زر پبلک سکول گوادرتعلیم کے فروغ میں پیش پیش

| وقتِ اشاعت :  


میں نے ایک ملاح سے پوچھا کہ سمندر کی گہرائی کتنی ہے؟۔ تو اس نے کہا کہ ”زر“ گواز نہ بیت“ یعنی سمندر کی گہری کو ناپنا ممکن نہیں۔ اور جب بھی نجی تعلیمی اداروں کی بات ہو تو گوادر میں زر سکول کا نام لیا جائے گا۔بقول ملاح کے جب زر کو ناپنا ممکن نہیں تو ایک ماہر تعلیم کے مطابق علم اور سمندر کی تہہ تک جانا بھی ہر کسی کے لیے ممکن نہیں ہے۔



بلوچستان میں کوئلہ کان اور مزدوروں کو درپیش حفاظتی مسائل

| وقتِ اشاعت :  


احمدخان بنگلزئی ضلع کچھی کے علاقے مچھ کا رہائشی ہے وہ گزشتہ آٹھ سال سے مچھ میں کوئلہ کان میں مزدوری کررہا ہے ان کے مطابق اس کے چھ بچے ہے اور وہ ایک کرایے کے مکان میں رہتے ہیں روزگار کے دیگر ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ کوئلہ کان میں بیروزگاری کی وجہ سے کام کرنے پر مجبور ہیں ان کے مطابق روزانہ کوئلہ کان میں میں زمین کے اندر چودہ سو فٹ بغیر کسی احتیاطی آوزار کے کام کرنے پر مجبور ہے انہیں ہمیشہ کان میں اترنے کہ دوران یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ وہ کان سے واپس نکلیں گے بھی یا نہیں لیکن پھر یہ سوچ کر اپنی ہمت بندھاتے ہے اگر کام نہ کرے تو بچے بھوک سے مر جائیں گئے۔



انسانی خدمت ایک عظیم عبادت ہے

| وقتِ اشاعت :  


زندگی بھی ایک عجیب سی نعمت اور امتحان ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات میں کئی لوگ زیادہ چربی اور مزیدار کھانے سے بلڈپریشر دل کی مریض شوگر وغیرہ وغیرہ بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہی ڈاکٹرز حضرات پرہیز دیتے یعنی جی بھر کھانے سے محروم کردیتا ہے۔بعض ایسی اقوام افراد اور محلات بھی اس فانی میں وجود رکھتے ہیں۔جو انسانی زندگی کیلئے درکار خوراک پانی اور دیگر سہولیات سے محرومی کی وجہ سیزندگی کے سخت اور بدترین دور سے گزر رہے ہیں۔ایک طرف جی بھر کھانے سے محروم دوسری طرف تاریخ کے بدترین مہنگائی بے روزگاری اور بھوک وافلاس سے دوچار اقوام زندہ رہنے کیلئے کھانہ راشن وغیرہ نہیں ملنے پر محروم نظرانداز پڑے ہیں۔ایک کہاوت ہے کہ آٹے کی بوری خریدنے والے اٹھا نہیں سکتے اور اٹھانے والے خرید نہیں سکتے۔۔۔بحر حال کائنات میں مختلف قسم کے لوگ رہتے ہیں کوئی بیمار کوئی بے بس کوئی قرضدار کوئی پریشان سب ایک طرح نہیں ہوسکتے ہیں۔الہٰی نظام ہے وہ اپنے قدرت سے چلاتے ہی اپنے بندوں کی امتحانات لے رہاہے۔



یہ لاک ڈاؤن نہیں کرفیو ہے

| وقتِ اشاعت :  


بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے۔ مگر آج کل اسی کرفیو نے کشمیر سے بلوچستان کا رخ کیا ہے۔ بلوچستان میں نویں فیصد دکانیں مارکیٹیں اور ہوٹل بند ہیں اور ساتھ ویگن اسٹیشن ویران ریلویز اسٹیشن ویران ایئرپورٹ ویران بس سروس ویران ہیں۔



” گوہَنی پِرا ” بولان

| وقتِ اشاعت :  


گوہَنی پِرا __بولان کے دامن میں پہاڑوں کے بیچ چاروں طرف سے چٹانوں سے گری پیالہ نما وادی _____رقبہ 3 مربع میل تھوڑا کم یا پھر کچھ زیادہ فرض کرلیں ____وادی اپنے جنوب میں مچھ شہر مشرق میں ڈھڈر،گرماپ، مارگٹ، سانگان کا علاقہ شمال میں سارو کی پہاڑی اور مارواڑ مغرب میں ہْدباش، نودگوار، شوگ کی بلند بالا پہاڑوں کا سلسلہ لئے ایک ایسا پر فضاء مقام جو اپنی آب ہوا میں خراسان کی مانند مزاجاً سرد ہے ______مگر دھوپ چڑھے تو درخت و درنگ کا سایہ کہیں میٹھا لگے ___



عطائیت کے حوالے سے عوام کی غلط فہمیاں

| وقتِ اشاعت :  


کراچی کے علاقے پنجاب کالونی میں گزشتہ روز ایک شخص عطائیت کی بھینٹ چڑھ گیا جب عطائی ڈاکٹر نے اسے کرونا کا مریض قراردے دیا جس پر اس شخص نے اپنے خاندان کو بچانے کی خاطر خودکشی کرلی لیکن ابتک اس عطائی ڈاکٹر کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔کچھ عرصے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان نے پنجاب پولیس کو ایک حکم دیا تھا کہ وہ صوبے بھر کے تمام عطائی ڈاکٹروں کو ایک ہفتے میں گرفتار کر کے رپورٹ پیش کرے۔ اس حکم کے ساتھ ہی پنجاب پولیس حرکت میں آتی ہے اور صوبہ بھر میں عطائی ڈاکٹروں پر چھاپوں کا سلسلہ شروع کر تی ہے، میڈیا کے اعداد وشمار کے مطابق کافی گرفتاریاں عمل میں آئیں تھیں۔



احتساب سب کا

| وقتِ اشاعت :  


تاریخ گواہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کی وفات کے بعد ملک میں کرپشن،اقربا پروری اور بد عنوانی،نظام کا حصہ بن گئی۔ اور جو بھی آیا اس نے بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان بار ہا کہہ چکے ہیں کہ وہ ملک سے بد عنوان عناصر کا خاتمہ کیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ ان کے دور میں پاکستان میں احتساب کا قومی ادارہ ”نیب“ بھی سر گرم ہے اور اس نے حزبِ مخالف کے کئی اہم رہنماؤں کے خلاف بد عنوانی اور کرپشن کے مقدمات قائم کیے ہیں۔ پاکستان میں بر سرِ اقتدار تحریکِ انصاف کی حکومت مسلسل ملک سے کرپشن اور بد عنوانی کے خاتمے کے عزم کا اظہار اور اس سلسلے میں دعوے بھی کرتی رہی ہے۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ موجودہ حکمران جماعت تحریکِ انصاف کے اقتدار میں آنے کی وجہ ہی کرپشن کے خلاف بلند و بانگ نعرے ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔



بنیادی شہری حقوق اور آئین پاکستان

| وقتِ اشاعت :  


ملک میں اظہار آزادی رائے کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے, آج تک ہم نہیں کبھی بھی ایسے موضوعات پہ لکھنے کی کوشش نہیں کی کہ جو ملکی آئین و قانون کے ساتھ ساتھ ملکی سالمیت کے خطرے کا سبب بنے۔ ہم اْس دائرے کار کے اندر رہتے ہوئے جو کہ آئین پاکستان کے 1973 کے آئین میں شہریوں کو دیئے گئے بنیادی حقوق جو کہ آئین کے دفعات 8 تا 28 تک بنیادی حقوق کی ضمانت دیتی ہے ہم نے ہمیشہ اپنے مسائل سے دوسروں کو آگاہ کرنے کے لیے اْن تمام چیزوں کا پابندی کیساتھ خیال رکھا جسکی آئین پاکستان ہرگز اجازت نہیں دیتی۔



کیا شوگر مافیا کوسزا مل سکے گی؟

| وقتِ اشاعت :  


پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے جس کا 70فیصدکثیر زمینی رقبہ زراعت کے لئے استعمال ہوتاہے پاکستان کے پاس دنیا کا بہترین نہری نظام بھی موجود ہے پاکستان میں کاشت ہونے والی چند بڑی فصلوں میں شوگر کین یعنی گنا شامل ہے۔ گنے کی فصل 10سے12یا پھر 15سے 18مہینوں میں تیار ہو جاتی ہے ماضی قریب میں زمیندار اپنی گھریلو ضروریات یا محدود پیمانے پر فروخت کیلئے گنا کاشت کرتے تھے اور گنے سے قدیم دیسی طریقے یعنی بیلنے کے ذریعے اس کا رس نکال کر ایک مخصوص طریقے سے کڑاہوں میں پکانے کے بعد گڑ و شکر بناتے تھے،اس قدیم دیسی طریقے سے گڑ یا شکر نکال کر زمیندار اپنی گھریلو ضروریات پوری کرنے کے ساتھ فروخت کرکے اچھا زر مبادلہ بھی حاصل کرتے تھے۔رفتہ رفتہ کاشتکاری کے لئے نت نئے جدیدزرعی آلات کی آمد اور طریقوں میں جدت آتی گئی اور دیسی گنے کے ساتھ ہائی برڈ گنا آنے کے بعد فی ایکڑ پیداوار میں بھی اضافہ ہوتا گیا اور پرانے آلات ودیسی طریقوں سے گڑ اور شکر تیار کرنے کا دور بھی ختم ہوتاگیا اورشوگر کی تیاری بڑی بڑی جدید شوگر ملوں کے ذریعے ہونے لگی اور باقاعدہ ایک بڑی صنعت کا درجہ اختیار کر گئی۔



نجکاری اور پاور کمپنیوں کے افسران کی ذمہ داری

| وقتِ اشاعت :  


قیام پاکستان کے وقت نوزائیدہ ملک میں جہاں بہت سی مشکلات اور مالی پریشانیوں کا سامنا تھا اس وقت ملک کے چند بڑے شہروں میں چھوٹے چھوٹے پاور ہاؤسز اور چھوٹی چھوٹی کمپنیوں کے ذریعے چھوٹی صنعتوں، تجارتی مراکزاور چند بڑے گھروں تک بجلی کی فراہمی محدود تھی۔اسی زمانے میں کوئٹہ میں کیسکو کے نام سے کمپنی موجود تھی جو کوئٹہ کینٹ چند شہری علاقوں کو بجلی فراہم کرتی تھی۔بجلی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اس لئے 1958ء میں واپڈا ایکٹ کی منظوری کے بعد پورے ملک میں واپڈا کے ذریعے ڈیم بنانے،کوئلے، گیس اور تیل سے پاورہاؤسز لگانے اور 33KV، 66KV اور 132KVگرڈ اسٹیشن بنانے کا سلسلہ شروع ہوا اور آج پورے ملک میں 220KV اور 500KVتک گرڈ اسٹیشنز اور ہائی ٹینشن لائینیں بن چکی ہیں اوراسی طرح11KV، 220Vاور440V کی لائینیں شہر،شہر، گاؤں گاؤں اور گلی گلی پہنچادی گئی ہیں۔