میر یوسف عزیز مگسی، ایک تاریخ ایک تحریک

| وقتِ اشاعت :  


انسانی تاریخ اور سماجی ارتقاء عظیم دانشوروں،فلاسفروں، انقلابی اور قومی رہنماؤں کے کارناموں اور قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ جنہوں نے اپنی علمی، فکری جدو جہد اور خیالات سے قوموں کی ارتقاء کی راہوں کا تعین کرکے سماجی زندگی میں اہم کلیدی کردار ادا کرکے قوموں کی ترقی، آزادی اور خوشحالی کیلئے مضبوط اور مستحکم بنیادیں فراہم کیں۔ انہی نظریات، خیالات اور سوچ نے انہیں قومی ہیرو اور تاریخ میں ہمیشہ زندہ رکھا ہوا ہے۔



اس رات کیا ہوا؟

| وقتِ اشاعت :  


زلزلہ ایک قدرتی عمل اور کائنات کے نظام کا حصہ ہے اور زمین پر ہزاروں لاکھوں سالوں سے زلزلے آتے رہے ہیں اور اپنی تباہ کاریوں کے باعث انسانی تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں زمین کی تھر تھراہٹ نے ہمیشہ زمینی مخلوقات کو بے شمار نقصان پہنچا ئے ہیں زلزلوں کی تاریخ میں 31مئی 1935کو کوئٹہ میں آنیوالا زلزلہ بھی ایک قیامت خیز زلزلہ تھا انسانی جانوں کے نقصان کے اعتبارسے کوئٹہ کا زلزلہ دنیا کے بڑے تباہی پھیلانے والے زلزلوں میں پندرھویں 15نمبر پر آتا ہے کوئٹہ میں 31مئی1935کو نیم شب کو آنیوالے زلزلے میں ایک انداز ے کے مطابق 60ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے آج بھی اس زلزلے کو یاد کرتے ہوئے لوگوں کے رونگٹھے کھڑے ہوجاتے ہیں گو کہ زلزلوں میں عمارتیں اور دیوار ے گرنے سے ہلاکتیں ہوتی ہیں لیکن بعض لوگ زلزلے کے خوف سے ہی مر جاتے ہیں۔



میر یوسف عزیز مگسی عمر رفتہ کی مختصر جھلک

| وقتِ اشاعت :  


میر یوسف عزیزپہلے بلوچ نواب تھے جنہوں نے قبائلی نظام میں دراڑیں ڈالنے کے لئے جبری تعلیم کانظام رائج کیا۔ انہوں نے دینی و دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ انگریزی علوم اور سائنس کی تعلیم کی ضرورت پر زور دیا تعلیم مقصد کے حصول کے لئے یوسف عزیز مگسی علاقہ میں ایک عظیم تعلیمی منصوبہ کا آغاز کیا انہوں نے۵۱ اکتوبر ۳۳۹۱ء کوجھل مگسی میں جامعہ یوسفیہ کا سنگ بنیاد رکھا وسیع وعریض رقبے پر محیط جامعہ یوسفیہ بقول پر وفیسر محمود علی شاہ جوانہوں نے ایک سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ یوسفیہ اب بھی رقبے کے لحاظ سے بلوچستان یونیورسٹی سے بڑا ہے۔



بلوچستان میں لڑکیوں کی تعلیم ایک بار پھر سے زیر عتاب

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان سے اچھی خبریں نہیں ملتیں یہ خطہ اپنے جسم کو خون سے تر کرتا چلا آر ہا ہے۔ حکومتی دعوؤں کے باوجود امن فقط ایک خواب کی صورت میں دھندلی تصویر کے ماننددکھائی دیتی ہے۔ جنگ و جدل کی اس فضا میں بلوچستان کا میدان سیاسی،سماجی،معاشی اور تعلیمی حوالے سے بیک فٹ پر چلا گیا ہے۔ گراؤنڈ پر ایک ہیجانی سی کیفیت موجود ہے۔ ان مسائل پر بہت کم بات کی جاتی ہیجن سے یہاں کے باشندے آئے روز متاثر ہوتے ہیں۔



بلوچستان کا معاشی نظام زیر بحث نہیں آتا۔۔۔۔(2)

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان کی آبادی کا ایک حصہ معاش کے حصول کے لیے بیرونی ممالک کا رخ کرتا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جنھیں گھر کی دہلیز پر مزدوری بھی دستیاب نہیں، اور محنت مزدوری کے لیے سالہا سال باہر زندگی گزارتے ہیں۔ کمائی کا آدھا حصہ خود پر خرچ کرتے ہیں اور بچ جانے والی رقم گھر والوں کے لیے بھیجتے ہیں۔ چونکہ بلوچستان کی دیہی آبادی بجلی، گیس اور پانی کی سہولت سے محروم ہے تو یہ لوگ بہ نسبت شہریوں کے یوٹیلٹی بلوں سے آزاد ہیں۔ سو اگر بجلی، گیس، پانی کی قیمتیں بڑھ بھی جاتی ہیں تو بھی دیہی لوگوں پر اس کا براہِ راست اثر نہیں پڑتا (یہ نہیں کہ وہ ان سہولیات سے استفادہ حاصل نہیں کرنا چاہتے) اگر اثر پڑتا ہے تو اشیاء خوردونوش کی قیمتیں بڑھ جانے کا اثر ہوتا ہے۔



بلوچستان کا معاشی نظام زیر بحث نہیں آتا۔۔۔ (1)

| وقتِ اشاعت :  


پوری دنیا میں اس وقت جو جنگ چل رہی ہے وہ ہے معا ش کا۔ ایک ملک دوسرے ملک پہ چڑھائی کر رہا ہے غرض صرف وہاں کی معیشت پر قابض ہو کر راج کرنا۔معیشت کی اس جنگ میں کئی ممالک بازی جیت جاتے ہیں تو بہت سوں کو مات کھانی پڑتی ہے۔ پھر یہ ایسی گھن چکر ہے کہ اس سے نکلنا مشکل ہوجاتا ہے۔معیشت کے اس کھیل میں سرمایہ دارانہ نظام فروغ پاتا ہے۔ اور دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم عمل میں آتی ہے۔



ادھورا خواب۔۔۔۔۔۔۔۔پوری زندگی

| وقتِ اشاعت :  


اپنے ہم عمروں کی طرح وسیم نے بھی اپنی زندگی میں بہت سے خواب دیکھ رکھے تھے۔کچھ کر دکھانے کی جستجو اسے کسی لمحہ بھی چین نہ لینے دیتی تھی۔ وہ ہر وقت کچھ کچھ نہ کچھ سوچتا ہی رہتا تھا۔لیکن اس کے یہ سارے خواب اس کی ذات تک ہی محدود تھے۔ کسی کو کانوں کان بھی اس کی خبر نہ تھی۔ خبر ہوتی بھی تو کیسے؟ اگر وہ کسی سے یہ خواب بیان کرتا تو ہی نہ۔ لیکن اس نے کسی کو بھی اس کے بارے میں نہ بتا نے کی ٹھا ن رکھی تھی۔ اس کی سوچ بھی درست تھی کہ بجائے اس کے کہ وہ دوسروں سے اپنے خواب بیان کرے وہ چاہتا تھا کہ ان خوابو ں کی تعبیر حاصل کرنے کے بعد ان کو دوسروں کو بتائے۔ وہ دن رات محنت سے پڑھتا تھا تا کہ جلد جلد از جلد اپنی منزل پر پہنچ جائے۔



نصف صدی کی جدوجہد رائیگاں جائے گی؟

| وقتِ اشاعت :  


ڈالر کی اڑان کی ”برکتیں“ عوام، سیاستدان اور حکمرانوں کے درمیان سب سے زائد موضوع بحث بنا ہوا ہے، شاید ملکی تاریخ میں پہلی بار ڈالر کو اتنی شہرت ملی۔ آئے روز ایسی اڑان بھرتا ہے سب کو حیران کر دیتا ہے۔ اس پر تبصرہ بھر پور ہونا چاہئے، ضرور حصہ ڈالیں گے، لیکن بہاول پور میں ان دنوں سب سے زیادہ موضوع بہاول پور اور جنوبی پنجاب صوبہ پر بحث ہو رہی ہے۔



آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے نئے پہلو

| وقتِ اشاعت :  


اس سے پہلے بھی ہم22 مرتبہ آئی ایم ایف کی راہ اختیار کر چکے ہیں اور ہر بار آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط کے ناقدین کی طرف سے ملکی معیشت کا نظام چلانے والوں کو برا بھلا کہا گیا۔اس بار آئی ایم ایف نے واضح کر دیا ہے کہ 6 بلین ڈالر کا اسٹاف لیول ایگریمنٹ” پیشگی اقدامات پر بروقت عمل درآمد اور بین الاقوامی شراکت داروں کے مالیاتی وعدوں کی تصدیق” کے ساتھ مشروط ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ایف بی آر کو یہ بتانا ہے کہ وہ اگلے بجٹ میں کس طرح محاصل کو بڑھائے گا۔اسٹیٹ بینک کو یہ یقین دلانا ہو گا کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر اب مارکیٹ کے آزادانہ بہاؤ کی بنیاد پر طے ہو رہی ہے اور قرض کی بنیادی شرح سود میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ اس سے ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی قدر کے بلا روک ٹوک گرنے میں جلد بازی اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے پہلے ہی بہت زیادہ شرح سود میں اضافہ کی بھی وضاحت ہوتی ہے۔



ہر کوئی آگ بھڑکانے کو تیار ہے

| وقتِ اشاعت :  


پچھلے سال بولان میڈیکل کالج میں ہم نے ایک سیمینارمنعقد کیا جس کا موضوع تھا”Historical releations of Baloch and Pashtoon”جس میں کالج کے پشتون طلباء نے بھی ہمارے دعوت کے بعد ہمارا ساتھ دیا، پروگرام کا مقصد یہی تھا کہ ہم نفرتوں کی پروان چڑھتی فضاء کو کم کردیں ہم بھی ایک ساتھ اْٹھ بیٹھ سکیں، تجزیے،مباحثے،فیصلے کرسکیں، اسی پروگرام میں ایک سپیکر نے یہ جملہ کہا ”آج وہ لوگ بھی ایک ساتھ ایک ٹیبل پر بیٹھ کر چائے پی سکتے ہیں جن کی پرتعیش تقریروں کے وجہ سے سینکڑوں بلوچ و پشتون نے اپنا خون بہایا اور آج تک ایک ساتھ نہیں بیٹھتے“ یہ واقعی یاد رکھنے والا جملہ ہے، ہمیشہ سے عوام کو جو بھگتنا پڑتا ہے وہ ابدی ہوتا ہے البتہ حکمرانوں کے لیے وقت بدلنے میں دیر نہیں لگتا اور اسی حکمرانی کے چکر میں بلوچ پشتون تضادات والے کارڈ کو کہیں نہ کہیں استعمال کیا جاتا ہے۔