بے نظیر بھٹو 21جون 1953ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں بے نظیر کا سحر دنیا کو اپنی گرفت میں لے چکا تھا آکسفورڈ کی وہ ذہین وپرکشش لڑکی جسے علم تھا کہ اس کی زندگی کا ہر قدم پر خارکانٹوں سے اٹھاپڑا ہے، جو راہ ادھر سے جاتی ہے،مقتل سے گزر کر جاتی ہے۔ان کے وزیر اعظم بننے سے بہت پہلے ہی ان کا خاندان اقتدار کے ایوانوں میں موجود تھا ان کے داد ا سر شاہنواز بھٹو ریاست جو ناگڑھ کے وزیر اعظم رہ چکے تھے اور ان کے والد پاکستان کے کامرس منسٹر اور ایک کامیاب وزیر خارجہ کے طورپر خدمات سر انجام دینے کے بعد وزارت عظمٰی کے عہدے تک پہنچے تھے۔
بلوچستان ایجوکیشن سسٹم مہم کا آغاز پاکستان کے انتہائی پسماندہ ضلع آواران میں شعبہ تعلیم کی بہتری کے لیے شہریوں کی جانب سے کیا گیا ہے۔ عبدالستار گوٹھ ایک ہزار نفوس پر مشتمل ضلع آواران کا ایک چھوٹا گاؤں ہے جس کی مقامی آبادی ذریعہ معاش کے لیے زراعت کے شعبے پر انحصار کرتی ہے، کراچی سے شمال مغرب کی جانب 3 سو کلومیٹرکے فاصلے پر واقع مذکورہ گاؤں کا واحد پرائمری سکول کئی سالوں سے بند تھا۔
اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو معدے کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد جب علاج کی غرض سے بی ایم سی اسپتال گئے تو ان پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار کس حد تک بگڑ چکی ہے،غریب عوام کو صحت عامہ جو کہ کسی بھی ریاست کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے عوام کو بہم پہنچائے،بد قسمتی سے ہمارے ملک میں صحت اور تعلیم کے شعبے جس تیزی سے تنزلی اور کرپشن کا شکار ہیں دس بیس سال پہلے حالات ہرگز ایسے نہ تھے جیسے آج ہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستا ن کو آج تک کوئی ایسا حکمران نصیب نہیں ہوا جو حکمرانی کے معیار پر پورا اترتا ہو۔اس طویل عرصے میں صرف ایک شخص جس کو دنیا بھٹو کے نام سے جانتی ہے نے ملکی عوام کو توقیر بخشی۔بھٹو صاحب اگرچہ سوشلزم کے قریب مانے جاتے تھے مگر ان کا حلقہ یاراں سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور وڈیروں پر مشتمل تھا گوکہ بھٹو صاحب خود بھی جاگیردار تھے مگر ان کی کچھ ادائیں عوام کو بھا گئیں۔
بنک اور سٹاک ایکسچینج کا نام سنتے ہی عام طور پر حرام و حلال اور جائز و نا جائز کی بحثیں شروع ہوجاتی ہیں۔ مگر اسلامی نقطہ نظر سے کسی بحث کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ سود لینا اور دینا اسلام میں قطعی حرام ہے۔ اس قطعی حرمت کے باوجود بنک کاری نظام اور سٹاک ایسچینج کی بنیادی چیزیں سمجھنا اس دور کی ایک انتہائی اہم ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عصرِ حاضر کی جس انتہائی پیچیدہ سرمایہ دارانہ نظام کے زیرِ زثر ہم اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں یہ دونوں چیزیں اس نظام کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
سطح سمندر سے 5688 فٹ کی بلندی پر واقع گورک ہل جسے بلوچی زبان میں گرک کوہ کہا جاتا ہے۔ سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ لاتا ہے۔ بکھری ہوئی آبادی پر مشتمل یہ علاقہ بلوچستان اور سندھ کے سنگم پر واقع ہے مگر یہ علاقہ دور جدید میں بھی سکول کی سہولت سے محروم ہے۔ سکول سے محروم علاقے کے بچوں کو تعلیم کی زیور سے آراستہ کرنے کے لیے گل محمد بلوچ رضاکارانہ بنیادوں پر بطور استاد خدمات کی انجام دہی میں مصروف ہے۔ عمارت کی عدم دستیابی کے باعث انہوں نے دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر نہ صرف ٹینٹ اور ٹاٹ کا انتظام کروایا بلکہ بچوں کے لیے بستہ اور کاپی کتابوں کا بندوبست بھی کیا۔ یوں اس کی جدوجہد رنگ لے آئی جہاں تعلیم کا تصور ہی نہیں تھا اب وہاں تدریس کا آغاز ہو چکا ہے۔
میں جب بھی گاؤں جاتا ہوں تو میرے سامنے گاؤں کی وہی تصویر آجاتی ہے جو میرے بچپن میں ہوا کرتا تھا، سوالات میرے گرد ڈیرہ ڈالتے ہیں میرے گاؤں کے بچے اور بچیاں تعلیم سے محروم کیوں ہیں؟ کھوج لگانے کی کوشش کرتا ہوں مگر جواب تلاش نہیں کرپاتا۔نہ ہی گاؤں کے مرد پڑھے لکھے اور نہ ہی خواتین۔ ایک دن ایک خاتون سے سامنا ہوا،بغل میں بیمار بچہ مسلسل روتا چلا جا رہا تھا،سوال ان سے یہی تھا کہ ڈاکٹر کو دکھایا تو کہنے لگیں ہاں دکھایا تو ضرور مگر ڈاکٹر نے کہا کہ کچھ نہیں۔
گزشتہ روز ایک محفل میں باتوں باتوں میں ایک دوست یہ کہہ گئے کہ بی بی سی اردو سروس کا پروگرام سیربین بند ہونے جا رہا ہے۔ شاید یہ خبر دوستوں کے لیے انہونی نہیں تھی مگر یہ خبر سن کر ذہن کو دھچکا سا لگا۔ بے اختیار زبان سے نکل آیا ”کیا؟“ دوست میری طرف متوجہ ہوئے”کیا ہوا بھائی! انتقال کی خبر تھوڑی سنا دی کہ اس پر ملال ہوا جائے۔“ میرے لیے یہ ملال کی خبر ہو نہ ہو مگر میں جانتا ہوں کہ بلوچستان کے کونے کونے میں بسنے والے ان افراد کے لیے یہ ملال والی بات ضرور ہوگی جن کے لیے خبروں کا واحد وسیلہ تاحال بی بی سی اردو سروس کا پروگرام سیربین ہی ہے۔
عام طور پر معاشی ترقی کو کسی ملک کے قدرتی وسائل مثلاً تیل، گیس اور کوئلہ کی پیداوار پر منحصر سمجھا جاتا ہے۔ یہ قدرتی وسائل ترقی کی ایک وجہ تو ضرور ہیں مگر یہ واحد وجہ نہیں۔ ماضی قریب میں ایسے بہت سے ممالک نے بھی ترقی کی جن کے پاس معدنیات کے ذخائر نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وسائل جو بھی ہوں کسی بھی طریقے سے ملکی پیداوار بڑھانے سے ہی معاشی ترقی ممکن ہے۔ پیداوار بڑھانے سے ہمارے ذہن میں قدرتی وسائل کے بعد سستے مزدوروں کی دستیابی آتی ہے۔ مگر آج کے دور میں سستے مزدور بھی اس قدر اہم نہیں رہے۔ مثال کے طور پر جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ممالک کم آبادی اور مہنگے مزدوروں کے ساتھ بھی اپنی پیداوار بڑھانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ آج کے دور میں پیداوار بڑھانے کیلیے سب سے اہم چیز ٹیکنالوجی یا انڈسٹری ہے۔
سورج ڈھل چکا تھا، اور ہم بیلہ سے آواران کے لیے رخت سفر باندھ چکے تھے۔ سڑک بھی خستہ حال۔ یہ احساس تنگ کرنے لگا کہ اقتدار کے ایوانوں میں براجمان علاقائی نمائندوں کو یہ تکلیف دہ صورتحال نظر کیوں نہیں آتی۔ جوں جوں آگے بڑھے تو ہم نے بیلہ آواران روڈ کو بارونق پایا۔ ہوٹل کھلے ہوئے ملے۔ یہ سب زامیاد گاڑیوں کی آمدورفت اور تیل کے کاروبار کی وجہ سے ممکن ہو پایا ہے۔ وہ روٹ جس پر ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک ویرانی کا راج رہا اس خاموشی کو توڑنے کے لیے ایرانی زامیاد گاڑیوں کے کاروان اپنا کردار نبھا رہے تھے۔