میں دکان کے باہر کھڑے بھکاری کے پاس گیا۔ میں نے اسے کچھ پیسے دیے اور پھر سڑک کنارے اپنے ساتھ چائے پینے کو کہا۔میرے خیال سے وہ اپنی عمر کی تیسری دہائی میں داخل ہو چکا تھا۔ اس کے والدین سوات سے آئے تھے مگر وہ پیدا اور بڑا کراچی میں ہوا تھا۔
تاریخ اس امر پر شاہد ہے کہ جب سے دشمنوں نے ہمارے ملک پر میلی نگاہ ڈالی ہے اور جب سے ہمارے ملک میں ہی کچھ ایسے ضمیر فروش پیدا ہوئے ہیں جو اپنے مفادات کے لیے وطن عزیز کو قربان کرنے کے لیے بھی تیار بیٹھے ہیں اس وقت سے عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لیے مختلف حکومتوں کی جانب سے ایک ایسی سکیم عمل میں لائی گئی ہے
کیا ہم ایسی سوسائٹی نہیں بن گئے جو اچھے کاموں کی مخالفت اور برے کاموں کی حمایت کرتی ہے؟ مَیں حیران ہوں کہ سندھ میں 17 سالہ شہناز کو شادی کی رات اس بنیاد پر قتل کرنے والے شوہر کی ابھی تک کسی دینی شخصیت نے مذمت نہیں کی کہ اس کی نوبیاہتا بیوی کنواری نہیں تھی۔ تحفظ خواتین بل پر آسمان سر پر اٹھا لینے والوں کو ایسے واقعات کیوں نظر نہیں آتے۔
اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ جمہوری ادوار میں ہمیشہ قومی اداروں کو تباہ کیا جاتا ہے کیونکہ سیاسی‘ سفارشی اور راشی افراد کو میرٹ سے ہٹ کر اور ضرورت سے زیادہ تعداد میں بھرتی کرکے اداروں پر مالی بوجھ بڑھایا جاتا ہے جبکہ نااہل افرادکیخلاف قانون بھرتی ہونے سے اداروں کی کارکردگی بدترہوتی چلی جاتی ہے
بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے بلوچستان کے صنعتی شہر حب چوکی میں ایک بڑا جلسہ کرکے حلقوں کو یہ بات باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ انکی جماعت بلوچستان میں ایک منظم سیاسی جماعت کی حیثیت رکھتی ہے۔
تحفظ ماحول کے حوالے سے بحیثیت سماجی کارکن و قلم کار ہمیشہ ماحول دوست اقدامات کے حوالے سے بات چیت کو فروغ دیا ہے ،ضلع لسبیلہ میں بہت ساری صنعتیں ہیں جس کی وجہ سے آ لودگی کے مسائل ہمیشہ موجود رہیں ہیں “حب کو پاور”کی طرف سے کوئلہ سے بجلی بنانے کے منصوبہ کا ماحولیاتی آلودگی کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے
’’ہم ماضی کے وعدے وعید نہیں بھولے جو ہم سے کئے گئے۔ حبکو کمپنی کی جانب سے 25سالوں میں نہ علاقے کو بجلی فراہم کی گئی ،نہ صحت کی سہولیات اور نہ ہی روزگار فراہم کی گئی۔ اب ہمیں انکی باتوں پر ایک فیصد یقین نہیں رہا‘‘۔
حب چوکی کے لیڈا آڈیٹوریم میں محکمہ ماحولیات کی جانب سے پبلک ہیئرنگ کیس کی شنوائی ہوگی۔ حکومت بلوچستان کی جانب سے بنائی گئی ماحولیاتی ایکٹ 2012کے مطابق کوئی بھی کمپنی جس کا تعلق فضاء کو آلودہ کرنے سے متعلق ہو اسے سب سے پہلے محکمہ ماحولیات کے قواعد و ضوابط سے گزرنا ہی پڑے گا۔
،ملٹی نیشنل اداے حبکو کی طرف سے لسبیلہ کے ساحل پر کوئلے کا پاور پروجیکٹ لگایا جارہاہے جس میں علاقے کے لوگوں کے شدید تحفظات ہیں یہ تحریر اسی پس منظر میں لکھی گی ہے ۔ کسی بھی متحرک معاشرے میں باشعور شہری حکومتی او رغیر حکومتی اداروں کی طرف سے عوامی منصوبوں کی منصوبہ بندی
چند سال پہلے کی بات ہے باہر کے ایک میگزین میں ایک آرٹیکل چھپا تھا جس کا عنوان تھا “Creepin Sands”اس میں پیشنگوئی کی گئی تھی کہ افغانستان سے جو ریت آہستہ آہستہ مغربی بلوچستان کی طرف بڑھ رہی ہے