
خیال رہے کہ گزشتہ روز نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا تھا کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر غیر ملکی افراد کو یکم نومبر تک کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے کہ وہ اپنے وطن واپس لوٹ جائیں اور اس کے بعد نہ جانے والوں کو ڈی پورٹ کردیا جائے گا۔
روزنامہ آزادی | وقتِ اشاعت :
خیال رہے کہ گزشتہ روز نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا تھا کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر غیر ملکی افراد کو یکم نومبر تک کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے کہ وہ اپنے وطن واپس لوٹ جائیں اور اس کے بعد نہ جانے والوں کو ڈی پورٹ کردیا جائے گا۔
روزنامہ آزادی | وقتِ اشاعت :
مقامی میڈیا کے مطابق بس پل سے نیچے بجلی کی تاروں پر گری، جس کے بعد رکاٹوں سے ٹکرا کر 30 میٹر مفاصلے پر ریلوے ٹریک پر جا گری جس کے باعث بس میں آگ لگ گئی تھی۔ شہری بھی تھے۔
روزنامہ آزادی | وقتِ اشاعت :
کابل: افغانستان نے بارہ ربیع الاول کے دن پاکستان میں حملوں کے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کے بجائے حکومت پاکستان پر ہی الزامات لگانے شروع کردیئے۔’
ویب ڈیسک | وقتِ اشاعت :
ترکیہ میں پولیس نے اتوار کو ہونے والے حملے میں ملوث دہشت گردوں کی تلاش میں 18 صوبوں میں کارروائی کی۔
روزنامہ آزادی | وقتِ اشاعت :
واشنگٹن: امریکا کے صدر جوبائیڈن نے سابق صدر اور سیاسی حریف کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ملک، جمہوریت اور سیاست کو تباہ کرنے کے در پر ہیں۔
روزنامہ آزادی | وقتِ اشاعت :
بیجنگ/اسلام آباد: چین کے صدر اور وزیراعظم نے مستونگ اور ہنگو میں دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کی ہے۔تفصیلات کے مطابق چین کے صدر شی جن پنگ نے مستونگ اور ہنگو میں دہشت گردی کے واقعات پر صدر ڈاکٹر عارف علوی کے نام ایک تعزیتی پیغام بھیجا ہے۔
روزنامہ آزادی | وقتِ اشاعت :
ماسکو :روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے مستونگ میں گزشتہ روز ہونے والے خودکش حملے میں انسانی جانوں کے ضیاع پر تعزیتی پیغام بھیجا ہے۔
روزنامہ آزادی | وقتِ اشاعت :
ترک وزیر داخلہ علی یرلیکایا نے کہا کہ دو حملہ آور کی جانب سے دھماکے کیے گئے ہیں۔دھماکوں میں 2 پولیس اہکار زخمی ہوئے ہیں۔دوسرے حملہ آور کو سیکیورٹی اہلکاروں نے ہلاک کردیا۔
روزنامہ آزادی | وقتِ اشاعت :
افغانستان نے بھارت کے عدم تعاون کے باعث نئی دلی میں واقع افغان سفارتخانے کو بند کرنے کا اعلان کر دیا۔
روزنامہ آزادی | وقتِ اشاعت :
افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی کا کہنا ہے کہ وہ پڑوسی ممالک سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کے طرز حکمرانی کے بجائے رسمی تعلقات کو فروغ دینے پر توجہ دیں گے۔