کوئٹہ : یہ تاثر عام ہے کہ بلوچستان کے حقوق کیلئے اگر دس لاکھ کا مجمع بھی اسلام آباد لے جائیں توکوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران اے این پی کے سینیٹر زاہد خان نے جب اپنی بات شروع کی
بلوچستان سمیت ملک بھر کو درپیش چھوٹے بڑے مسائل میں سے خوراک کی کمی یا غذائی قلت کا مسئلہ بھی شامل ہے جسے نہ حکومتی سطح پر بہت زیادہ سنجیدگی سے لیا جارہا ہے اور نہ ہی عوامی سطح پر اس حوالے سے کوئی خاص ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جارہا ہے
بلوچستان کی شورش نے صوبے کو اچھے خاصے نقصان سے دو چار کر رکھا ہے ۔ اس منظرنامے میں بہت سو ں کا بھاری نقصان ہوا ہے ۔ ان برسوں میں گویا قتل عام کا چلن عام ہو چلا ہے۔ مزدور مرے، تاجر مرے ، سیاسی کارکن ورہنماؤں کو جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا، ڈاکٹروں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا
پانی نعمت خداوندی ہے اور تمام جانداروں کی زندگی کا دارمدار پانی پر ہے جبکہ یہ زندگی کی بنیادی ضروریات میں سے ایک ہے ۔ صوبہ بلوچستان میں پانی کی دستیابی کی صورتحال سنگین ہوچکی ہے ۔اس کی وجہ دریاؤں اور وقت پربارشیں نہ ہوناہے
کوئٹہ: بلوچستان میں ایک بار پھر صحافی نشانہ پر آگئے، گزشتہ روز ’’آن لائن‘‘ نیوز ایجنسی کوئٹہ کے بیوروچیف بلوچستان یونین آف جرنلسٹ کے مرکزی سیکریٹری جنرل ارشاد مستوئی اور ان کی ٹیم کو مسلح افراد نے آفس کے اندر گھس کر فائرنگ کرکے شہید کردیا۔
کوئٹہ: آزادی اور انقلابی مارچ نے جہاں ملکی سیاست میں ہلچل مچارکھی ہے ،تمام سیاسی جماعتوں اور عوام کی توجہ اپنی طرف مرکوذ کرایا ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا
گوادر کے حسیں و دل فریب ساحل سے لے کر جیونی کے جان لیوا سن سیٹ تک کا سفر تمام ہواتو ہم نے تربت کی راہ لی۔گوادر نے محض ہماری آنکھ اور دل کو ہی سیر نہ کیا بلکہ یہاں ہونے والی مہمان نوازی نے ہمیں شکم سیر بھی کر دیا تھا۔
پاکستان میں سیاسی حکومتوں کے ایک، دو یا تین سالوں میں خاتمے کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن اس تجربے سے ایک سے زائد بار گزر چکی ہیں۔پیپلزپارٹی کی گذشتہ حکومت نے جب اپنے پانچ سال مکمل کیے
یہ مضمون آج سے پانچ برس قبل 2009ء میں ملکی سطح کے ایک مرکزی اخبار کے لیے لکھا گیا لیکن ناقابلِ اشاعت قرار پایا، آج اس کی بازیافت کرتے ہوئے میری آنکھیں نم بھی ہیں اور لب خندہ زن بھی۔فیضؔ کا مصرعہ یاد آتا ہے؛ ’چاند کو گل کریں تو جانیں!‘
24ستمبر2013کو آواران ضلع میںآنے والا زلزلہ آج بھی آواران کا ہر باسی نہیں بھولا اور اسکی تباہ کن لمحات آج بھی انہیں یادہیں۔ اس زلزلے نے آواران شہر کو آثار قدیمہ بنا دیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس میں مرنے والوں کی تعداد 400کے قریب بتائی گئی