فطری طور پر عورت محبت کی مثال اور امن کی دیوی ہوتی ہے۔ خدا نے اسے بیوی کی صورت میں وفا کا پیکر تو ماں کے قدموں میں جنت رکھ دی اور بیٹی کو رحمت بنا دیا۔ عورت اپنی محبت میں گھر کو جنت بناتی ہے اس لیے نہیں کہ وہ عورت ہے اس پر یہ کام لازم ہے بلکہ یہ سب وہ اپنی ممتا اور محبت کے لیے کرتی ہے لیکن فرسودہ نظام اور رسم و رواج کے نام پر عورت کی محبت کو اس کی کمزوری بنا دی گئی اور مرد اپنے بازؤں کی طاقت کو عورت کے نازک ہاتھوں پر فوقیت سمجھ بیٹا۔ بلوچستان بھی ایک ایسا ہی بدنصیب خطہ ہے جس میں آج بھی عورت دوسرے درجے کی انسان ہے۔
پانی ایک بہت بڑی نعمت ہے مگر آج کل بلوچستان میں صاف پانی انتہائی نایاب ہوتا جارہا ہے۔ آج بھی بلوچستان کے لوگ جوہڑ اور تالابوں کا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ بلوچستان کے سات اضلاع کے لوگ نہری پانی پینے پر مجبور ہیں جن میں پٹ فیڈر کینال اور کیرتھر کینال شامل ہیں۔ اس وقت بلوچستان کے حصے کا پانی صرف 10300 (دس ہزار تین سو) کیوسک ہے جو سندھ اور پنچاب کی ایک بڑی نہر سے بھی کم ہے جو بلاشبہ ایک شرم ناک بات ہے۔ بلوچستان کے حصے کا پانی سندھ کے دو بیراجوں سے آتا ہے جن میں گڈو بیراج سے چھ ہزار سات سو (6700) کیوسک جبکہ سکھر بیراج سے دو ہزار چار سو (2400) کیوسک براستہ کیرتھر کینال ملتا ہے۔
سی پیک کا جھومر،گوادر کے عوام کی آواز جب کوہِ باتیل سے ٹکراتے ہوئے سمندر کی تہہ تک پہنچتی ہے، تو نیلگوں سمندر کی مست موجیں اداس ہو کر کوہِ باتیل سے ٹکراتے ہوئے ساکت ہو جاتی ہیں یا انھیں ساکت کر دیا جاتا ہے۔ اسی اثنا میں کریموک ہوٹل میں چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے گوادر کے قدیم باسی ماہی گیروں کی کیفیت بھی انھیں بولنے پر مجبور کرتی ہے۔ جب یہ چیخ و پکار کوہِ باتیل کی چوٹی سے ٹکرانے کے بعد پورے شہر سے ہوتے ہوئے چندلمحوں میں جیوانی سے اورماڑہ تک پہنچ جاتی ہے اور سیاہ راتوں میں آسمان پر چمکنے والے ستاروں کی روشنی دیمی زر کے ساحل پر چمکنے لگتی ہے، ان چیخوں کو کبھی دبایا جاتا ہے تو کبھی یہ خود دب جاتی ہیں۔ انھیں کوئٹہ اور اسلام آباد تک پہنچنے میں کئی سال لگتے ہیں۔
یہ مشہور واقعہ ہے سابق صدر پاکستان جرنل یحییٰ سے ملنے کیلئے بیگم ترانہ ہاؤس تشریف لائیں تو سیکورٹی اہلکار نے روک دیا، وہ غصہ میں آگئی، اندر پیغام بھیجا گیا،حکم آیا احترام کے ساتھ اندر بھیجو،وہ جب واپسی پر آئی تو سیکورٹی گارڈ نے سلیوٹ مارا،گاڑی روکی شیشہ اتار کر بیگم ترانہ نے سوال کیا کہ پہلے چھوڑ نہیں رہے تھے اب سیلوٹ مار رہے ہو۔ سیکورٹی اہلکار مسکرایا اور کہا پہلے آپ بیگم ترانہ تھیں اندر سے ہوکر آئی ہو قومی ترانہ ہو گئی ہو ”قومی ترانہ“کو سلیوٹ کرنا میری ذمہ داری میں شامل ہے۔دوسرا واقعہ کراچی جہاز حادثہ کا ہے، تحقیقات کاڈرامہ لگا ہوا ہے۔
ممتاز بلوچ گوریلا شہید اسلم جان گچکی ناقابل فراموش جدوجہد اور قربانیاں بلوچ قومی تحریک کیلئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے آج 9جون کو شہید رہنماء کی 18ویں برسی نہایت ہی عقیدت و احترام سے منائی جا رہی ہے۔ بلوچستان جہاں ہمیشہ سے ظلم و جبر کا راج رہا ہے انگریز استعمار کی دور حکمرانی سے لے کر ہر آنے والے سول وڈکٹیٹر حکمرانوں نے بلوچ ماں دھرتی اور بلوچ قومی تشخص کو مٹانے کیلئے اپنی تمام تر جملہ توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بلوچ وطن کے فرزندوں کو ظلم و جبر و تشدد کا نشانہ بنایا مسخ شدہ لاشوں کے تحفے دیئے گئے۔
شاپنگ مالز کھل گئے، پبلک ٹرانسپورٹ بھی چلنے لگی، چھوٹی بڑی تمام مارکیٹس میں کاروباری سرگرمیاں بھی عروج پر پہنچ گئیں، بیرون ملک پاکستانیوں کی آمد کا سلسلہ بھی زوروں پر ہے، ملک بھر میں سیاحت کی اجازت کا حکم نامہ بھی آگیا، ٹرینوں کی تعداد میں بھی روز بروز اضافے کے فرمان جاری کئے جارہے ہیں لیکن تعلیمی اداروں اور کھیل کے میدانوں پر اب بھی ویرانی سی چھائی ہوئی ہے۔اس سے کوئی انکار نہیں کہ کرونا کی وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر دنیا کے سیاسی، معاشی اور سماجی نظام میں ایک بھونچال پیدا کردیا ہے۔
پچھلے کالم میں بات ہو رہی تھی کہ ایک طرف کرزن ہندوستان میں اصلاحات لانے کے لیے برٹش پارلیمنٹ کے ساتھ خط وکتابت کر رہا تھا سیکریٹری آف انڈین افیئرز (وزیرِ امور ہند) سے مسلسل رابطے میں تھا۔ دوسری طرف مسلم لیڈرشپ اپنے سیاسی حقوق کے لیے بھی کوشاں تھی۔کرزن نے ہندوستان کے معاملات کو زیر غور لایا کیونکہ کرزن آتے ہی پورے معاملات کا ژرف بینی سے جائزہ لے چکا تھا۔بلاشبہ کرزن ایک visionary گورنر جنرل تھا۔1901 میں کرزن وزیر امور ہند کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور وزیر امور ہند برٹش پارلیمنٹ کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔یاد رکھیں سیکریٹری آف اسٹیٹ انڈین افیئرز (وزیر امور ہند)کی بھی ایک کونسل ہوتی تھی۔ کونسل آف دی سیکریٹری آف اسٹیٹ کے ممبرز کی تعداد ہمیشہ 15 سے کم نہیں زیادہ ہوتی تھی اور یہ سارے برٹش ہوتے تھے وہ جنھوں نے بطور بیوروکریٹ یا آرمی آفیسرز ہندوستان میں serve کیا ہو۔
ملک میں ہر حکومت عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کا نعرہ لگا کر عنان اقتدار کے مسند پر فائز ہوتی ہے تو پھر وہ عوام کے مفادات کے برعکس فیصلے کرکے عوام کو مختلف ٹیکس اور مہنگائی کے عذاب میں مبتلا کر دیتی ہے۔ تہتر سالوں سے زائد عرصہ ہونے کے باوجود ملک کو ایماندار قیادت نصیب نہ ہوا اور نہ ہی کسی اچھے حکمران کو حکمرانی کرنے کا موقع دیا گیا۔ ملک میں جمہوریت اور آمریت کا کھیل کھیل کر جہاں ملک میں عدم ترقی ہوئی وہاں ملک میں سیاسی عدم استحکام بھی رہا، عوام نہ تو جمہوریت سے بہرہ مند ہوسکی اور نہ ہی آمریت کے ترقی کن نعرے سے مسحور ہوئی۔
یہ بات سو فیصد درست ہے کہ انسان اپنے علم وہنر سے معاشرے میں پہچانا جاتا ہے مگر انسان کی شناخت کی اصل بنیاد اس کا علم و فن ہر گز نہیں ہوتا بلکہ اس کا اخلاق و کردار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ انسان کی حقیقی عظمت کا تعین اس کے معاملات، زندگی کے طور طریقے اور اس کے عمل سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ اگر ا س کے پاس علم کی درجنوں ڈگریاں موجود ہوں مگر اس کے اخلاق و کردار، انداز و اطوار، عادات و خصائل اور دیگر معاملات زندگی درست نہیں تو ایسے شخص کے لئے علم و فن کا اعلیٰ ترین مقام حاصل کرنا بے معنی ہے۔وہ علم و ہنر حاصل کرنے کے باوجود محرومیوں کے اندھے کنویں میں غوطے لگا رہا ہوتا ہے۔
پچھلے دنوں امریکہ میں ایک سیاہ فام شخص “جارج فلویڈ” کو امریکن پولیس کے ایک بے رحم اہلکار نے بڑی بیدردی سے قتل کردیا۔ اس کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ وہ سیاہ فام (افریقن امریکی شہری) تھا اس کے گردن کو امریکی پولیس اہلکار نے تقریباً آٹھ منٹ تک اپنے گھٹنوں سے دبائے رکھا اور دبانے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ جارج فلویڈ پولیس اہلکار کی منت سماجت کرتا رہا کہ میرا دم گھٹ رہا ہے، مجھے چھوڑ دیں لیکن امریکی پولیس اہلکار کو ذرہ بھی رحم نہیں آیا حتیٰ کہ جارج فلویڈ اپنی آخری سانسیں گننے لگا تو پولیس اہلکار نے اسے چھوڑ دیا۔ جب اسے ہسپتال لے جایا گیا تو وہ اپنی جان کی بازی ہار گیا۔