بلوچستان جب سے صوبہ بنا ہے اس وقت سے لیکر آج تک کسی بھی وزیر اعلیٰ نے صوبائی حقوق، پسماندگی، عدم ترقی اور مرکزی منصوبوں میں بلوچستان کو ترقیاتی عمل میں نظر انداز کرنے کے حوالے سے دو ٹوک اور ٹھوس موقف اختیار کیا اور نہ ہی بھر پور احتجاج کیا ہو، اس طرح کی آپ کو صوبے کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملے گی بلوچستان میں کم و بیش ڈیڑھ درجن سے زائد مختلف شخصیات وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے باوجود صوبائی حقوق کیلئے کاکوئی ایساکارنامہ سرانجام نہیں دیا جس کی کوئی بھی مثال دی جا سکتی ہو یا یوں کہیں کہ بلوچستان کے عوام ان کے ان عظیم کارناموں پر فخر کرتے ہوں۔
جیسا کہ پچھلے کالم میں ذکر کیا گیا کہ انڈیا میں 1892 کے ایکٹ کے مطابق جو الیکشن ہوا اس میں مختلف یونینز اور کونسلز کو Nominate کیا گیا۔ یعنی ٹریڈ یونینز،بار کونسلز،لینڈ لارڈ ایسوسی ایشنز یونیورسٹی سنڈیکیٹس میں الیکشن کیے گئے۔ان میں سے جو جیتا وہ امپیریل لیجسلیٹیو کے ممبرز بنے۔سر سید School of thought اسے ایک اور نقطہ نظر سے دیکھ رہا تھا بظاہر ہچکولے کھاتی جمہوریت تو پنپ رہی تھی لیکن مسلمانوں کا اس نوزائیدہ جمہوریت میں حصہ دورازدانست تھا۔ایک قابل غور بات بتاتا چلوں کہ 1892 کے اس کونسل ایکٹ میں making Law ہونی ہو تو ہوتا یہ تھا کہ ایگزیکٹو کونسل کے 5 ممبرز باقی ایڈیشنل ممبرز امپیریل لیجسلیٹیو کونسل برٹش آفیشلز بھی اور Elected بھی اکھٹے آجاتے تھے اور گورنر جنرل اس سیشن کی صدارت کرے گا اور سوال کرنے کا بھی کوئی اختیار نہیں لیکن ایسا لگے گا انڈیا کی اسمبلی نے ایکٹ یا بل پاس کر لیا۔
بلوچستان جہاں انسانی حقوق کی پامالی، جبر، زیادتی اور زباں بندی کو اب کئی سال ہونے کو ہیں ایک معمول کے واقعے پہ پھٹ پڑا ہے۔ ضلع کیچ کے ہیڈ کوارٹر تربت سے محض 12 کلو میٹر مغرب میں واقع گاؤں ڈنک (ڈنک کو غلطی سے ڈھنک، ڈہنک، ڈننک وغیرہ لکھا جارہا ہے) میں عید کی دوسری رات ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا جو اب یہاں عموما ًہوتے ہیں مگر برسوں سے جاری گھٹن اور زباں بندی کو گویا کھتارسس چاہیے تھا سو اس واقعہ کو بنیاد بنا کر بلوچستان اپنی روایتی مزاحمت پر اتر آیا۔ ڈنک واقعہ میں ریاست کی سرپرستی میں ایک مسلح جتھے کے جرائم پیشہ لوگوں نے ایک گھر میں گھس کر ڈکیتی کی کوشش کی۔
بلوچستان گزشتہ کچھ دہائیوں سے دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے۔ پہلے یہ دہشت گرد بلوچستان میں عوامی مقامات کو نشانہ بناتے تھے جن میں بسوں کے اڈے، ریلوے اسٹیشن بازار و شاپنگ سینٹر ان کا ہدف ہوتے تھے لیکن بعد میں ان دہشت گردوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور زیادہ سے زیادہ بے قصور اورمعصوم لوگوں کو مارنا شروع کر دیا اور بے خبر غریبوں کو نشانہ بنانے لگے۔اب تک بلوچستان میں ہزاروں افراد ایسے واقعات میں شہید ہوچکے ہیں۔ چند روز قبل بلوچستان کے ضلع تربت ڈھنک میں ایک دل دہلادینے والا واقع پیش آیا۔ اقتدار کے بادشاہوں کی سرپرستی میں بندوق بردار ڈاکوؤں نے بلوچی روایات کو پاؤں تلے روند کر چادر و چار دیوار کو پامال کیا اور بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک نہتے خاتون پر حملہ آور ہوئے۔۔۔۔۔۔
کرونا وائرس کے منظر عام آنے پر بلوچستان میں محکمہ صحت کی ہسپتالوں میں سہولیات کا پول کھل گیا ہے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو جب بیمار ہوئے تو علاج کے لیے سرکاری ہسپتال گئے،علاج تو اپنی جگہ موصوف کو چوہوں نے سونے نہ دیا۔جب اسپیکر صاحب کے ساتھ یہ رویہ رکھا گیا تو عام مریضوں کی کیا حالت ہوتی ہے اس کا اندازہ سب کو ہے۔ اس وقت ملک میں کرونا آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے کرونا مریض پریشان ہیں چوتھا مہینہ شروع ہے لیکن ڈویژن کی سطح پر ٹیسٹ شروع نہیں ہو سکے ہیں۔ شروع کے دنوں میں جاری فنڈز کو ٹھکانے لگانے کے لیے راشن تقسیم، میونسپل کمیٹیز نے اسپرے کے ڈرامے کیے۔ مولویوں نے اذانیں دیں۔اب جب کرونا عروج پر ہے بلوچستان حکومت خاموش اور میونسپل کمیٹیز بھی خاموش ہو چکی ہیں۔
کورونا وائرس ایک مہلک عالمی وباء ہے جو ایک انسان سے دوسرے انسان میں تیزی سے منتقل ہوتا ہے۔لیکن شعور کی کمی کہوں، خوف یا کم عقلی،کورونا وائرس کی تمام تر علامات کو خود میں محسوس کرنے کے بعد بھی لوگ ٹیسٹ کرانے سے گھبراتے ہیں کس وجہ سے “کہ حکومت صحیح ٹیسٹ نہیں کرتی، یہ سب ڈرامہ ہے ہر ٹیسٹ کرانے والے کو پازیٹو رزلٹ دیا جائیگا اگر کورونا پازیٹو آگیا تو ہمیں زبردستی کورونا ٹیم اٹھا لے گی، ہمارے معاشرے میں بدنامی ہوگی کہ فلاں کو کورونا ہے ہمیں ماردیا جائیگاا و دیگر مختلف افواہیں آپکو اپنے ارگرد سننے کو ملینگی”
کورونا کی قیامت برپا ہوئی تو پاکستان میں اس کی پہلی ضرب اسکولوں پر پڑی۔ ایک جانب کھیل کے میدان سجے رہے تو دوسری جانب علم کے دروازے بند کر دئیے گئے۔ صوبائی حکومتوں کا شاید یہ خیال ہوگا کہ اسکولوں کے دروازے اگر بند کر دیے جائیں تو کورونا کے سارے وائرس کھیل کود میں لگ جائیں گے اور ہم ان کو کھیل کے میدانوں میں گھیر گھار کر ہلاک کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن یہ وائرس اتنے بد ذوق اور خشک مزاج ثابت ہوئے کہ کھیل کے میدانوں کو ہی اجاڑ کر رکھ دیا۔
پاکستان کھیل سے فارغ ہوا تو پھر کہیں جاکر ارباب اختیار و اقتدار کو کورونا کی تباہ کاریوں کا خیال آیا۔
ہمارے ملک میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جوکہ ڈاکٹرز (مسیحاؤں)کے ساتھ سرے عام موت کے کاروبار میں ملوث ہیں جہاں چند پیسوں کے عوض انسان جیسے اشرف المخلوقات کی زندگیوں سے گھناؤنا کھیل کھیل کر انہیں موت کی وادی میں دھکیلا جارہا ہے اور یہ منافع بخش اور جان لیواکاروبار پوش علاقوں کے علاوہ اندرون صوبہ اور مقامی سطح پر ڈاکٹرز اور میڈیکل ریپ والوں کی ملی بھگت سے جاری ہے۔اور کیوں نہ ہو جس معاشرے میں انسانی زندگی کی کوئی قیمت نہ ہو، جہاں حیوان اور انسان میں کوئی چیز مشترک شمار نہ کی جائے، جہاں خدمت خلق محض کتابی باتیں لگنے لگیں۔
بلوچستان کی صوبائی اسمبلی 1972 میں ایک صدارتی حکم نامے کے تحت وجود میں آئی۔اسمبلی کا پہلا اور باقاعدہ اجلاس 2 مئی 1972 کو منعقد ہوا جس میں 21 ارکان (ایک خاتون اور 20 مرد حضرات) نے شرکت کی۔ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی نے وجود میں آنے کے بعد سے لیکر اب تک کے اس سفر میں مجموعی طور پر 8 عام انتخابات دیکھے ہیں۔اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد بتدریج بڑھ کر 65 ہو چکی ہے۔ اگرچہ ارکان کی تبدیلی کی وجہ سے یہ تعداد گھٹتی اور بڑھتی رہی ہے۔ 1972میں ارکان کی کل تعداد21اور 1977 ء میں 45 تھی جو 1999 میں گھٹ کر 43 ہو گئی۔
اس حقیقت سے مفر نہیں تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو ہندوستان میں 1892 کا انڈین کو نسل ایکٹ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔اس ایکٹ میں پہلی مرتبہ جمہوریت کا آئیڈیا دیا گیا جو کسی حد تک سیاسی لحاظ سے ہندوستانیوں کو مطمئن کر سکا اور ہندوستان میں جمہوریت کا پیہہ خراماں خراماں چل پڑا۔ مزید تفصیل میں جانے سے پہلے یہاں یہ بات واضح کر تا چلوں کہ آخر برطانیہ کو ان کونسل ایکٹس کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد ہندوستانیوں میں سیاسی شعور بیدار ہوا۔انہوں نے سیاسی حقوق کے لیے بھاگ دوڑ شروع کردی۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ 1892 کا کونسل ایکٹ پہلا ایکٹ تھا جو ہندوستان میں متعارف ہوا۔ اس سے پہلے بھی کونسل ایکٹس تھے 1861 کا کونسل ایکٹ 1831 کا کونسل ایکٹ، 1813 کا کونسل ایکٹ۔1857 سے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی بھی اپنے ایکٹس متعارف کرتی تھی۔