جس طرح چمن بارڈر کا سیٹھ کرونا کو ڈرامہ قرار دیکر وقتی تسکین حاصل کرنا چاہتا ہے اسی طرح کیچ کا لیکچرار بھی پر سکون ہے۔
کئی سال سے ہمارے ملک پاکستان میں طرح طرح کے بحران جنم رہے ہیں آج کل پٹرول کا بحران پیدا ہوچکا ہے۔ عوام پیٹرول کے حصول کے لیے دربدر ٹھوکر کھا رہے ہیں۔ پٹرول پمپس پر لوگ کا ہجوم ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے ساری دنیا میں لاک ڈاؤن ہور رہی ہے۔ اس وجہ سے پٹرول کے استعمال میں کمی آئی ہے۔ تقریبا ًتمام ممالک وافرمقدار میں پٹرول ذخیرہ کر چکے ہیں۔ امریکی حکومت کی طرف سے اپنے کو عوام کو کہا گیا تھا کہ حکومت کی طرف سے پٹرول مفت میں لے لیں اور ساتھ ہی کچھ ڈالر بھی وصول کریں کیونکہ حکومت کے ساتھ ذخیرہ کرنے کی جگہ نہ رہی۔
بلوچستان نیشنل پارٹی نے وفاقی حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا ہے یہ خبر نظروں کے سامنے آتے ہی میرے ذہن میں جو پہلا خیال آیا وہ تھا کہ سردار اختر مینگل کو اتنا غصہ کیوں آتا ہے؟ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں ایک کارنر میٹنگ ہاکی گراؤنڈ میں رکھی گئی تھی سردار اختر مینگل براہوئی میں تقریر کررہے تھے۔ انکے الفاظ مجھے یاد ہیں جب انہوں نے کہا کہ میں جو بولنا چاہتا ہوں وہ بولنے سے ڈرتاہوں، یہ ڈر مجھے اپنے لئے نہیں لگتا مجھے اپنے کارکنوں کیلئے لگتا ہے میں جو بولوں گا اسکی قیمت میرے کارکن چکائینگے۔بی این پی کارکنوں نے اس جماعت اور میرے لئے جو قربانیاں دی ہیں۔