گوادر جو اپنے آپ میں بہت خاص ہے جس کے تین اطراف سمندر اور ایک طرف خشکی ہے۔اس کے علاوہ ہم گوادر کی اہمیت کا اندازہ اس وقت سے لگا سکتے ہیںجب چین اور پاکستان کے درمیان ایک تاریخی معاہدہ ہوا۔جو چین پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک) کے نام سے ہے۔جو ون بیلٹ ون روڈ کا ایک اہم اور بہت بڑا پروجیکٹ ہے جس کی وجہ سے آج پوری دنیا کی نظریں گوادر شہر پر ہیں۔اور ابھی تک بہت سے سرمایہ داروں نے یہاں پر سرمایہکاری کی ہے اور مزید کر رہے ہیں۔
عمران خان نے تبدیلی، نیا پاکستان، کرپشن فری معاشرے کی تشکیل ،سیاسی و اقتصادی نظام میں اصلاحات اور قوم کوآئی ایم ایف سے نجات دلانے کے ایجنڈے کی بنیاد پر عوام میں پذیرائی حاصل کی۔ اپنے اقتدار کے پہلے سو دن کا ایجنڈا عوام کے سامنے رکھا اور ریاست مدینہ کا تصور پیش کیا، تب کہیں جاکر وہ اقتدار میں آئے۔ الیکشن مہم کے دوران تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کہتے تھے آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر ہے خودکشی کرلوں ،لیکن وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان کے اقدامات کی وجہ سے پاکستان کے گرد آئی ایم ایف کا شکنجہ مزید سخت ہو گیا ہے۔عمران خان نے تو خود کشی نہیں کی البتہ ان کے اقدامات کی وجہ سے غریب لوگ ضرور خود کشی کررہے ہیں۔
بلوچستان میں طبل جنگ بج چکا ہے، اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے۔ حکومتی باغی اراکین اور وزیراعلیٰ جام کمال گروپ میں سیاسی تصادم سامنے آنے کے بعد سے اقتدار کی جنگ میں شدت آچکی ہے۔ مرکزی شہر اقتدار اسلام آباد میں اس وقت بلوچستان کے تقدیر کے فیصلے ہورہے ہیں۔ ناراض اراکین و جام کمال گروپ دونوں اسلام آباد کا طواف کرکے اقتدار اقتدار کی سدائیں بلند کرتے رہے۔ دونوں جانب آس اسلام آباد پر لگی ہوئی ہے اب اسلام آباد کا فیصلہ 20 اکتوبر کو متوقع ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ فیصلہ کس کے حق میں جاتا ہے اور اسلام آباد والے کس پر مہربان ہوتے ہیں۔
بلوچستان خصوصاًمکران میں مذہبی جماعتوں میں بلوچ قوم پرستی کے عنصرنے بلوچ تحریک کومزید مستحکم ومضبوط کیاہے۔ دراصل مذہبی جماعتوں کی حالیہ پالیسیوں میں بلوچ نیشنل ازم کی عکاسی ہوتی ہے۔ مرکزیت (اسلام آباد) کی مضبوطی کی بجائے وہ صوبائی خودمختاری کی بات کررہی ہیں۔ بلوچستان کے ساحل و وسائل پر بلوچ حکمرانی کا مطالبہ کررہی ہیں جس کی وجہ سے یہ جماعتیں عام بلوچ کو اپنی طرف متوجہ کررہی ہیں۔ حالانکہ ان جماعتوں کی مرکزی پالیسیاں قوم پرستانہ نہیں ہیں۔
’’ بلوچ جدگال ریاست‘‘ کی آخری والی (سربراہ) ’’ مائی چاہ گلی‘‘ نے بلوچ معاشرے میں ایک نئی روح پھونک دی۔ مردانہ سماج کے ڈھانچے میں ایک عورت کی سربراہی نے سماج میں خواتین کے مساوی حقوق کی بنیاد ڈالی۔ فرسودہ رسم اور رواج کی روایت کا خاتمہ ہوا۔ اس طرح بلوچ معاشرے میں ایک ترقی پسندانہ معاشرے نے جنم لیا جس کو بلوچ معاشرے نے بھی قبو ل کرلیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے کبھی بھی آمر مطلق کے آگے سر نہیں جھکایا ،عوام کے حقوق پر کبھی سودا بازی نہیں کی۔ قوم و ملک کے وسیع تر مفاد میں کبھی بھی کسی دنیاوی سپر طاقت سے ڈکٹیشن نہیں لی ملک کو ایٹمی قوت بنانے کے لیے قومی مفاد کو ترجیح دی۔ امریکا روس فرانس برطانیہ کا دباؤ قبول نہیں کیا۔ کشمیر کے مسئلے پر کشمیری لیڈر شپ کو ساتھ لے کر بھارتی قیادت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہمیشہ بات کی ۔کبھی کسی امریکی صدر کے ٹیلیفون کا انتظار نہیں کیا۔
پون صدی تک پہنچتے پہنچتے ہمارے اسٹیبلشمنٹ کی نفسیات میں یہ بات مسلم رہی کہ پاکستان کو اگر عوام کے ہاتھوں میں دیا جائے تو پتہ نہیں اس کاکوئی انجام ہوگا، یہی احساس سبب بن گیا ہے کہ عوام الناس یہی سمجھیں کہ اس ملک کے حال و مستقبل میں اس کا کوئی حصہ نہیں… Read more »
بلوچستان میں آئے روز اپنی نوعیت سے بڑھ کر ایک نیا سانحہ رونما ہوتا ہے۔ ہر نئی دن بلوچستان کیلئے غم سے بھرپور گزرتا ہے۔ آئے روز بزرگ، جوان، بچے اور خواتین کو موت کی منہ میں دھکیلا جاتا ہے۔ ہر دن پرآشوب خون سے لت پت ہوتا ہے۔ موت کا رقص بلوچستان کے شہر وں،گلی کوچوں اور دیہاتوں میں جاری ہے۔ اندھی سیدھی گولیوں اور معلوم نامعلوم افراد کے ہاتھوں روزانہ نہتے معصوم بچے خواتین نوجوان قتل ہورہے ہیں۔ اہل بلوچستان اپنے تحفظ اور بقاء کیلئے چیخ چیخ کر پکار رہے ہوتے ہیں مگر سنگ دل حکمرانوں کے دل میں ذرا بھی ترس نہیں آتا۔ حکمران اپنے مفادات اور مراعات کی جنگ میں اس قدر مست و مگن ہیں کہ انہیں اب لاشوں سے بھی بلیک میلنگ کی بو آتی ہے۔
زندگی میں بعض کالم ، مضامین لکھنے سے قبل جذباتی کیفیت بے قابو ہوئی، تاہم یہ مواقع بہت کم پیش آئے۔ جب آپ کے جذبات آپے سے باہر ہوں گے تو غلطیاں ،کوتاہیاں ہونے کے مواقع امڈ آتے ہیں۔ تاہم صورت حال ایسی بھی پیدا ہوجاتی ہے کہ انسان جذباتی کیفیت میں اپنی زندگی کی سنہری یادوں کو سمیٹ لیتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسی کیفیت میںبعض خوبصورت شخصیات کی پیارو محبت کی عکاسی شاندارانداز میں کرجاتا ہے۔ بہر حال جونہی حقیقی محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رحلت کی خبر آنکھوں کے سامنے آئی، سارے اوسان خطا ہوگئے۔ محسن پاکستان کے ساتھ حقیقی کا لفظ اضافہ اپنے پورے ادراک سے کررہا ہوں۔ اگر ان کو محسن ملت بھی کہا جائے تو صادر آئے گا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان قوم و ملت کے دل و دماغ پر حکمرانی کرنے والے محسن ہیں۔
بلوچستان کی خواتین نے صنفی برابری، حقوق نسواں اور یکساں مواقع کی فراہمی کے لیئے ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کی ہے لیکن صوبے کی تاریخ میں پہلی بار بلوچستان کی خواتین اراکین اسمبلی نے وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان عالیانی کی رہنمائی، سرپرستی اور باہمی مشاورت سے نہ صرف ترقی نسواں بلکہ بچوں اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے صوبے کی روایات اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے موثر قانون سازی کا فریضہ سر انجام دیا ہے۔