بلوچستان کاضلع مستونگ باغات کی وجہ سے مشہور ہے جہاں تقریباً ہر طرح کے پھلوں کی پیداوار ہوتی ہے۔ یہاں کا کیک بھی اپنی نوعیت کا ایک سوغات سمجھا جاتا ہے جس کی مانگ بیرونی ممالک میں بھی ہے۔ جبکہ یہ علاقہ پولیس مقابلوں کے حوالے سے بھی کافی بدنام ہے۔ جہاں اب تک بے شمار سیاسی کارکنان بھی مارے گئے ہیں۔ یہاں ایک نامعلوم گروہ تعلیم نسواں کے خلاف سرگرم عمل بھی ہے۔ گزشتہ روز مستونگ میں پڑنگ آباد کے علاقے سورگزر ریلوے پھاٹک کے قریب خواتین اساتذہ کی اسکول وین پر موٹرسائیکل سواروں کی فائرنگ سے چار خواتین زخمی ہوگئیں۔
ایک دور میں حکومت وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا تھا جس دوران بلوچستان میں امن وامان قائم ہوا۔ میرٹ کا تقدس بحال ہوا،عوام کو روزگار مہیا کیا گیا اور نئی درسگاہیں تعمیر کی گئیں۔ڈاکٹر مالک بلوچ بلوچستان کے چھوٹے بڑے مسائل سمیت قومی مسائل کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوششیں کرتے رہے جن میں سر فہرست لاپتہ افراد کا مسئلہ تھا لیکن اس حوالے سے اپنی بے بسی کا اظہار وزرات اعلی ٰکے دور میں کیا۔آپ ایک عوامی اور مخلص لیڈر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔آپکی سیاسی جدوجہد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے ڈھائی سالہ دور میں صحافیوں نے غیر جانبدارانہ تجزیے بھی انکے حق میں کئے اور کئی مقامات پر انکے سیاسی حریفوں نے بھی انکی مختصر مدت جوکہ 2013 سے 2015 تک کے ڈھائی سالہ دورِ حکومت کی تعریفیں کیں۔
بلوچستان کو صوبے کا درجہ 1970 ء کے عام انتخابات سے قبل ون یونٹ کے خاتمے کے نتیجے میں ملا تھا 1970 ء کے عام انتخابات کے بعد وزیر اعلیٰ سر دار عطااللہ خان کی مخلو ط صوبائی حکومت صوبائی کے وزیر خزانہ میر احمد نوازبگٹی نے پہلا صوبائی بجٹ برائے مالی سال 1972-73 جون 1972 ء میں پیش کیا تھا،بجٹ کا مجموعی ہجم 15 کروڑ 88 لاکھ روپے تھا۔
بلوچستان کی تاریخ و تمدن اور ثقافت وقبائلیت ملک کے دیگر صوبوں سے ہمیشہ ہی الگ تھلگ اور مختلف رہی ہیَ بلوچ مئورخین کے مطابق بلوچ ہزاروں سال قدیم قوم ہے۔ جدید دور میں بھی بلوچستان میں قبائلی رسم و رواج اور اقدار و روایات کو ہی اولیت دی جاتی ہے۔ بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں غربت پسماندگی احساس محرومی کی شرح دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہے اب بھی بلوچستان میں لڑکیوں کی تعلیم کو بلوچ معاشرے میں معیوب سمجھا جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس قبائلی معاشرے میں آج بھی خواتین کو انتہائی اہمیت اور عزت و تکریم دی جاتی ہے۔
آج جس قوم اور ملک نے ترقی کی ہے تو صرف اور صرف تعلیم کی بدولت۔تعلیم ایک ایسا ہتھیار ہے جس کو استعمال میں لاکر آپ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔تعلیم انقلاب،خوشحالی اور امن لاسکتی ہے۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں کی تعدار میں بچے تعلیم سے محروم ہیں۔بلوچستان کے بچوں کو پڑھنے کا بہت شوق ہے لیکن حکومت کی اس طرف توجہ نہ دینے کی وجہ سے تعلیم جیسی عظیم نعمت سے محروم ہیںحالیہ اقتصادی سروے میں انکشاف کیاگیاہے کہ صوبوں میں سب سے کم شرح خواندگی بلوچستان کی 46فیصد ہے۔
آٹھ ہزار سال قبل مسیح پرانی تہذیب ’’مہر گڑھ‘‘ کی جنم بھومی ’’ ضلع کچھی‘‘ آج خود آثار قدیمہ کا منظر پیش کررہا ہے۔ پورا ضلع کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ہر طرف مشکلات اورمسائل نے یہاں کے لوگوں کواپنی آغوش میں لیا ہوا ہے۔ مکین ایک کشمکش سے دوچار ہیں۔ کس سے فریاد کریں؟ کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں؟۔ بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی اور تحریک انصاف میں سیاسی کش مکش کی وجہ سے ضلع کے بے شمار ترقیاتی کام بند پڑے ہیں۔
گزشتہ چند دہائیوں سے پاکستان بشمول بلوچستان سمیت دنیا کے اکثر ممالک ، ملکی اور عالمی اداروں کے پلیٹ فارمز پر ماحولیات کی موجودگی کے خطرات اور ان کی بیخ کنی کے لئے منصوبہ بندیوں میں پیش رفت اور موثر اور کار گر نتائج اور اثرات کے حصول کے بارے میں پالیسیوں کے سنجیدگی کے ساتھ پیش رفتوں کے سلسلہ ہائے انبار نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے اقوام متحدہ نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ ماحولیات کے بارے میں منصوبہ کو زیر عمل لاکر ان کے نتیجے میں انسان دوستی کے جذبات اور احتساب پر توجہ دے کر ان سے مطلوبہ اثرات و نتائج حاصل کرنے پر توجہ اور کوششیں مرکوز کی گئیں۔
ایسے طلبا کثیر تعداد میں ہیں جو کہتے ہیں کہ جب اگلی کلاس میں جائیں گے تو پھر محنت کریں گے لیکن جب وہ اگلی کلاس میں جاتے ہیں تو پھر یہی کہتے ہیں کہ اگلی کلاس میں جاکر پھر محنت کریں گے۔ اسی طرح بڑی عمر کے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم جلد نماز پڑھنا شروع کریں گے، لیکن اْن کی نمازیں شروع نہیں ہوتیں۔ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نیک ہوجائیں گے، لیکن وقت گزرتا رہتاہے اور وہ نیکیاں نہیں کما پاتے۔ ہم زندگی میں بیشمار مرتبہ پلان کرتے ہیں کہ ہم یہ کریں گے، ہم وہ کریں گے، لیکن نہیں کرتے۔ جب وقت گزرتاہے تو پھر پچھتاوا رہ جاتا ہے۔
عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے نمائندے بلوچستان کی محرومی ختم کرنے کے بجائے اپنے مفادات کیلئے اسمبلی میں لڑرہے ہیں۔اور عوام کو سبزباغ دکھانے اور خوشنما نعروں کی بنیاد پر سیاست چمکانے والوں نے عوام پر مہنگائی اور بے روز گاری مسلط کر رکھی ہے بلوچستان کے عوام کو غربت کی دلدل میں دھنسا دیا ہے۔بلوچستان میں اب موروثی سیاست کا راج ہے ہر پارٹی سربراہ کی کوشش ہے کہ اقتدار اس کی اگلی نسل تک منتقل ہو جائے اور ان جماعتوں میں شامل دیگر رہنما پارٹی قیادت کی غلامی کر رہے ہیں۔بلوچستان میں منتخب ہونے والے عوامی نمائندگان کے پاس اپنا کوئی سیاسی پروگرام نہیں آپ دیکھیں کہ 80 فیصد وہی لوگ ہیں جو ماضی میں کسی نہ کسی سیاسی جماعت میں رہے۔
پوری دنیا میں بہت سے ممالک ایسے ہیں جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں ان ممالک کے عوام کودو وقت کی روٹی اور سر چھپانے کے لیے چھت میسر نہیں۔ کئی افراد بھوک اور علاج معالجہ نہ ہونے کی وجہ سے لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ آپ نے کبھی اس کی وجوہات پر غوروفکر کیا ہے کہ یہ کیا ہیں ؟