تمہارا کوئی دوست نہیں ہے جو کچھ کر سکے؟ اتنے سارے دوستوں نے تمہارے سی ایس ایس کیا تھا؟
جی ماں جی کیا تو کئی نے تھا لیکن بہت سوں سے تو اس کے بعد رابطہ نہیں رہا اور جن سے ہے بھی یہ کام ان کے بس سے بھی باہر ہے
بہت ہی سخت جان قسم کا بندہ لگتا ہے، ایک ماہ گزرنے کے باوجود بھی اپنی ضد پر اڑا ہوا ہے، بھوک ہڑتال ختم کرنے کا نام ہی نہیں لیتا۔کراچی پریس کلب کے سامنے سگریٹ کا ایک لمبا کش لیتے ہوئے رشید نے اپنے دوست اورسابق پڑوسی کو بھوک ہڑتالی کیمپ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
بچپن میں اکثر اماں سے کسی ایسی چیز کی خواہش کرتے جو ان کی دسترس میں نہ ہوتی یا کوئی ضد یا کھانے سے انکار پر ٹال مٹول کرتے تو اماں اکثر یہ کہہ کر ڈراتی تھیں کہ جلدی سے سوجاؤ،یا جلدی سے کھالو،یا رونا بند کرو فلاں فقیر یا بڑی دانتوں والا جن آکر ابھی تمہیں لے جائے گا
روز آئے خبریں ملتی ہیں کہ ایک نئے نیوز چینل نے جنم لیا ہے اسکے جنم پر جشن منایا جاتا ہے صحافتی حلقوں میں ایک خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے کہ نومولود بچہ بڑا ہوکر صحافت کے شعبے کے لئے ایک بڑا کارنامہ انجام دے گا۔ اور اسکی ہر سالگرہ پر جشن منایا جاتا ہے۔ کہ چینل نے گزشتہ سال کون کون سے کارنامے انجام دےئے
کہنے کو تو کراچی پریس کلب قلم کے مزدوروں کی فلاح وبہبود اور انہیں درپیش مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے بنایا گیا ایک ادارہ ہے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ یہ غریب، مظلوم ، مجبوراور بے آسرا لوگوں کی آواز کو وقت کے حکمرانوں تک پہنچانے کا ذریعہ بھی بن گیا
آفات قدرت کی طرف سے آتے ہیں۔ لیکن ان قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے اور نقصانات کو کم رکھنے کے لئے مؤثر پلاننگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ گزشتہ روز افغانستان کے شمالی علاقے میں مٹی کا تودہ گرنے سے 2000سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ قیمتی جانوں کے نقصان کے علاوہ فصل، مال مویشی، املاک کا نقصان بھی بہت اہم ہوتا ہے۔
1886ء میں شکاگو کے محنت کشوں کی آٹھ گھنٹے کے اوقات کار کیلئے جد و جہد بظاہر معاشی جدوجہد تھی لیکن اپنے جوہر میں یہ نظام کی تبدیلی کیلئے محنت کشوں کی تیاری تھی جس کا آغاز معاشی جدوجہد سے ہوا تھا ۔ 18گھنٹے کے اوقات کار کو آٹھ گھنٹے میں تبدیل کرنے سے محنت کشوں کو وہ وقت میسر آیا
آج سے کوئی دو ہزار تین سو برس پہلے 336قبل مسیح میں سکندر اعظم شام ‘ عراق‘ ترکی اور ایران کوفتح کرنے کے بعد تین ہزار پیادوں اور پانچ ہزار سواروں پر مشتمل اپنی فاتح افواج کے ساتھ جب برصغیر پاک و ہند میں داخل ہوا تو اسے بتا یا گیا کہ وہ ایک ایسے علاقے سے گزر رہا ہے جسے ’’ ہیروں کی وادی‘‘ کہتے ہیں ۔
با الآخرپاکستان کو یہ دن بھی دیکھنا نصیب ہوہی گیا جب ملک میں مکمل طور پر شریفوں کا راج قائم ہے۔ شریفوں کے راج کے قیام کا مطلب ہر گز یہ اخذ نہ کیاجائے کہ مملکت پاکستان میں اب شرافت کا دور دوراہوچکا یا امن، چین و سکون قائم ہوچلا بلکہ میری مراد اوپر سے نیچے اور دائیں سے بائیں یعنی حمکرانی کے ساتوں طبق شریفوں کا راج قائم ہوچکا ہے۔
جرمنی میں احتجاج، ہمیں چپ رہنا چاہیے، ہمیں اس سے کیا کہ بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے، جرمنی میں احتجاج: پاکستان میں آ کر احتجاج کریں تو دیکھیں۔
کہنے کو تو یہ محض دو جملے ہیں جن میں ایک احتجاج کی خبر پر اپنے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے، مگر جب ان دو جملوں کی گہرائی ، ٹائمنگ اور ان کے پیچھے موجود شخص کی شخصیت، تجربے اور صلاحیت پر نظر دوڑائی جائے تو یہ محض دو جملے نہیں رہتے