تعلیمی ادارے بلوچستان میں اتنے ہیں کہ یونیورسٹی میں کسی ڈپارٹمنٹ کی 40 سیٹوں پر 4 ہزار فارم جمع ہوتے ہیں اور بیروزگاری کا کیا کہیں نائب قاصد کی پوسٹ کے لئیے ماسٹر ڈگری کے لوگ بھی دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔ہاں اگر وفاق میں کوئی پوسٹ آجائے تو اس پر بھی جعلی لوکل ڈومیسائل کا حامل فرد بلوچستان کے کوٹے پر بھرتی ہوجاتا ہے جس نے کبھی بلوچستان دیکھا بھی نہیں ہوتا۔چلو آتے ہیں اصل موضوع پر، کورونا کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند ہیں۔ کالجز اسکولز یونیورسٹی میں آن لائن کلاسز کا فیصلہ کیا گیا ہے لیکن فیصلہ کرنے والے زمینی حقائق سے ہی واقف نہیں کہ بلوچستان کے 65% فیصد علاقوں میں انٹرنیٹ نہیں،ہاں اگر کہیں موجود بھی ہے تو اسکے چلنے کی رفتار کچھوے سے بھی کم ہے یعنی نہ ہونے کے برابر۔
مکران کا صدر مقام تربت جہاں تمام انتظامی افسران کے دفاتر ہیں انتظامیہ کے اعلیٰ افسران بشمول کمشنر مکران کا دفتر بھی تربت میں ہوتا ہے۔ بلوچستان میں کوئٹہ کے بعد تربت صوبے کا سب سے بڑا شہرہے۔ ایک حلقے کاکہنا ہے 2013 کے الیکشن کے بعد ڈاکٹر مالک بلوچ نے تربت کو کوئٹہ کے برابر کا کھڑا کردیا ہے۔ ویسے ڈاکٹر مالک بلوچ نے جس سرعت کے ساتھ تر بت کا نقشہ تبدیل کیا اس ملک میں بہت کم ایسا ہوا ہے۔ مالک بلوچ نے صرف ڈھائی سالہ دور وزارت میں شہر تربت کو نو رونقیں بخشیں مثالی ہیں یہ وہ عوامی تحائف ہیں جو مالک بلوچ نے اپنے دور وزارت میں مکران کے عوام کو دیئے۔
وباء اور انسان کا ساتھ نیا نہیں، اسی طرح جہالت بھی انسانی سوچ میں کئی سالوں سے ڈیرہ لگائے بیٹھی ہے۔کرونا سے متعلق نظریہ ضرورت کے مطابق طرح طرح کی تھیوریز پیش کرنی والی قوم اور حکومت باجماعت اس بات کا ادراک کرنے سے قاصر ہے کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے۔چین اور اور باقی دنیا کا ہمیں پتہ نہیں پاکستان اور باقی بلوچستان کو چھوڑ کر ہم اگر مکران کی جانب نظر دوڑائیں جسے بلوچستان کا لکھنؤ یا کم ازکم روشن خیال علاقہ سمجھا جاتا تھا کی طبی اور سماجی حالات سیاسی حالات سے قطعی مختلف نہیں۔ جس طرح چمن بارڈر کا سیٹھ کرونا کو ڈرامہ قرار دیکر وقتی تسکین حاصل کرنا چاہتا ہے اسی طرح کیچ کا لیکچرار بھی پر سکون ہے۔
کئی سال سے ہمارے ملک پاکستان میں طرح طرح کے بحران جنم رہے ہیں آج کل پٹرول کا بحران پیدا ہوچکا ہے۔ عوام پیٹرول کے حصول کے لیے دربدر ٹھوکر کھا رہے ہیں۔ پٹرول پمپس پر لوگ کا ہجوم ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے ساری دنیا میں لاک ڈاؤن ہور رہی ہے۔ اس وجہ سے پٹرول کے استعمال میں کمی آئی ہے۔ تقریبا ًتمام ممالک وافرمقدار میں پٹرول ذخیرہ کر چکے ہیں۔ امریکی حکومت کی طرف سے اپنے کو عوام کو کہا گیا تھا کہ حکومت کی طرف سے پٹرول مفت میں لے لیں اور ساتھ ہی کچھ ڈالر بھی وصول کریں کیونکہ حکومت کے ساتھ ذخیرہ کرنے کی جگہ نہ رہی۔
بلوچستان نیشنل پارٹی نے وفاقی حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا ہے یہ خبر نظروں کے سامنے آتے ہی میرے ذہن میں جو پہلا خیال آیا وہ تھا کہ سردار اختر مینگل کو اتنا غصہ کیوں آتا ہے؟ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں ایک کارنر میٹنگ ہاکی گراؤنڈ میں رکھی گئی تھی سردار اختر مینگل براہوئی میں تقریر کررہے تھے۔ انکے الفاظ مجھے یاد ہیں جب انہوں نے کہا کہ میں جو بولنا چاہتا ہوں وہ بولنے سے ڈرتاہوں، یہ ڈر مجھے اپنے لئے نہیں لگتا مجھے اپنے کارکنوں کیلئے لگتا ہے میں جو بولوں گا اسکی قیمت میرے کارکن چکائینگے۔بی این پی کارکنوں نے اس جماعت اور میرے لئے جو قربانیاں دی ہیں۔
بھارت 1947اور چین 1949میں آزاد ہوا۔ ان دونوں نومولود ریاستوں کے مابین 1962میں ایک غیر حل شدہ سرحدی تنازعے کے باعث جنگ ہوئی۔ ایک آسٹریلین صحافی، نیوائل میکسول جو دہلی میں نمائندہ خصوصی کے طور پر کام کررہے تھے انہیں اس جنگ میں بھارت کی شکست سے متعلق خفیہ معلومات تک براہ راست رسائی حاصل ہوئی۔ 1970میں ان کی کتاب ”انڈیاز چائینا وار“ شایع ہوئی جسے آج بھی 1962کی چین بھارت جنگ کے بارے میں حوالہ تسلیم کیاجاتا ہے۔ بھارت نے نہ تو ان حقائق کو کبھی تسلیم کیا اور نہ اس شکست سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کی۔
جیسا کہ پچھلے کالم میں ذکر ہوا کہ تقسیم بنگال کو لے کر کانگریس کی جانب سے سوَدیشی موومنٹ شروع ہو گئی۔ہر طرف گونج سنائی دینے لگی کہ یہ تو گاؤ ماتا کو تقسیم کرنے کے مترادف ہے rule and Divideکیا جا رہا ہے۔ کانگریس میں قیاس آرائیاں اور ابہام پیدا ہوا کہیں ہمارے خلاف سیاسی جماعتیں تو نہیں بنائی جا رہی ہیں کیونکہ وہ سمجھتی تھی ہندوستان کے مسلما نوں نے اپنا ایک سیاسی میکنیزم بنانے کے لیے جہد مسلسل جاری رکھی ہوئی ہے۔مسلم لیگ کے قیام سے پہلے پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں نے سیاسی پارٹیاں تشکیل دی تھیں جو کام بھی کر رہی تھیں۔
جب سے چین کے شہر ووہان سے کرونا وائرس پھیلنا شروع ہوا ہے۔ کروڑوں لوگوں کو بیمار کر گیا ہے۔اور لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔کرونا وائرس کے معاشی معاشرتی نفسیاتی اثرات کے علاوہ تعلیم پر بھی اثر انداز ہوا ہے۔پوری دنیا میں تعلیمی اداروں کو تالے لگ چکے ہیں۔ اور علمی سلسلے جامد ہو چکے ہیں۔ لوگ گھروں میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں۔کرونا وائرس کے تعلیمی اثرات کو کم کرنے کے لیے ہائر ایجوکیشن آف پاکستان نے ایک مثبت اقدام اٹھا کر آن لائن کلاسز کا آغاز کردیا ہے۔ مختلف نیٹ فراہم کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کیے گئے ہیں۔
تعلیم کامیابی کی کنجی ہے اور ہمارے معاشرے میں ہر کوئی تعلیم حاصل کرتا ہے اور کوئی تعلیم حاصل کرنے کا خواہشمند ہے کیونکہ تعلیم سے ہی شعور بیدار ہوتا ہے۔ ملک بھر کے سرکاری اسکولوں میں تعلیم کا معیار انتہائی پست ہے، ان سے میٹرک پاس کرکے نکلنے والے طلبا کی قابلیت کو پرکھا جائے تو خاصی مایوسی ہوتی ہے۔ بد قسمتی یہ ہے برسوں سے مسلسل تعلیم کا بیڑا غرق کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں طلبا کا مستقبل بھی تاریکیوں میں کہیں کھو گیا ہے اور حالات اس نہج پر پہنچے ہوئے ہیں کہ ہر سال ملک کے چاروں صوبوں کے نویں اور دسویں جماعتوں کے امتحانی نتائج انتہائی مایوس کن ہوتے ہیں۔
ہر انسان کو اپنے لئے اپنے خاندان و بچوں کے لئے زندہ رہنے و جینے کا پورا حق حاصل ہے مگر تاریخ میں زندہ وہی انسان رہتے ہیں جواپنی فانی زندگی میں دوسروں کے لئے زندہ رہتے ہیں دوسروں کا درد محسوس کرتے ہیں ان کے درد کا مداواہ بنتے ہیں،سنگین حالات کا مقابلہ کر کے قوم کو سیدھا راستہ دکھاتے ہیں ایسے افراد ہمیشہ کے لئے امر ہو جاتے ہیں ہوتے تو وہ بھی آسودہ خاک مگر ان کا کردار انہیں ہمیشہ کے لئے زندہ رکھتا ہے اور ایسا ہی ایک کردار انجمن تاجران خضدار کے اس وقت کے نائب صدر حاجی محمد عالم جتک کا بھی ہے ان کے کردار کے متعلق لکھتے ہوئے الفاظ کم پڑ جاتے ہیں قلم کی لرزش بڑھ جاتی ہے۔