|

وقتِ اشاعت :   April 4 – 2021

جناب خالد ولیدسیفی (جمعیت علما اسلام کے صوبائی نائب امیر،ضلع کیچ کے صدر اور حلقہ پی۔بی ۸۴ کے سابق امیدوار )نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں پاکستانی سیکولر(میرا خیال ہے کہ انہوں نے شعوری طور پر پاکستانی کمیونسٹوں کو چھیڑنے سے اجتناب کیا ہے) ذہنیت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے تحریر کیا ہے’’۔۔۔دوسرا امر میرے لیے باعثِ حیرت و تشویش ہے کہ ماضی میں’’آگ بگولہ‘‘ کی روایات جسے ہمیشہ مذہبی حلقے کی شناخت بناکر پیش کیا جاتا رہا ہے،اب سیکولر حلقے کی شناخت بنتی جا رہی ہے۔امر جلیل کے معاملے میں جس رد عمل کا خدشہ مذہبی حلقے سے تھا۔

وہ امر جلیل کے دفاع میں سیکولر حلقہ دے رہا ہے،یعنی اگر میں امر جلیل کی تحریر سے اختلاف کروں تو دوسری طرف سے روایتی پن کے ذریعے اس اختلافی رائے ’’طعن و تشنیع‘‘ شروع کی جاتی ہے،،یہ مضمون سندھی ،اردو اور انگریزی کے لکھاری امر جلیل کے علامتی طرز کے افسانوی تکنیک پر تحریر کردہ ایک کالم پر تحریر کیا گیا ہے جسکا تھیم گم شدہ افراد ہیں (اللہ کے فضل وکرم سے ریاستِ اللہ داد میں پچھلے 30، 35 سالوں سے کم ازکم میں نے نہیں سنا ہے کہ کسی کمیونسٹ یا سیکولرکا نام اپنے کمیونسٹ یا سیکولر خیالات کی وجہ سے گم شدہ افراد کی لسٹ میں شامل ہو ا ۔

ہو البتہ ملا آٹے میں نمک کے برابر سہی لیکن شہیدوںمیں اپنا نام لکھوانے کامیاب ہو چکے ہیں )کہانی کے اندر جو فرد گم ہو گیا ہے اسکی کوئی اہمیت ہو نہ ہو لیکن چونکہ کہانی کار نے اسے ’’ خدا‘‘ کے نام سے منسوب کیا ہے۔اس لئے کہانی کے بجائے نام اہمیت حاصل کر گیا ہے۔معاملہ خدا کا بالکل نہیں بلکہ ’’خودّو‘‘کا ہے جو بقول ِ کہانی کار ان کا گم شدہ دوست ہے۔یہ امر باعث خاطر رہے کہ کہانی کار پاکستانی سیکولروں کی طرح فیشنی اور نام ونمود کے پڑھے لکھے نہیں بلکہ سلجھے ہوئے دانشور اور ادیب ہیں۔حالانکہ ’’خدابخش‘‘ اور ’’خداداد ‘‘جیسے اسما ء کی طرح کے بے شمار ’’اللہ‘‘ کے سابقے والے نام بھی موجود ہیں۔

چونکہ مصنف کو اپنے سیکولر دوستوں کے عقل و اعمال اور پاکستانی معاشرے کے رویوں کا بہ احسن پتہ ہے۔اس لئے انھوں نے پرشین (فارسی/زرتشتی)لٹریچر کو ضبط تحریر میں لانے کی کوشش کی ہے۔عام مذہبی تناظر میں سخت ہی سہی لیکن دامن بچا گئے ہیں ،یہ الگ بات ہے کہ اپنے سیکولر دوستوں کی فہم و فراست کے ہاتھوں گرفتار ہیں

گرنی تھی ہم پہ برقِ تجلی نہ طور پر
دیتے ہیں بادہِ ظرف قدح خوار دیکھ کر

سیفی صاحب!آپ نے حفظِ ما تقدم کے طور پر کہا ہے کہ ’’آگ بگولہ‘‘ یا عدم برداشت ،،کی اصطلاح اب سیکولر حلقے کی شناخت بنتی جا رہی ہے،وہ تو کب کی بن چکی ہے اگر نہ بنتی تو ذرا سوچئے کہ آپ کو خود کو کنٹرول کر کے ایک خاص پیراڈائم میں دس دفعہ سوچ بچار کے بعد یہ تحریر کرنی کی ضرورت پیش کیوں آتی کہ ’’بنتی جا رہی ہے ،‘‘؟بلکہ بنا کسی خوف و تردد کے لکھ دیتے کہ ’’بن چکی ہے‘‘۔یہ نہ لکھنے کی وجہ آپ کے اند موجود سیکولر اور کمیونسٹ (نا عاقبت اندیش)احباب کے خوف کا ہے کہ کہیں وہ آپ کو آڑھے ہاتھوں نہ لیں۔

(میڈیا کی زبان میں اسے’’ سلف سنسر شپ ‘‘کہتے ہیں،اور اگر یہ سنسر شپ ملا کی طرف سے عائد ہوتی تو ہمارے سیکولر دوست اس کے لئے ضرور کسی اصطلاح کا بے چوں وچراں اختراع کرتے)لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں (اور نہ ہی آپ کسی غلط فہمی کا شکار رہیں)کہ میرے اور آپ کے سیکولر اور کمیونسٹ دوست معاشرے میں پھیلے اس خوف کے خلاف کبھی بھی لب کشائی کریں گے ؟کیونکہ یہ نہ تو انکے اپنے مفاد میں ہے اور نہ ہی ان کے آقاؤں کے!سیفی صاحب !صارفیت اورطلبِ سرمایہ کے اس دور میں بھی ان مسائل کے علت ومعلول کا تلاش کرنا کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہے۔

اس لئے آپکی بات سیاق کے زاویے میں اگر 100 فیصد نہ سہی ،80 فیصد درست ہے(پاکستانی کمیونسٹ اور سیکولر یہ حقیقت ماننے سے بھی کتراتے رہیں گے)پاکستانی معاشرتی اور سیاسی تناظرمیں مولوی عدم برداشت کی علامت اس وقت بن کر سرِقرطاس نمودار ہوا جب اس خطے میں سوشلزم کے بادل منڈلانے لگے اور دو قطبی دنیا میں پیری (peri)رشّین دور میں ملا روس کی پیش قدمیوں اور پاکستان میں کمیونسٹ سوچ کے پروان چڑھنے کی خوف سے نہ صرف کنفیوز تھابلکہ فرسٹریشن کا بھی شکار تھا،کیونکہ مستقبل کے لئے پیشن گوئی یا فیصلہ کرنے کے لئے اس کے پاس کچھ دستیاب نہ تھا۔

اس لیے کہ وہ آنے والے کل کے لیے کوئی پیش بندی کرنے سے قاصر تھا۔فرسٹریشن اور کنفیوزن کے دوران انسان جذباتی بن کر عدم برداشت کا شکار ہوجاتا ہے جبکہ پوسٹ رشّین زمانے میں یہی حال نام نہاد کمیونسٹ اور سیکولر حلقے کا ہے۔جن احباب نے1989 سے پہلے ملا کے رویے کو جانچا اور پرکھا ہے،وہ سمجھتے ہیں کہ اس پاکستانی کمیونسٹ(جنکا ذکر سیفی صاحب نے شعوری طور نہیں کیا ہے)عدم برداشت کے معاملے میں کس حد تک مولوی سے مماثلت رکھتے ہیں۔ملا کا عدم برداشت پھر بھی ایک(مذہبی) دائرے کے اندر چکریں کاٹتا رہتا رہا ہے ۔

جبکہ پاکستانی کمیونسٹ اور سیکولر مائینڈ سیٹ کسی مخصوص(سماجی )دائرے میں بھی نہیں ہے۔اْس وقت چونکہ ملا کنفیوژ اور فرسٹریشن میں مبتلا تھا۔ سویت یونین کے انہدام کے بعد پاکستانی سیکولر اسی فرسٹریشن کے شکار ہیں بر عکس اسکے ملا کو ایک فطری سہولت حاصل تھی کہ رات کو جلدی سوتا اور صبح سویرے اٹھتا تھا۔جبکہ سیکولر رات دیر تک شراب کے ساتھ جاگتا رہتا ہے اور صبح تھکن اور بیزاری کیساتھ اٹھتا ہے جسکی وجہ سے اسکے ذہنی دباؤ میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ اس فرسٹریشن کی تیسری وجہ ریاست ہے۔

پیری اور پوسٹ سویت دونوں ادوار میں اس فرسٹریشن کو تقویت دینے میں ریاست کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے۔جب کمیونسٹوں کا قبلہ اول سلامت تھاتو ریاست نے پنپتے کمیونسٹ کے اس نظریے کو روکنے کے لیے ملا اور مدرسے کا نہ صرف بے دریغ ستعمال کیابلکہ منطقی نتائج کے بھی تقاضے کیے۔

اور اور اس وقت مولوی،
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں

اب چونکہ نائن الیون کے بعد ’’ عالمی اسٹیبلشمنٹ‘‘ کی ترجیحات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ دبئی ،سعودی اور دیگر اسلامی ممالک نے ہاتھ کیا کھینچ لیا کہ ظالم بھارت نے ریاستی ایٹم بم کو کسی خاطرمیں لائے بغیر کشمیر کی 72 سا لہ خصوصی حیثیت کہ ختم کر کے ضم کر دیا جبکہ اسی اثنا میں کافروں کے بنائے ایف۔اے۔ٹی۔ایف کی سخت شرائط نے طالبان سے جان خلاصی کروا دی۔موجودہ تناظر میں چونکہ کشمیر اور طالبان قصہ پارینہ بن چکے ہیں لہذا اب ملک کے (وسیع ترمفاد میں )اندرمولوی اور مدرسے کا اصراف اپنے منطقی انجام کو پہنچنے کو جا رہا ہے۔

لیکن یہ کرنے کو اتنا آسان نہیں جتنا کہنے کو ہے۔ اب مدرسوں کی اس مشروم روئدگی کو کم کرنا خود ریاست کے لئے بھی مشکل ہے ۔بحرحال ریاست طاقتور جانور ہے حالانکہ ریاست کو بلوچستان میں قوم پرستی کے نظریات کو کمزور کرنے کے لئے ملا اور مدرسے کو استعمال کرنے کی ضرورت درپیش ہے لیکن شاید وہ سمجھتی ہے کہ اب قوم پرستی کی سیاست کمزور(سمٹ کر چند تحصیل اور حلقوں میں محدود) ہو چکی ہے یا انکے لیے صرف جہادی سیکٹر(چونکہ فارغ ہے) کافی ہے اس لیے ریاست کی شفقت کا جو ہاتھ1948سے لیکر نائن الیون تک ا ن کے سر پہ تھا ،وہ آہستہ آہستہ خاموشی کے ساتھ ہٹتا جا رہا ہے۔

اور اب یہ دستِ شقت رخ بدل کر(ریاست کی سالمیت اور نیک نامی کی خاطر)اچانک پاکستانی کمیونسٹ اور سیکولر طبقے کے سر پہ آ گیا ہے۔ اب چونکہ کمیونسٹ اورسیکولر طبقے کا قبلہ اول سلامت نہیں رہااور دوسری طرف ریاست کی جانب سے (ایک خصوص مدت کے اندر)نتائج کے حصول کا طلب بھی موجود ہے۔تیسرا، پیری رشّین زمانے میں مستقبل کے معاملے میں غیر یقینی صورتحال کی ذہنی گھمبیر خدشات کا تنافر بھی۔ان تینوں سماجی،سیاسی اور ذہنی مخدوش تناظر نے پاکستانی کمیونسٹ اور سیکولر طبقے کو فرسٹریشن میں مبتلا کر کے عدم برداشت کا شکار بنادیا ہے اور اس وقت حالت یہ ہے۔

سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ جذباتی ،ناراض ہونے والا،بلاک کرنے والا اور ہر دوسری دلیل پر گروپ چھوڑنے والا طبقہ بن چکا ہے۔سویت یونین کے انہدام نے ان کے ذہنی صحت پر ایسے منفی اثرات منعکس کر دیے ہیں کہ مذہب ،عقیدہ یا ان سے علاقہ رکھنے والاکوئی بھی لفظ سن کران پہ ایسی کپ کپی طاری ہو جاتی ہے کہ جیسے کسی بچہ نے نیند میں کوئی خوفناک خواب دیکھاہو۔ایسے اوقات میںیہ خود پر آئی۔ڈی۔سی۔ کے مریض کی طرح کنٹرول کھو دیتے ہیں۔اب اگر مذکورہ بالا حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے خالد ولید سیفی کے بیانیہ کے ساتھ پاکستانی کمیونسٹ اور سیکولر مائنڈ سیٹ کو نائن الیون کے تناظر میں دیکھا جائے۔

تو پاکستانی کمیونسٹ اور سیکولر طبقہ پیری سویت دور کے مولوی سے زیادہ انتہا پسندی،کٹرپن اور عدم برداشت کا شکار ہے(البتہ اب تک ان کو ریاست کی جانب سے اتنی طاقت ہی میسّر نہیں آئی ہے کہ یہ سیکولرازم کے توہین پر گردنیں کاٹنا شروع کر دیں )اس کی ایک بنیادی وجہ تو سویت یونین کی انہدام کا (لاشعوری)نفسیاتی صدمہ ہے، دوسری وجہ ریاستی دباؤ کہ وہ اپنے دشمن مولوی اور مدرسے کو راستے سے ہٹانے کے لیے حسبِ ماضی ناکام ہے۔لیکن پاکستانی کمیونسٹ اور سیکولر خود کو ایک شرط پر اس ذہنی خلفشار سے نکال سکتے ہیں کہ وہ خود کو سویت یونین کے صدمے اور ریاستی دباؤ (رات دیر تک مے نوشی اور صبح دیر تک سونے کی عادت )

سے آزاد کر کے عالمی سوشلسٹ نظریاتی تحریک سے وابستہ کر لیں۔یہاں اہم سوال یہ جنم لیتا ہے کہ ’’عالمی اسٹیبلشمنٹ ‘‘کے دائرہِ اثر سے نکل جانے کے بعد مولوی کیوں ذہنی دباؤاور خلفشار کا شکار نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مولوی کا قبلہ (اسلام کا قلعہ نہ سہی)اب موجود ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ مولوی کے پاس اللہ ِ لاشریک کا تصور موجود ہے،کمیونسٹ اور سیکولر طبقے نے عارضی ،مختصر ،محدود اور وقتی عیاشی کے سامان کے لیے بقول فریڈرک نطشے گم کر دیا ہے ورنہ ریاست کی بیساکھیوں پر اکتفا کرنے والے زیادہ دور اور دیر تک چلتے نہیں دیکھے گئے ہیں۔

اور اگر سیکولر قیادت نفسیاتی طور پر اتنا کمزور ہو کہ چند ووٹ کے لئے یا ادنیٰ سی سیاسی شخصیت کے عارضی سیاسی مفاد کے لیے پبلک میں کھڑے ہو کر کہے کہ فلاں شخص کو اس لیے ووٹ نہ دو کہ وہ توبہ نعوذ بااللہ خدا کو نہیں مانتا اور دوسری جانب مخصوص حلقوں میں یہ تبلیغ گرم کر دے کہ سیاست میں مذہبی الفاظ اور اصطلاحات کا استعمال گناہِ کبیرہ ہے تو اس منافقت کے ذریعے یہ طبقہ اور اس کے پیرو کارکبھی خود کو اس ذہنی اضطراب و خلفشار سے نہیں نکال سکیںگے۔