حیات کے لفظی معنے ہیں زندگی، آج کل زندہ رہنا مشکل ہوگیا۔ بلکہ ممکن نہیں رہا۔ ہر آنکھ اشکبار ہے۔ ہر انسان سوگوار ہے۔ زندگی کو بندوق کے زور پر چھینا جارہا ہے۔ سڑکوں پر لٹا کر ماں باپ کے آنکھوں کے سامنے برسٹ مارا جاتا ہے۔ والدین نے اپنی زندگی (حیات) کی جان بخشی کے لئے منتیں کیں۔ ہاتھ پاؤں پڑے مگر ان کی ایک بھی نہیں سنی گئی۔ ہولناک موت کے بعد بوڑھی ماں نے اپنے دونوں ہاتھ عرش کی طرف اٹھائے،کیونکہ ان کا ایمان ہے کہ عرش سے ہی ان کو انصاف ملے گا۔ یہاں انصاف کی ساری امیدیں ختم ہوچکی ہیں۔ عرش کی عدالت میں انصاف کا بول بالا ہے۔
دنیا میں ہر انسان یا کہ جانور چرند پرند ہو انکی دلی جذبات و خواہشات احساسات کی خوشنمائی ان کیلئے سب سے بڑی چیز انکی آزادی ہے کہ وہ آزاد فضا میں بااختیار طریقے سے معاشرے میں خوبصورت و بہتر زندگی گزار سکیں انہیں ہر چیز انکے مطابق مل جائے یہ تمام جذبات ایک خودمختار ریاست کی کرپشن سے پاک اصل منشور کی عملی حکمت عمل سے ہی ممکن ہوتے ہیں وہ ریاست جو اپنے اندر عدل و انصاف کی امین،بلا تفریق عوام کی خدمت گار ہو لیکن ہم ایسے معاشرے میں، ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں طبقاتی نظام رائج ہے۔
شہرِقائد میں مون سون کا چھٹا اسپیل ایسا برسا کہ اللہ کی امان، ہر طرف پانی ہی پانی دکھائی دے رہا ہے- بارش کے منہ زور پانی کا جہاں اور جس طرف جی چاہا اس طرف گیا – بپھرے پانی سے نا تو پوش علاقے بچے اور نہ ہی کچی آبادیاں محفوظ رہیں – پیر سے شروع ہونے والی بارش نے کراچی والوں کی ایسی درگت بنائی ہوئی ہے کہ پوچھیں مت بس اللہ پاک سب خیر کرے۔ آج صبح سے صدر پھر اللہ والی چورنگی، طارق روڈ، کورنگی، کالا پل، شاہراہ فیصل، سندھی مسلم سوسائٹی، شاہراہ قائدین، نمائش، ایم اے جناح روڈ سمیت دیگر جگہوں کا نظارہ کیا،مسلسل بارش کی صورتحال کے دوران مجھ سمیت تمام دوست کچھ ایسی خبریں دے رہے ہیں۔
میں بوجھل قدموں اور دل میں ایک کرب کی کیفیت لئے نال کی طرف جارہا ہوں یہ کیسی ملاقات ہے کہ میر کے پاس جاتے ہوئے میں غمگین ہوں۔ہر ملاقات کی طرح بہت سے سوالات دل و دماغ میں ہیں کچھ پوچھنا ہے کچھ سمجھنا ہے اور پھر ایک ڈانٹ بھی کھانی ہے اور پھر میں قبر کے سرہانے کھڑا ہوگیا۔سلام کیا،حال پوچھا،خاموشی تھی۔ میں نے پوچھا میر حاصل کیا لاحاصل رہا جس مزاحمت اور جنگ میں ڈٹے رہنے کا یقین مجھے دلاتا رہا کیا وہ یہ بازی ہارگیا۔میرے سوالوں پر طویل خاموشی ہے میں ایک طویل خاموشی کے بعد ایک مسکراہٹ کا منتظر ہوں اور اسکے بعد ایک ایک کرکے گتھیوں کو میر کب سلجھائے گا۔
تاریخ انسانیت پر ایک نظر ڈورائیں تو پتا چلتا ہے کہ ہر دور میں اہل اور اہل قلم لوگوں نے دلوں پر راج کیاہے۔ اہل قلم نے پوری دنیا میں قلم سے دنیا میں علم، محبت، اخوت و بھائی چارے اور امن و آشتی کا درس دیا۔۔ اہل علم و ادب نے قلم کی روشنی سے دنیا کی تاریکی کو مٹانے کی کوششیں جاری رکھیں۔ اہل علم و ادب نے وقت کے ظالموں، انسانیت کے دشمنوں، لاقانونیت کے فرعونوں کے خلاف قلم سے جہاد کیا اور کیونکہ اہل حکمت و دانش جانتے ہیں کہ قلم ہر طرح کے ہتھیارسے زیادہ طاقت ور ہے۔ قلم کی نوک کے نیچے سیاہی آ کر روشنائی میں بدل جاتی ہے۔
بطور سیاسی کارکن کے میرے میر حاصل خان بزنجو صاحب سے زندگی کے بہت ہی خوبصورت یادیں وابستہ ہیں۔ وہ مجھ سمیت بے شمار سیاسی کارکنوں کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے، اور مجھے فخر ہے کہ میں اس کے عہد میں اْسکے کاروان کا ساتھی رہا ہوں۔ وہ ایک جرات مند مدبر سیاسی لیڈر تھے۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا تو ہم میر صاحب کو آمریت کے خلاف جدوجہد کرنے والے ایک بہادر جمہوری لیڈر کے طورپر جانتے ہیں وہ بدترین آمریت کے دور میں بحالی جمہوریت کے لیے قید وبند کی صْعوبتیں بھی برداشت کیں۔ جب مشرف دور میں وہ جمہوری قوتوں کے ساتھ کھڑے ہوکر آمریت کو للکارتے تھے۔
نواب اکبر خان بگٹی بلوچستان کے بلند قامت سیاسی راہنما ہونے کے علاوہ ملک بھر کی معروف سیاسی شخصیت تھے۔اس لیے میڈیا کے ذریعے ان کی سیاسی سرگرمیوں، بیانات اور موقف کی خبر ملتی رہتی تھی لیکن ان سے ذاتی طور پر میری ایسی جان پہچان نہیں تھی جیسے دیگر کئی بلوچ قائدین کے ساتھ رہی تھی جن کے ساتھ میرا واسطہ سیاسی سرگرمیوں، سیاسی قیدوبند اور جلاوطنی کے دوران رہا۔ کیونکہ1972 کے بعد نواب صاحب اور میں اکثر ایک دوسرے سے مختلف (اور کبھی تو مخالف) سیاسی کیمپوں میں بھی رہے۔
پوری قوم آج نواب اکبر بگٹی شہید کی برسی منارہی ہے 26اگست 2006کو نواب بگٹی کو ایک فوجی کارروائی میں شہید کیا گیا تھا واقعہ کی تمام تفصیل حکومت کے پاس ہیں تاہم جو بہت کم اطلاعات عام لوگوں تک پہنچی تھیں ان کے مطابق نواب بگٹی نے ہتھیار ڈالنے سے شہادت کو ترجیح دی اور مزاحمت کا فیصلہ کرلیا۔ نواب بگٹی کی شہات کے بعد ان کی شخصیت ایک قومی شہید کی حیثیت اختیار کرگئی اور بلوچ تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ روشن رہے گا۔ پوری بلوچ جدوجہد میں نواب بگٹی کا کردار نمایاں رہا ہے وہ ہمیشہ ہر اول دستے کی حیثیت میں رہنمائی کا کردار ادا کرتے نظر آئے۔
دنیا بھر کی طرح بلوچستان اور سندھ میں بھی آج بلوچ قوم پرست رہنما شہید نواب محمد اکبر خان بگٹی کی 14 ویں برسی منائی جارہی ہے۔ اس دن کومنانے کا مقصد ہے کہ نواب صاحب کی طرز زندگی اور شہادت کے مقصد پر روشنی ڈالاجائے۔میری پہلی ملاقات نواب اکبر خان بگٹی سے طالبعلمی کے زمانے میں ہوئی۔ جب میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے سابق چیئرمین رازق بگٹی کا پولنگ ایجنٹ تھا۔ عام انتخابات میں رازق بگٹی اور نواب اکبر خان ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ جب ہم دیگر بی ایس او کے ساتھیوں کے ساتھ انتخابات کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لئے ڈیرہ بگٹی پہنچے۔
مشہور بلوچ قوم پرست سیاسی لیڈر، جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ سابق گورنر اور وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اکبرخان بگٹی نواب محراب خان کے ہاں بارکھان میں 12 جولائی 1927ء میں پید ا ہوئے۔ ایچی سن کالج لاہور سے تعلیم مکمل کی اور اس کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ پچاس سال پہلے انیس سوچھیالیس میں اپنے قبیلہ کے انیسویں سردار بنے انیس سوانچاس میں انہوں نے حکومت کی خصوصی اجازت سے پاکستان سول سروسز اکیڈمی سے پی اے ایس (اب سی ایس ایس) کا امتحان دیئے بغیر تربیت حاصل کی۔