|

وقتِ اشاعت :   March 22 – 2016

،ملٹی نیشنل اداے حبکو کی طرف سے لسبیلہ کے ساحل پر کوئلے کا پاور پروجیکٹ لگایا جارہاہے جس میں علاقے کے لوگوں کے شدید تحفظات ہیں یہ تحریر اسی پس منظر میں لکھی گی ہے ۔ کسی بھی متحرک معاشرے میں باشعور شہری حکومتی او رغیر حکومتی اداروں کی طرف سے عوامی منصوبوں کی منصوبہ بندی ،عملدرآمداور اس کے بعد کے اثرات پر گہری نظر رکھے ہوتے ہیں ،کیونکہ اس طرح کے منصوبے موجودہ ایکوسسٹم جبکہ مستقبل کے جانداروں کی زندگیوں کا بھی فیصلہ کرتے ہیں ،اس لیے ضرروی ہے کہ بقائے زندگی کے لیے اپنی رائے کا ظہار کیا جائے ،لہذا بحیثیت سماجی کارکن اور قلم کار میرا یہ فرض بنتاہے کہ وہ اس موضوع پر قلم اٹھاؤں جو آج کل ضلع لسبیلہ میں زیر بحث ہے ۔ گڈانی کے علاقے میں واقع بین الاقومی ادارہ “حب کو پاور ” بجلی کی پیدواری صلاحیت کو بڑھانے کے لیے کوئلے کے پلانٹ لگانے کا خواہاں ہے اس سلسلے میں وہ حکومت پاکستان سے گرین سنگل کے انتظار میں ہے ،محکمہ ماحولیات نے این او سی جاری کرنے سے پہلے لسبیلہ کے عوام کے لیے ایک عوامی سماعت کاارادہ کیا ہے تاکہ اس پروجیکٹ کے بارے میں عوامی خدشات کو سنا جاسکے جس کی روشنی میں کوئلے کے پروجیکٹ کی منظور ی یا پھر نامنظوری کا فیصلہ کیا جاسکے ،لہذا لسبیلہ کے عوام کو اس موقع پر یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کرسکیں کہ آیا وہ اس پروجیکٹ کے حق میں ہیں یہ پھر اس کے بارے میں اپنے تحفظات رکھتے ہیں ، کوئلے کے ذریعے بجلی بنانے کے عمل کو پوری دنیا میں ختم کیا جارہاہے ،اقوام متحدہ اور دیگر تحفظ ماحول پر کام کرنے والے ادارے اس عمل کو آلودگی پھیلانے کا ذمہ دار قرار دے چکے ہیں اور توانائی کے حصول کے لیے متبادل ذارئع اپنانے پر زور دے رہے ہیں ،موجودہ پروجیکٹ کے تناظر میں اگر ہم دیکھیں تو ماحولیات کے حوالے سے ضلع لسبیلہ کافی مسائل کا شکار ہے یہ ہم سب جانتے ہیں ،حب و گڈانی کے علاقے شدید فضائی آلودگی کا شکا رہیں اور اگر اب بھی حبکواپنے اس کوئلے پروجیکٹ کو علمی جامہ پہنا دیتی ہے تو لس بیلہ کے لاکھوں افراد کی صحت کو درپیش خطرات مزید سنگین ہوجائیں گے ،اس سنگینی کو سمجھنے کے لیے میں نے انٹرنیٹ کی مدد سے کچھ تحقیقی پیپرز اور رپورٹ حاصل کی ہیں کراچی یونیورسٹی کے ادارے برائے ماحولیاتی علوم کے دائریکٹر ڈاکٹر معظم کے مطابق کوئلے سے چلنے والے پاور پلاٹنس کثیر مقدار میں گرین ہاوس گیسز سمیت دیگر فضائی آلودگی کا سبب بنے والے ٹاکسک فضلے اور راکھ کے اخراج کا باعث بنتے ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر کوئلے سے چلنے والے بجلی کے پلانٹ ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے خطرناک تصور کیے جاتے ہیں۔ ٰ660 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والے کوئلے سے چلنے والے ایک پلانٹ کو اپنے کولنگ سسٹم کے لیے سالانہ تین ارب گیلن پانی کی ضرورت پڑتی ہے جس کے سمندری ماحولیات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیںیہی وجہ ہے کہ چین کے علاوہ عالمی سطح پر کوئلے سے چلنے والے مذکورہ پاور پلاٹنس پر انحصار میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے ۔ایک پی ایچ ڈی اسکالر ڈاکٹرشاہد نسیم جو کہ جیو جینک بیماریوں کے ماہر بھی ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے منصوبے سے گرین ہاوس گیس کے اخراج کا نیا ریکارڈ بنے گا اور اس سے خارج ہونے والی تیزابی اور ٹاکسک فضلہ جس میں سلفر ڈائی آکسائید،نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ ،جست ،سیلینم ،پارہ ،کرونیم وغیر ہ شامل ہیں فضا میں شدید آلودگی پھیلانے کا سبب بنیں گے ۔دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ اس پلانٹ سے صرف ایک فیصد اخراج کا مطلب ہے گڈانی ،حب اور کراچی کی فضاؤں میں تین لاکھ بارہ ہزار دو سو چھ کے قریب ٹن سلفر کا اضافہ ،اورجب یہ آلودگی حب ڈیم ،و دریجی اور دوسری جگہوں پر پانی میں تحلیل ہونا شروع ہوجائے گی اس کے صحت اور دیگر رہائشی علاقوں پر کیا منفی اثرات مرتب ہونگے اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ،حبکو سے موجودہ سلفر اور آلودہ فضلہ ،بائکو ،آئل ریفائنری سے خارج ہونے والے فضلے کے ساتھ مل کر پہلے ہی سے گڈانی کے مقررہ حد سے تجاوز کررہاہے جو کہ ایک خطرناک صورتحال کی عکاسی کررہاہے ۔ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق دنیا میں عوامی جمہوریہ چین وہ واحد ملک ہے جو کہ اپنی توانائی کی ستر فیصد ضروریات کوئلے سے پوری کرتاہے ، دنیا کی نظریں چین میں کوئلے سے چلنے والے لا تعداد بجلی گھر وں سے نکلنے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ پر مرکوز ہے وہاں خود چین کے اندر ان بجلی گھروں کے کوڑے کرکٹ اور کوئلے کی راکھ کو ٹھکانے لگانے کا موضوع در د سر بنا ہوا ہے ،یہ راکھ ،ہوا ،پانی اور زمین کو آلودہ کردیتی ہے ، بجلی گھروں کے قریب جہاں یہ راکھ پھینکی جاتی ہے وہاں سے یہ راکھ ہوا کے ساتھ اردگر د کے علاقوں میں پھیل جاتی ہے جس سے یہ علاقے کے تمام گھروں،کھیتوں ،جانوروں اور پودوں میں جا کر جم جاتی ہے ،علاقے کے لوگوں کے مطابق کہ جب تیز ہوا چلتی ہے تو یہ صورتحال ناقابل برداشت ہوجاتی ہے پھر انسان کے لیے باہر کھڑے رہنا مشکل سا ہوجاتا ہے ،انسان اپنی آنکھیں نہیں کھول سکتا سب کچھ گندا ہوجاتاہے یہاں تک کہ پورے جسم پر یہ گرد جم جاتی ہے ، تحقیق کار وں کا مزید کہنا ہے کہ شمالی چین میں یہ راکھ قدرتی ماحول اور پانی کے پہلے سے موجود کم ذخائر کو آلودہ کررہی ہے کیونکہ اس کے اندر لیڈ ،کیڈمیم اور دیگر زہریلا مواد شامل ہوتاہے یہ مادے زمین کے اندر جذب ہوکرپینے کے پانی میں شامل ہوجاتے ہیں اور یوں انسانی خوارک کاحصہ بن جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ چین گزشتہ پانچ عشروں کے دوران فضائی آلودگی کے باعث ان ہلکی بارشوں کی شرح میں واضح کمی واقع ہوئی ہے،دوسری طرف تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بھی بات سامنے آئی ہے کہ چین میں کوئلے جلنے کے باعث پیدا ہونے والی آلودگی کی وجہ سے چین میں بسنے والے افراد کی زندگی میں اوسط ساڑھے پانچ سال تک کمی واقع ہوئی ہے ۔ ہندوستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان ریسرچ فیلو شائک سینا کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں زیادہ تر کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کے پاس سلفر ڈائی آکسائید اور نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ اخراج روکنے کے آلات نہیں ہیں ،یہ دونوں گیسز ایندھن کے جلنے سے نکلتی ہیں،سلفر ڈائی آکسائید کوئلہ میں قدرتی طور پر موجود گندھک کی وجہ سے نکلتی ہے، جبکہ ایندھن جلنے کی وجہ سے حرارت میں جو بھاری اضافہ ہوتاہے اس کے سبب ہوامیں پہلے سے موجود نائٹروجن سے نائٹروجن آکسائیڈگیس نکلتی ہے ،ہوا میں گھل جانے کے باعث یہ کثافت پھیلانے والے مادے امونیا کے ساتھ مل کر کیمیائی ردعمل کرتی ہے ،امونیا کی فضا میں موجودگی زیادہ تر زراعت کی وجہ سے ہوتی ہے ،مذکورہ دونوں کثافتوں کی وجہ سے ہی تیزابی بارشیں ہوتی ہیں جو کہ آبی گزرگاؤں زمینوں و ڈیموں کو آلودہ کردیتی ہیں نائی ئٹروجن آکسائید گیس کا اخراج زمین پر اوزون کی تشکیل میں مد د دیتاہے اور اوزون وہ گیس ہے جو انسانی سانس کی نالی کو نقصان پہنچانے کے علاوہ فضلوں کی پیدوار کو کم کرنے کا سبب بنتی ہے۔ ماہرین کے تجزیے اورپڑوسی ملکوں کی تحقیقاتی رپورٹ کے تناظر میں گڈانی کا علاقہ کسی بھی ایسی جان لیوا منصوبے کے قیام کامتحمل نہیں ہوسکتا، گڈانی کا علاقہ اس پروجیکٹ کے لیے موزوں و منطقی نہیں ہے کیونکہ کوئلے کے ان پروجیکٹ سے پیداہونے والا فضلہ ہماری سمندری حیات کو تباہ و برباد کردے گا تو دوسری طرف منصوبے سے نکلنے والی راکھ سمندری ہوا کی وجہ سے لسبیلہ و کراچی میں بسنے والی زندگیوں کا خاتمہ کردے گی اور زراعت کو بھی نقصان پہنچا ئے گی دوسری طرف اگر حب کو کی ان تمام باتوں کو مان لیا بھی جائے کہ جدید ٹیکنالوجی کے پلانٹ لگانے سے یہ آلودگی والے عناصر ختم ہوجائیں گے جس سے لس بیلہ کے عوام کو کسی بھی نقصان کا سامنا کرنا نہیں پڑے گا تو اس صورتحال میں یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ” حبکو “ہمیں کیا دے گا ،لسبیلہ میں سب سے اہم اور بڑا مسئلہ حب سے لے کربیلہ تک بجلی کا ہے مگر عجیب بات ہے کہ اتنے سالوں سے نہ تو لس بیلہ کے کسی حصہ کو بجلی دی ہے اور نہ ہی نئے پلانٹ سے بجلی دینے کا کوئی ارادہ ہے ادارے کی پالیسی کے مطابق وہ وفاق کو بجلی دے گا پھر وفاق لس بیلہ کو بجلی دے گا وفاق اور ہمارے حکومی نمائندوں کا یہ حا ل ہے کہ “حبکو “کے دیواروں کے ساتھ منسلک گوٹھوں میں گزشتہ ایک سال سے بجلی کا سلسلہ منقطع ہے حب سے بیلہ تک مین ٹرانسمشن لائن ناکارہ ہوچکی ہے ہر روز کھمبا و تار گرتی ہے مگر اس پر کبھی بھی بات چیت نہیں کی جاتی ہے،مانتے ہیں کہ لسبیلہ کے کچھ نوجوان “حبکو” میں اچھی پوزیشن پر ہیں مگر ان کی تعد اد اس سے دوسو گنا زیادہ ہے جو گزشتہ بارہ سال سے بارہ ہزار ماہانہ قلیل تنخواہ پر کام کررہے ہیں ،جب لسبیلہ میں انسانی وسائل کو فروغ دینے کے لیے کوئی خاص ارادے ہی نہیں تو آپ ان ملٹی نیشنل اداروں کو ہنرمند وقابل افراد کہاں سے مہیا کرپاؤ گے باقی عارضی نوکری یا پھر ڈیلی ویج پر لس بیلہ کے لوگوں کے لیے” حبکو ” کی نوکری کرنے سے بہتر ہے کہ وہ کوئی اور محنت مزدوری کرکے پندرہ ہزار تک کمائیں ،اپنے کمائی کے ایک فیصد فنڈ زسے قابل ذکر “حبکو “کے تعاون سے چلنے والے ٹی سی ایف اسکول ضرور ہیں مگر خارش و آنکھوں کے طبعی کیمپ لگا کر دنیا کی آنکھوں پر دھول جھونک سکتے ہیں مگر لسبیلہ کے عوام کو مطمئن نہیں کرسکتے ۔ دنیا میں قائم ہر ملٹی نیشنل کی یہ پالیسی ضرور ہوتی ہے کہ کسی طرح سے علاقے کے لوگوں سے نمٹا جائے سو لس بیلہ میں بھی یہی کچھ ہورہاہے عوامی لیڈروں وعلاقائی وڈیروں کو نوازو ،میڈیاکو کھلاو پلاؤ اور عوام کے ساتھ ا ستحصال کے اوپر استحصال کرتے جاؤ، اس تمام تر صورتحال میں لس بیلہ کے لوگ ایک ایسی کشمکش میں مبتلا ہیں جہاں پر ہمیشہ کوئی تیسرا فائدہ اٹھاتاہے بدقسمتی سے یہ سماجی و معاشی مسئلہ سیاست کی نظر ہورہاہے میں نے سوشل میڈیا پر ان موضوعات پر بڑی ڈسکشن کروائی جہاں پر 90 فیصد پڑھے لکھے اور متحرک لوگ حبکو کے اس مجوزہ کوئلہ پروجیکٹ کی اوپر تحریر میں بیان کی گئی باتوں کی بنیاد پر مخالفت کرتے نظر آتے ہیں مگر ہمارے پاس کیونکہ پاؤں سے نہیں ذہن سے اپاہچ لوگوں کی تعداد زیادہ ہے سو وہ وہاں چلے گئے جہاں ہرراہنما چلاجاتاہے اس سلسلے میں عوام کی اپنی سوچ و فکر پر مبنی رائے کے اظہار کا سامنے آنا تھوڑا مشکل ہے ۔
لیل رونجھو کا تعلق بلوچستان کے شہر بیلہ سے ہے،سماجی مسائل کے حوالے سے مختلف اخبارات اور جرائد میں لکھتے رہتے ہیں