ہم ایک ایسے معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں شخصیات اورچہروں کوپوجا جاتا ہے۔ ہم بولتے ہیں تو صرف اپنے لیے،آواز اٹھاتے ہیں اپنے مفاد کے لیے،پھر جب بول بول کر تھک جاتے ہیں تو سکون کی نیند سو جاتے ہیں۔ لیکن کبھی سوچا ہے کہ ان پانچ ہزار ایک سو اٹھائیں سے بھی اوپر کی تعداد میں جو بلوچستان کے مسنگ پرسنز ہیں جن میں بچے، بزرگ، مرد اور خواتین بھی شامل ہیں ان کے گھر میں ماتم نہیں مچتا ہوگا؟ کیا ان کو کبھی سکون کی نیند نصیب ہوئی ہو گی؟ ان کا نوحہ بھی کوئی سن لے، ان کا درد بھی کوئی لکھے۔
آج مذہب کے خلاف لکھنااور بولنااورمذہب کے ماننے والوں پر الزام تراشیاں کرناقابل فخر چیز سمجھی جاتی ہے۔چنانچہ جس کو بھی کچھ لکھنے یا بولنے کی سدھ بدھ ہوجائے تواپنے آپ کو تعلیم یافتہ سمجھ کر مذہب کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیتا ہے،آج کل سوشل اور الیکٹرانک، پرنٹ میڈیا وغیرہ میں مذہب اور مذہبی معتقدات پر بڑے شدو مد سے تنقید کی جارہی ہے،اور خدا کے وجود کاانکار کرکے اپنی من مانی زندگی گزاری جارہی ہے،اسی انکار خدا کی وجہ سے انسان اوج ثریا سے سے گر کر حیوانیت سے بدتر درجہ پر پہنچ چکی ہے۔
دنیا میں جماعتیں عوام کے زور بازو پر بنتی اور اپنا وجود برقرار رکھ پاتی ہیں،جب کسی جماعت کی بنیاد رکھی جاتی ہے تو ان کا سرچشمہ و منبع عوام ہی ہوتی ہے۔کیونکہ عوام کے بغیر چند رہنماؤں کے وجود سے جماعتیں جماعت نہیں انجمن کہلاتی ہیں۔ جماعت بننے کے پہلے ہی جز میں اس بات کا دھیان رکھا جاتا ہے کہ کیسے عوام کو اپنی طرف راغب کرنا ہے،عوامی مسائل کے حل کیلئے نعروں کے ساتھ عوام کو اپنی طرف راغب کرنے کیلئے ان جماعتوں کے کرتا دھرتا عوام کے درمیان ہر وقت موجود رہ کے اپنائیت کا احساس دلاتے رہتے ہیں کہ کوئی بھی عوامی جینوئن مسئلہ صرف ایک ذات کا نہیں۔
اسلام میں استاد کا درجہ بہت بلند ہے اور معلم کا پیشہ پیغمبری پیشہ ہے استاد کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت علی کا قول ہے،جس نے مجھے ایک حرف سکھایااس نے مجھے اپنا غلام بنایا۔ استاد وہ چراغ ہے جو ہر طرف روشنی پھیلاتا ہے جو شعور بیدار کرتا ہے صحیح اور غلط میں فرق بتاتا ہے۔ استاد وہ درخت ہے جو سایہ فراہم کرتا ہے یہ وہ جڑ ہے جو شاخوں کو مضبوط بناتا ہے جب بات کسی ہمہ جہت، بے مثال اور عزیز شخصیت کی ہو تو تحریر کا حق ادا کرنا مشکل ہوجاتا ہے ایسی ہی ایک شخصیت میرے محترم استاد سر سید شاہد خان ہے استاد ہی اپنے شاگرد کی روحانی، دینی، علمی اور اخلاقی تربیت کرتا ہے میرا علم اور محدود ذخیرہ الفاظ ان کی شخصیت کو احاطہِ تحریر میں لانے سے قاصر ہے لیکن پھر بھی چند سطور تحریر کرنے کی جسارت کررہی ہوں۔
آج نیب نے مسلم لیگ ن کے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کو کرونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے باوجود منی لانڈرنگ کیس،زائد اثاثہ جات بنانے کے الزام میں طلب کیا۔مسلم لیگ ن کے کارکن اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر کرونا ایس او پیز کو پاؤں تلے روندتے ہوئے پہنچ گئے لیکن بلوچستان نیب کرونا کی وجہ سے قرنطینہ یا آئسولیشن میں ہے۔ الیکڑانک میڈیا،پرنٹ میڈیا کی زینت بننے والی کرپشن کی خبروں کے باوجود نیب بلوچستان کی خاموشی کیونکرہے۔ ایسے بھی سابق وزراء ہیں جن پر کروڑوں کے ناجائز اثاثہ جات بنانے،اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات کے کیسز ہیں۔
آن لائن کلاسز کے حوالہ سے اردو یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل کا اجلاس منعقد ہونے والا ہے۔ تاہم اکیڈمک کونسل کے اجلاس سے قبل ہی بورڈ آف اسٹڈیز، بورڈ آف فیکلٹیز، آن لائن ٹریننگ سیشنز اور دیگر ضروری تیاریوں کے احکامات زور و شور سے جاری ہیں۔ گویا آئندہ ہونے والے اجلاس میں ان تمام امور کو رسمی سند قبولیت بخش دی جائے گی۔ اکیڈمک کونسل کے اجلاس میں تمام اساتذہ کو اپنی سوچ اور فکر کے مطابق اپنی آزادانہ رائے دینے کا اختیار ہے تاہم کوئی بھی رائے دیتے وقت ہمیں یونیورسٹی کی معروضی صورتحال، اساتذہ کے تحفظات اور طلبہ کے مسائل اور مجبوریوں کو مد نظر رکھنا چاہئے۔
جمہوریت میں اپوزیشن کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور جمہوری اقدار اپوزیشن کے بہتر کردار اور عمل کے باعث ہی مثالی ہونے کے ساتھ ترقی پسند ماحول کو بھی فروغ دینے میں اپنا بھر پور کردار ادا کر سکتے ہیں یا یوں کہئے کہ اپوزیشن حکمرانوں کے لئے آئینہ ہوتے ہیں ان حکمرانوں کا ہر عمل و کردار انہیں اپوزیشن میں آئینہ کے مانند نظر آتے ہیں جمہوری دور میں اپوزیشن ہی کا کردار بلاشبہ حکومتی وژن اور سمت کے طریقہ کار کو کسی حد تک تبدیل کرکے عوامی فلاح و بہبود اور صوبے کی اجتماعی ترقی کی جانب موڑنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ہم کم عمر اور عقل میں بھی کمزور تھے، ہمیں اسکول میں پڑھایا گیا کہ سندھ سے ایک مظلوم عورت نے دہائی دی، دور دیار سے ایک جرنیل آیا سندھ کو فتح اور اس مظلوم عورت کو آزاد کیا۔ پھر ہم بڑے ہوئے، کچھ عقل آئی، اسکول سے ہٹ کر کچھ پڑھنے کا موقع ملا، زمانہ دیکھا تب سمجھ آیا یہاں معاملہ ہی الٹا ہے، دھرتی کے فرزند راجہ داہر کو خوامخواہ غدار بنانا ایک غاصب اور ڈکیت کو ہیرو بنا کر اس کی تاریخ پہ نازاں ہونا بحرحال یہ یہاں کی روایت ہے۔
ڈی ایچ اے کوئٹہ اسمارٹ سٹی فیز 1 نے پہلی ڈاؤن پیمنٹ کی تاریخ میں 23 جون 2020 تک توسیع کردی ہے جوکہ عوام الناس کیلئے سب سے بڑی خوشخبری ہے، اس فیصلے کی بڑی وجہ حالیہ کورونا وائرس کی وباء ہے۔ توسیع کا بنیادی مقصد رمضان اور عید کی چھٹیوں کے پیش نظر عوام کو سہولت فراہم کرنا ہے۔ڈی ایچ اے کوئٹہ اسمارٹ سٹی فیز ون میں ترقیاتی کام تیزی کے ساتھ جاری ہیں، جس میں وہ تمام تر بنیادی سہولیات موجود ہیں جن سے اعلیٰ طرز زندگی ممکن ہو۔ ڈی ایچ اے کوئٹہ ملک میں بنائی جانے والی منفرد اسکیم ہے جس میں تعلیم،صحت اور تفریح سمیت ہر قسم کی پر آسائش سہولیات شامل ہیں۔
بچپن میں ایک ڈرامہ پی ٹی وی پر دیکھا جس میں ملک کے مایا ناز ایکٹر قوی خان نے ایک ایسے شخص کا کردار ادا کیا جو انتہائی سخت مزاج اور ظالم تھا۔ محبت، خوش مزاجی کے الفاظ اس کی لغت میں شامل ہی نہیں تھے۔ اس کے ایک بچپن کے قریبی دوست کی وفات کے موقع پر وہ ایک حیرت انگیز بات باقیوں کے ساتھ شئیر کرتا ہے کہ پیدائش سے لے کر نوکری پر لگنے، شادی ہونے، بچے کی پیدائش اور کئی اور لمحات میں دونوں میں ہمیشہ سات دن کے فرق سے سب کچھ ہوتا آیا ہے۔ اس موقع پر کوئی اس سے یہ سوال کر بیٹھتا ہے کہ یعنی اب کیا آپ کی وفات بھی سات روز بعد ہو جائے گی؟