|

وقتِ اشاعت :   September 12 – 2020

بلوچستان کے طویل ساحلی پٹی جیوانی سے لیکر گڈانی تک پھیلی ہوئی ہے اور یہ ساحلی پٹی دو اضلاع گوادر اور لسبیلہ پر مشتمل ہے۔ بلوچستان کے طویل ساحلی پٹی جس کی لمبائی 780 کلومیٹر ہے اور یہاں انواع و اقسام کے سمندری مخلوقات پائی جاتی ہیں۔ اس ساحل پٹی میں کئی ایسے سمندری مخلوقات بھی پائی جاتی ہیں جنکے بارے میں مقامی ماہی گیروں تک کو علم نہیں ہے، کیونکہ تحقیق اور جستجو نہ ہونے کی وجہ سے اس ساحلی پٹی میں پائی جانے والی بعض سمندری مخلوقات ماہرین کے نظروں سے اوجھل ہیں۔

بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر جسکے تمام چاروں تحصیل گوادر، جیوانی، پسنی اور اورماڑہ فشنگ زون ہیں۔گوادر کے ساحلی پٹی پر کچھوے اور ڈولفن کے خول وقتاً فوقتاً ملتے آرہے ہیں،جبکہ گذشتہ روز گوادر کے ساحل”پدی زر”میں نایاب نسل کی ایک ”پففیرش“ مردہ حالات میں پایا گیا تھا۔ یہ مچھلی بہت کم مقامی ماہی گیروں کے جالوں میں پھنس جاتی ہے کیونکہ یہ مچھلی مقامی مارکیٹ میں فروخت نہیں ہوتی ہے۔

پففیرش کو مقامی لوگ ”تورا“، میرین بیالوجسٹ اسے“بلوفش“ اور جاپانی”فوگو“ کہتے ہیں۔ویکیپیڈیا کے مطابق اس مچھلی کو سب سے پہلے 1995 میں جاپانی غوطہ خوروں نے دیکھا تھا لیکن دریافت نہیں کیا گیا تھا کہ وہ 2013 تک پففیرش کے ذرئعے تخلیق کئے گئے تھے جب اس پرجاتیوں کو جاپان کے ریوکیو جزیرے میں دریافت کیا گیاتھا۔ یہ سوچا جاتا ہے کہ اسطرح کی ملاوٹ کی رسم میں مشغول ہونے کے لئے سفید داغ نما پففیرش اپنی نوعیت کی واحد نسل ہے۔ؒانسٹیٹیوٹ آف میرین سائنسز کراچی یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر شعیب کیانی کیمطابق یہ مچھلی ساحل کے قریب اورساحل سے دور کم گہرے پانی میں پائی جاتی ہے اور گہرے پانی میں یہ ہزاروں کی تعداد میں ایک ساتھ تیرتے ہوئے نظر آتی ہیں۔

انکا کہنا ہے کہ اس مچھلی کی خاص بات یہ ہے جب یہ خطرہ محسوس کرتی ہے تو اپنی جسم کے اندر پانی اور ہوا بھرتی ہے اور غبارے کی شکل اختیار کرتی ہے۔جبکہ اسکے جلد پر کانٹے بڑے ہوجاتے ہیں جو اسے دوسرے سمندری مخلوقات سے تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ اور زیادہ تر بڑے اور تیز مچھلیاں اسے شکار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکچر،واٹر اینڈ میرین سائنسز کے طالب علم نصیر لعل کے مطابق اس مچھلی کے کچھ اقسام پاکستانی پانیوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ زہریلی ہونے کی وجہ سے یہ مچھلی بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں بطور خوراک استعمال نہیں ہوتی ہے۔ نصیر لعل مزید بتاتے ہیں کہ پاکستان کے سمندر میں آلودگی بڑھ رہی ہے۔

آبی آلودگی،استعمال شدہ پلاسٹک نیٹ اور وائر نیٹ کی وجہ سے آبی حیات شدید متاثر ہورہی ہے۔ انکا کہنا ہے یہ بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ بڑے بڑے ٹرالرز کے ڈیزل سمندر میں گرنے سے آبی حیات کے موت کی سبب بن رہی ہیں۔ جو کہ آبی حیات کے لئے کسی بڑے المیے سے کم نہیں ہے۔ شعیب کیانی کے مطابق ہوسکتا ہے کہ مذکورہ مچھلی کسی مچھیرے کی جال میں پھنس گئی تھی۔ اور اسکی ہلاکت ہوئی تھی۔ انکا کہنا ہے کہ ایسے مچھلیوں کی ہلاکت المیہ ہے کہ جو فروخت نہیں ہوتے ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے ایک رپورٹ کے مطابق پففیرش میں ٹیٹروڈوٹاکسن نامی زہریلا مواد ہوتا ہے اور یہ سائنائیڈ سے 1200 گنا خطرناک ہے۔ مضر اثرات ہونے کے باوجود کچھ ممالک میں یپ ایک نفیس غذا سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ شیف یا باورچی کو کئی برسوں کی ان تھک تربیت کے بعد ہی یہ مچھلی تیار کرکے گاہکوں کو پیش کرنے کی اجازت ملتی ہے۔

گوادر کے مقامی ماہی گیروں کے مطابق چونکہ پففیرش مقامی مارکیٹ میں فروخت نہیں ہوتی اور علاقے میں اسکو بطور خوراک بھی استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہاں کے لوگوں کی مرغوب غذا مچھلی ہے۔

ماہی گیر اس مچھلی کا شکاربھی نہیں کرتے جبکہ کبھی کبھی یہ جالوں میں پھنس جاتی ہے۔نیشنل جیوگرافک کے ویب سائیٹ کے مطابق دنیا بھر میں پففیرش کے 120 اقسام پائی جاتی ہیں جوکہ سمندر اور میٹھے پانی میں پائی جاتی ہیں۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ماہر حیاتیات طاہر حبیب کے مطابق 90 اقسام سمندر جبکہ 30 اقسام ندیوں یا میٹھے پانی میں پائی جاتی ہیں،

اور یہ مچھلی زیادہ تر زہریلی ہوتی ہیں۔ یہ مچھلی دنیا کے گرم علاقوں کے گرم پانیوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ پرجاتی بہت سے مرجان اور پتھریلی چٹانوں، مینگروز کے جنگلات، کیچڑ، ریتلا اور گھاس دار پلیٹوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ مچھلی زیادہ تر 200 میٹر (656) فٹ کی گہرائی میں پائی جاتی ہیں۔پفرفش زیادہ تر گول ہوتے ہیں اور بعض کے جلد پر کانٹے ہوتے ہیں جو دیگر سمندری مخلوقات کے شکار ہونے سے بچنے کے لئے دفاع کا کام کرتی ہیں۔

بعض ماہر حیاتیات کے مطابق جاپان میں پائی جانے والی پففیرش انتہائی زہریلی ہوتی ہے اور اسکی کلیجی میں اسپرین کے گولی کے سولہویں حصے کے برابر انتہائی پیٹروڈوٹاکسن نامی زہر پایا جاتا ہے اور اس سولہویں حصے کو اگر مذید تیس حصوں میں تقسیم کردیا جائے تو ہر حصہ ایک صحت مند شخص کو ہلاک کرنے میں کافی ہے۔ جبکہ پاکستان کے پانیوں میں پائے جانے والی مچھلی زہریلی نہیں ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مچھلی کے کھانے سے دنیا بھر میں ہر سال ہلاکتیں ہوتی ہیں، اس لئے اس کو کھانے میں احتیاط برتنا چاہیے۔ یہ مچھلی افریقہ کے مشرقی اور مغربی ساحل،بحرالکاہل کے خطے،جاپان، آسٹریلیا، استوائی جزیرے، ہوائی اور ایسٹر جزیرے، جنوبی کیلیفورنیا، خلیج کیلیفورنیا، کولمبیا اور گالاپاگوس جزیروں کے راستے، برازیل سے برازیلیا، فلورایڈا،میکسیکو اور میکسکو کے مشرقی ساحل اور بحیرہ کیربین میں بھی پائی جاتی ہے۔

پففیرش کے افزائش نسل کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ ”زوجیت“ کے بعد مادہ گھونسلا چھوڑ دیتی ہے اور نر ٹھہر جاتا ہے۔ انڈے جمع ہونے کے بعد مرد نہ صرف گھونسلا کی دیکھ بھال کرتا ہے بلکہ گھونسلے میں آنے والے شکاریوں یا دوسرے حریف مردوں کا تعاقب کرتے ہیں۔

انڈے سات دن بعد ہیچ کرتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ گھونسلا خراب ہوتا ہے اور ہیچنگ کرنے کے بعد مرد چلے جاتے ہیں اور دوبارہ گھونسلا استعمال نہیں کرتے ہیں۔ماہرین کے مطابق دیگر سمندری مخلوق کی طرح بففیرش بھی سمندر کے ایکوسسٹم کو قائم و دائم رکھنے میں اہم ہے کیونکہ یہ بعض دیگر زہریلی آبی جانوروں کو کھاتی ہے۔