سوشل میڈیا میں ایک تصویر نظروں سے گزری جس میں ایک شخص پلے کارڈ تھامے کھڑا ہے جس پر عبارت تحریر ہے کہ ” ملیر میرا وجود ہے اسے مجھ سے مت چھینو”
ملیر کا نوحہ ( حصہ سوم)
حفیظ بلوچ | وقتِ اشاعت :
حفیظ بلوچ | وقتِ اشاعت :
سوشل میڈیا میں ایک تصویر نظروں سے گزری جس میں ایک شخص پلے کارڈ تھامے کھڑا ہے جس پر عبارت تحریر ہے کہ ” ملیر میرا وجود ہے اسے مجھ سے مت چھینو”
جاوید بلوچ | وقتِ اشاعت :
ریڈیو اس دورِ جدید میں بھی خبروں، معلومات اور موسیقی کے لیے اپنی اہمیت اور مقبولیت کی وجہ سے کئی علاقوں میں انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ خاص کر بلوچستان میں جہاں اکیسویں صدی میں بھی کئی علاقے انٹرنیٹ اور بجلی کی سہولیات سے محروم ہیں۔ ایسے میں ایک بہت بڑی تعداد میں لوگوں کے لیے واحد ذریعہ نشریات ریڈیو ہے۔ بی بی سی اردو کی ریڈیو پر نشریات بند ہونے کا شاید سب سے بڑا صدمہ بلوچستان کے لوگوں کو ہوا۔
روف قیصرانی | وقتِ اشاعت :
بلوچستان متعدد متضاد صفات سے مزین ایک خوبصورت خطہ ہے۔ ایک طرف یہاں فطرت نے امن اور آشتی کے بیش بہا خزانوں کو پرو کر ایک زمینی جنت کی مانند اسے سجا دیا ہے۔تو دوسری طرف زر و حرص کے تابع طالع آزمائوں اور انگریز راج کے گماشتوں نے اسے جنگوں کے عفریت میں دھکیل کر بدامنی کا استعارہ بنا دیا ہے۔ اسی طرح ایک طرف یہاں سیاسی شعور اپنی انتہا پر ہے تو دوسری طرف اسی ماحول میں فرد واحد کی حاکمیت و چاکری کے بدنما نشان بھی ثبت نظر آتے ہیں۔ ایک طرف اصول پسندی، مہمان نوازی، دلیری اور فیاضی جیسے خوبصورت اوصاف اسی بلوچستان کی پہچان ہیں تو دوسری بزدلی، منافقت، چاپلوسی اور ابن الوقتی جیسے گھٹیا اوصاف مصنوعی طریقے سے انڈکٹ کر دیے گئے ہیں۔
یحییٰ ریکی | وقتِ اشاعت :
یہ فروری 2019ء کامہینہ تھا جب حالیہ عالمی وبانے دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔عالمی ادارہ برائے صحت ودیگر اداروں نے دنیا بھر میں اس کے علاج کے دریافت پرعملی کام شروع کیا، ابتدامیں عالمی ادارہ برائے صحت ودیگر طبی ماہرین نے متفقہ طورپرسماجی دوری(Social Distancing)کواس وبا سے بچاؤ کاواحدعلاج قراردیا۔اوردنیا کے بیشتر ممالک نے سخت ترین فیصلہ کرتے ہوئے لاک ڈاؤن کی حکمت عملی اپنائی، لاک ڈاؤن کے سبب سیاسی وسماجی مشکلات سمیت تمام معاشی سرگرمیاں بھی معطل ہوگئے۔جس کی وجہ سے روزانہ اجرت پرکام کرنے والے سیکڑوں مزدوربے روزگارہوگئے،غریب اورمتوسط طبقہ سنگین صورت حال سے دوچارہوگیا۔
جعفر قمبرانی | وقتِ اشاعت :
کیا ایسا نہیں کہ ہم سب کا کوئی نا کوئی ایسا سرکاری کام ضرور ہے جس کے مکمل ہونے کا آپ کو پچھلے چند ماہ سے انتظار ہے؟ یا آپ نے اکثر میٹرک سے ماسٹرز تک کے طلباء وطالبات کو نوکری کیلئے درخواستیں جمع کرتے اور انہیں نوکریوں کی ٹیسٹ اور انٹرویو کے لیے چھ آٹھ یا بارہ مہینہ انتظار کرتے ہوئے دیکھا ہوگا۔
ولی محمد زہری | وقتِ اشاعت :
بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں سیاست کے بجائے روایات اور قبائلی اقدار کو فوقیت دی جاتی ہے صوبے میں بھائی چارگی کی فروغ میں قبائلی اور علاقائی روایات اور رسوم انتہائی اہمیت کے حامل ہیں بلوچستان میں قبائلی روایات کو تمام چیزوں پر فوقیت دی جاتی ہے اسی لئے مشہور ہے کہ بلوچ قوم جو قول اور وعدہ کرتے ہیں وہ اسے ہر حال میں پورا کرتا ہے۔
عزیز سنگھور | وقتِ اشاعت :
ضلع نصیرآباد میں معاشرتی اور سماجی ترقی کی سست رفتاری کی سب سے بڑی وجہ نیم قبائلی نظام ہے۔ نصیرآباد میں ایک پالیسی کے تحت فرسودہ قبائلی نظام کو زندہ رکھاگیا۔ضلع میں آج بھی سرکاری سرداروں اور نوابوں کو منتخب کروایا جاتا ہے۔ اسلام آباد کی سرکار سرداریت کے نیم مردہ ڈھانچے کو آکسیجن فراہم کررہی ہے جس کی وجہ سے قبائلی نظام نے علاقے میں اپنے پنجے گاڑ دئیے ہیں۔ ضلع میں فرسودہ قبائلی سوچ کو غریب عوام پر مسلط کردیا گیا ہے۔ انہیں قبائل میں تقسیم کردیاگیا ہے۔
مولانا عبدالسلام عارف | وقتِ اشاعت :
یوں تو ملک میں ہر چیز ہے اختیار ہے اعتماد ہے احساس ہے قیامت ہے عوام ہے خواص ہے دوست ہے با شعور طبقہ ہے لیکن کیا یہ ہیں ؟ اگر ہیں تو وہ معصوم لاشوں کو کئی دن پیوند زمین پر انتظار کیوں کرنا پڑا؟
ولی محمد زہری | وقتِ اشاعت :
یوں تو پاکستان میں برائیوں کے خاتمے کیلئے سخت قوانین اور سزائیں موجود ہیں آئین پاکستان ایک مکمل دستور ہے لیکن پاکستان وجود میں آنے سے لے کر اب تک آئین پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے تاہم قانون غریب اور لاچار پر قہر بن کر انہیں ذلیل و خوار کرتا چلا آ رہا ہے جبکہ طاقتور کیلئے ریاستی قانون مکڑی کا جالا ثابت ہوتا چلا آ رہا ہے۔ بالکل اسی طرح ملک میں برائیوں کے خاتمے کیلئے محکمہ انسدا رشوت ستانی اور انسداد منشیات کا محکمہ قائم کیا گیا ہے۔
عزیز سنگھور | وقتِ اشاعت :
سندھ حکومت نے ملیر کے عوام ساتھ ایک بار پھردھوکہ دہی کا ارتکاب کیاہے۔ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے ملیر میں پی ایس 88 کا ضمنی انتخاب جیتنے کے لئے ملیر ایکسپریس وے منصوبے کا روٹ تبدیل کرنے کا اعلان کیا تھاجس پرعوام نے خوشی کے عالم میں پیپلز پارٹی کے امیدوار یوسف مرتضیٰ کو بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا۔ انتخاب جیتنے کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایک بار پھر پرانے روٹ پر ملیر ایکسپریس وے منصوبے کی تعمیرکا فیصلہ کیا۔ پرانے روٹ پر منصوبے کی تعمیر سے تقریباً دو درجن سے زائد قدیم گوٹھ متاثر ہونگے۔ بے شمار زرعی اراضی صفحہ ہستی سے مٹادی جائے گی۔ یہ منصوبہ ترقی کے نام پر ملیر کے قدیم باسیوں کے لئے موت کا پیغام ثابت ہوگی۔ دوسری جانب ضلع ملیر کے لوگ تعلیم اور صحت کی سہولیات سے محروم ہیں۔ سندھ حکومت بجائے ملیر کے عوام کی فلاح و بہبود پر کام کرے وہ ضلع ملیر اورگڈاپ میں نجی ہاؤسنگ اسکیموں پرتوجہ دے رہی ہے۔