الجزیرہ انگریزی نیوز چینل کی ایک رپورٹ کے مطابق چین اور ایران کے درمیان ایک تاریخی، وسیع اور کثیرالجہتی معاہدہ طے پایا ہے اس تاریخی معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان بنیادی ڈھانچہ،معاشیات، توانائی، ڈفینس، ٹریڈ،ثقافت، انٹلیجنس اور ریسرچ کے شعبے میں تعلقات کو بہتر اور وسیع تر بنانا ہے۔ اس معاہدے کے لیے تقریبا ًچار سو ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔مستقبل میں چائنہ کو ایرانی معیشت کے تمام شعبوں تک رسائی حاصل ہوگی ، چین کو سستا تیل ملے گا ،چین کو بلوچستان کی بندرگاہوں تک بھی رسائی حاصل ہوگی اور چین آبنائے ہرمز پر تسلط قائم کرنے کے لئے جزیروں اور اسٹریٹجک اراضی کو بھی لیز پر دے سکے گا۔
پاکستان میں خون کے عطیات دینے کا رجحان کافی کم ہے۔ عام طور پر خون کے عطیات کی وصولی کے لئے تقریبا 90 فیصد متاثرہ افراد کو اپنے اہل خانہ اور قریبی حلقہ احباب پر انحصار کرنا پڑتا ہے جبکہ 10 فیصد سے 20فیصد افراد خون کے عطیات پیشہ ورانہ بنیادوں پر فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان میں سالانہ خون کے 15 لاکھ عطیات کی ضرورت ہوتی ہے جس میں سے 40 فیصد خون کی طلب صحت کے شعبے میں کام کرنے والے سرکاری اداروں کی جانب سے پوری کی جاتی ہے۔ تاہم، اب خون کے عطیات جمع کرنے کے لئے بھی سوشل میڈیا اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
میری ماں میرے لئے صرف ماں نہیں بلکہ میرے سانسوں کا سہارا ہے، ماں وہ عظمت ہے جس کے ہونے سے روح کو تسکین ملتی ہے اور نہ ہونے سے ادھورا پن محسوس ہوتا ہے، ماں وہ خوشی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی، ماں وہ چہرہ ہے جس کو دیکھنے سے بے جان جسم میں جان آتی ہے، ماں وہ ہستی ہے جس کے جانے سے گھر قبرستان بن جاتا ہے، ماں وہ سکون ہے جو پوری کائنات کی کسی چیز میں نہیں ملتی ہے، ماں تو بس ماں ہے، لفظ ماں کے لئے اگر میں پوری زندگی لکھتا رہوں پھر بھی شاید اس کی عظمت کو اپنے الفاظ میں بیان نہ کر پاوں۔
سابق وزیراعلیٰ بلوچستان،بی این پی کے صدرسرداراخترجان مینگل ایک ایسے وقت میں پی ڈی ایم کو بچانے نکلے، جب پی ڈی ایم کی بڑی جماعت پیپلز پارٹی کے سینیٹ اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی کو بلوچستان عوامی پارٹی کامیاب بنانے کیلئے ووٹ کررہی تھی، اور تاریخ کا یہ پہلا اپوزیشن لیڈرہیں جوحکومتی ارکان کی ووٹنگ سے کامیاب قرارپائے،معلوم نہیں اس غیر فطری اتحاد کو سردارصاحب کیسے بچانے میں کامیاب ہوں گے۔پاکستان میں جمہوریت کا راگ الاپنے والے سیاستدان پاکستان میں بننے والی شخصی حکومتوں، آمریت اورجمہوریت سے متصادم سیاسی نظاموں کو بھی جمہوری رنگ دیتے رہے ہیں۔
جناب خالد ولیدسیفی (جمعیت علما اسلام کے صوبائی نائب امیر،ضلع کیچ کے صدر اور حلقہ پی۔بی ۸۴ کے سابق امیدوار )نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں پاکستانی سیکولر(میرا خیال ہے کہ انہوں نے شعوری طور پر پاکستانی کمیونسٹوں کو چھیڑنے سے اجتناب کیا ہے) ذہنیت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے تحریر کیا ہے’’۔۔۔دوسرا امر میرے لیے باعثِ حیرت و تشویش ہے کہ ماضی میں’’آگ بگولہ‘‘ کی روایات جسے ہمیشہ مذہبی حلقے کی شناخت بناکر پیش کیا جاتا رہا ہے،اب سیکولر حلقے کی شناخت بنتی جا رہی ہے۔امر جلیل کے معاملے میں جس رد عمل کا خدشہ مذہبی حلقے سے تھا۔
میرا عرس لال شہباز قلندر اور شاہ عبدالطیف بھٹائی جیسا ہوگا کیونکہ میں نے کسی کو قتل نہیں کیا، میں بے قصور ہوں۔ قائدعوام شہید زوالفقار علی بھٹو نے یہ الفاظ اپنی پیاری بیٹی محترمہ شہید بینظیر بھٹو کے ساتھ جیل میں آخری ملاقات کے دوران کہے تھے۔ محترمہ شہید بینظیر بھٹو اس ملاقات میں بہت اداس تھیں لیکن مرد قلندر شہید بھٹو نہ صرف مطمئن تھے بلکہ سب کو تسلی اور حوصلہ دے رہے تھے۔ راقم کے ساتھ انٹرویو میں محترمہ صنم بھٹو نے کہا کہ ہمیں ہمارے والد بھٹو صاحب کا پیغام بڑی سختی سے دیا گیا کہ بیرون ملک نکل جاؤ اور صرف اپنی تعلیم پر توجہ دو، کسی سے کوئی بات نہ کرو میرے ساتھ جو بھی ہوگا میں دیکھ لونگا۔
مجلس فکر و دانش اکنامک تھنکنگ فورم کے زیر اہتمام محکمہ خزانہ حکومت بلوچستان اور گورننس پالیسی پروجیکٹ کی معاونت سے انتہائی اہم موضوع ”قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور شفاف استعمال“ پر ڈائیلاگ اور سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔سمینار میں این ایف سی ایوارڈ، اٹھارویں ترمیم اور مجوزہ بجٹ 2020 اور 22 پر سیر حاصل گفتگو کی گئی۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے شرکت کی اور اپنے وسیع مطالعے اور تجربے کی روشنی میں تجاویز پیش کیں۔جن میں اخوت کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب۔
برطانوی سامراج کی کھینچی ہوئی متنازعہ لکیر“بلوچستان گولڈ سمڈ لائن”میدان جنگ میں تبدیل ہوگئی۔ مشرقی (پاکستانی بلوچستان) اور مغربی بلوچستان (ایرانی بلوچستان) کو جبراً جدا (تقسیم) کرنے والی“گولڈ سمڈ لائن”کی بندش کی وجہ سے مکران سمیت پورے بلوچستان میں اشیا خورونوش اور تیل کی کمی کا بحران پیدا ہوگیا۔ جس کی وجہ سے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ پنجگور سے لیکر گوادر تک عوام سراپا احتجاج ہیں۔ پرامن احتجاج پر تشدداحتجاج میں تبدیل ہوگیا۔ لوگوں نے سڑکوں اور شاہراہوں کو بلاک کردیا۔ بات پتھراؤاور جلاؤ گھیراؤ تک آگئی۔
مجلس فکر و دانش اکنامک تھنکنگ فورم کے زیر اہتمام محکمہ خزانہ حکومت بلوچستان اور گورننس پالیسی پروجیکٹ کی معاونت سے انتہائی اہم موضوع ’’قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور شفاف استعمال‘‘ پر ڈائیلاگ اور سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔سمینار میں این ایف سی ایوارڈ، اٹھارویں ترمیم اور مجوزہ بجٹ 2020 اور 22 پر سیر حاصل گفتگو کی گئی۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے شرکت کی اور اپنے وسیع مطالعے اور تجربے کی روشنی میں تجاویز پیش کیں۔جن میں اخوت کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ،ممبر صوبائی اسمبلی ڈاکٹر ثناء بلوچ، فکر و دانش کے سربراہ عبدالمتین اخونزادہ۔
چند دنوں سے کچھ لکھنے کے لیے سوچ رہا تھا کہ خیال آیا ۔۔۔۔۔۔۔ اخبار والے بکواس بھی چھاپتے ہیں ؟ جواب پانے کے لیے اخبار اٹھا کر دیکھا تو تسلی ہوئی ۔۔۔۔ جی چھاپتے ہیں ! ہمارا رونا یہ ہے کہ ہم مظلوم ہیں ۔ اب سوال ہے کہ ہم اس ظلم کے خلاف کر کیا رہے ہیں ؟ جواب ملا ۔۔۔۔۔ بکواس ۔ ہمیں علم ہے کہ ہم معاشی طور پر انتہائی پستی سے ہمکنار ہیں مگر اس حالت کا مداوا کیا ہے ؟ بکواس ! ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے بچے اور نوجوان اسکول ، کالج اور یونیورسیٹیز سے باہر ہیں ۔اور اگر ہم نے اس حوالے سے کچھ کیا ہے تو وہ ہے ۔۔۔۔۔ بکواس !