بحربلوچ میں گونجتے سناٹے !!!

| وقتِ اشاعت :  


مچھیرے کابیٹاہوں۔۔
اب گوادرسمیت مکران میں ظلم ہوا تو ہم بھی جیناحرام کردیں گے۔
ایک ماہ میں تمام چیک پوسٹیں ختم ،ماہی گیروں کے مسائل حل اورگوادرمیں پانی کی فراہمی سمیت تمام مسائل حل کئے جائیں۔۔۔



ملنگانہ نبض شناسی

| وقتِ اشاعت :  


پاکستان کی روایتی سیاست لفاظی کی حد تک ہمیشہ انقلابی دکھائی دیتا ہے لیکن عملی میدان میں اترنے کے بعد لفظ اور لب ایک دوسرے سے جدا ہوجاتے ہیں ۔ پاکستان کی سیاست میں بلوچستان کا نام تو ہے لیکن اختیار و اقتدار میں اس کا اول تو کوئی حصہ نہیں اور اگر ہے تو برائے نام ‘ یہی سبب ہے کہ ہمیشہ بلوچستان میں ہر چیز ہر وقت نادیدہ قوتوں کے ہاتھوں میں گروی ہے ۔اس سے بڑھ کر ستم کیا ہو کہ ملک کے پورے آدھے حصے کو چھوٹا صوبہ کہا جائے، پھر بجٹ اورترقیاتی منصوبوں میں اس کی جغرافیائی وسعت کو حساب میں نہ لایا جائے ۔



پیپلز پارٹی، عوام کی نجات دہندہ جماعت

| وقتِ اشاعت :  


پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور ملک کی ترقی میں جہاں مردوں نے لازوال قربانیاں دیں ہیں وہاں پر خواتین بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ اس ملک کی ترقی، خوشحالی اور عوام دوستی میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ جب ہم ملک کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو فاطمہ جناح، شہید رانی محترمہ بینظیر بھٹو اور بیگم نسیم ولی خان کی خدمات اور جدوجہد سنہرے حروف میں لکھنے کے قابل پاتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں جہاں پہ مرد ہی سیاسی، معاشی اور تعلیمی طور پر خودمختار ہیں۔یہاں پہ خواتین کے لئے زندگی کے مختلف شعبوں میں قدم جمانا بہت مشکل ہے۔خواتین کو مختلف مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا ہے۔



جماعت اسلامی کا قوم پرستانہ رخ

| وقتِ اشاعت :  


مکران کے عوام نے گوادر شہر میں تاریخی جلسہ کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ سی پیک کے ثمرات بلوچستان کے عوام کے لئے نہیں ہیں بلکہ یہ منصوبہ ملکی اشرافیہ اور اسلام آباد سرکار کے لئے ہیں۔ اس جلسہ کا سہرا جماعت اسلامی بلوچستان کے سیکریٹری جنرل مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کو جاتا ہے۔ ان کی بلوچ قوم پرستانہ سوچ نے مکران کے عوام کو یکجا کیاہے۔ عوام نے بھی ان کی پکارپرلبیک کہا۔ تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنوں نے مولانا صاحب کی آواز کو بلوچ قوم کی آواز قراردیا۔ جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما مولانا عبدالحق بلوچ کی رحلت کے بعد جماعت اسلامی بلوچستان میں سیاسی قیادت کا فقدان پیدا ہوگیا تھا۔



قوم پرست سیاست کے آخری ستون۔۔۔سردار عطاء اللہ مینگل

| وقتِ اشاعت :  


بیسویں صدی میں بلوچستان کی سرزمین نے جن عظیم اور قدآور سیاسی شخصیات کو جنم دیا ان میں میر غوث بخش بزنجو،نواب اکبر خان بگٹی،نواب خیر بخش مری اور عطا ء اللہ مینگل نمایاں تھے۔گوکہ ان میں باہم نمایاں فکری اور سیاسی اختلافات بھی رہے مگر یہ سب بلوچستان کے سیاسی افق پر براجمان رہے۔ اور سیاست کو نئی سج دھج اور پہچان دی۔ان سب شخصیات کو بلوچستان سے باہر بھی شہرت اور پذیرائی حاصل رہی۔02 ستمبر 2021ء کو انتقال کرنے والے سردار عطاء اللہ مینگل ان سیاسی سرخیلوں کی پیڑھی کے آخری ستون تھے۔اب ان کے جانے کے بعد لگتا ہے کہ بلوچستان کی سر زمین بانجھ ہوگئی ہے۔ دور دور تک ان شخصیات کے قد کاٹھ کا کوئی سیاسی لیڈر نہیں رہا۔ ان کی عمر 92سال تھی۔ انہیں 3ستمبر کو ان کے آبائی علاقے وڈھ میں سپرد خاک کیا گیا۔



سردار عطاء اللہ مینگل، ایک عہد ساز شخصیت

| وقتِ اشاعت :  


یہ 1970ء کا زمانہ تھا۔پاکستان کے پہلے جمہوری او رغیر جانبدار الیکشن ہونے والے تھے۔ سیاسی پارٹیوں کے لیڈر، ورکرزاور عام لوگ انتخابات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے نظر آتے۔ اس وقت ہم اسکول کے طالب علم تھے۔ ہمیں انتخابات کے بارے میں زیادہ آگاہی نہیں تھی۔ ہمارا علاقہ ہدہ کوئٹہ ایک نواحی اور کھیتی باڑی کے لئے مشہور علاقہ تھا۔ پانی وافر مقدار میں تھا۔



سمندر کا سودا

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان اور سندھ کو لاوارث صوبے کے طورپر چینی حکام کے حوالے کردیاگیا۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کے نام پر سمندر کو آلودہ کیا جارہا ہے۔ جہاں بجلی گھر کے نام پر ایسے منصوبے لگائے گئے ہیںجس سے نہ صرف سمندری حیات بلکہ انسانی آبادی بھی آلودگی کی زد میں ہے،جس کے نتیجے میں مختلف امراض پھیل رہے ہیں۔



’’تبدیلی‘‘ کے تین سال

| وقتِ اشاعت :  


پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے جو تین سالہ حکومتی کارکردگی کی رپورٹ پچھلے ماہ پیش کی گئی ہے اْس میں سب سے نمایاں کارنامہ احساس پروگرام کا پھیلاؤ، کورونا وبا کے دوران ایک باعمل لاک ڈاؤن کے ذریعے بڑے نقصانات سے بچاؤ اور کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کو نیچے لانا قرار دیا گیا ہے۔ اگر بہت بڑی انقلابی تبدیلیاں مقصود نہ ہوں تو بھی یہ اقدامات مضحکہ خیز ہیں۔ ان کی معمولی سی وضاحت کی جائے تو اس کا مطلب ہے کہ بجائے معاشی ترقی اور استحکام کے نتیجے میں عوام کا معیارِ زندگی بلند ہوتا اور انہیں با عزت روزگار نصیب ہوتا‘ اْلٹا لوگوں کی بڑی تعداد کو بھکاری بنانے کے اقدام کو کارنامہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔



مکران کے ساحلی علاقوں پرموسمیاتی تبدیلی کے اثرات

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان کے حساس ساحلی علاقے جیوانی سے لے کر گڈانی تک پھیلے ہوئے ہیں، 780 کلومیٹر طویل ساحل میں انواع و اقسام کی سمندری مخلوق پائی جاتی ہے۔ ساتھ ساتھ یہ ایک اہم بحری روٹ ہے اور دنیا کے مختلف ممالک کے بحری جہاز اپنی منزل مقصود تک جانے کے لئے اسی سمندری روٹ پر سفر کرتے ہیں۔ وسط ایشیا اور مشرق وسطیٰ جانے والے مال بردار بحری جہاز اسی روٹ کو استعمال کرتے ہیں۔یہاں کے زیادہ تر لوگوں کا ذریعہ معاش اسی سمندر سے منسلک ہے۔ دنیا کے دیگر علاقوں کی طرح مکران کے ساحلی علاقوں میں بھی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات نمودار ہورہے ہیں،جس سے ساحل پر رہنے والے لوگ کئی خطرات میں گرے ہوئے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق مکران کے ساحلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے 80 سے 90 فیصد افراد کا روزگار کسی نہ کسی طرح سمندر سے منسلک ہے اور ان میں زیادہ تر افراد مچھیرے ہیں جو سمندر کی بے رحم موجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے اور اپنے خاندان کے لئے روزی روٹی کماتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی سے ماہی گیری کی صنعت سے منسلک لوگوں کا روزگار متاثر ہونے کے خدشات ہیں اور ایک محتاط اندازے کے مطابق 7 سے 10 لاکھ افراد کا روزگار مکران کے سمندر سے وابستہ ہے۔