خارپشت ایک جنگلی جانور ہے، اور پہاڑی علاقوں میں پایا جاتاہے۔مکران کے قدرتی حسن میں ایک اضافہ یہ بھی ہے کہ یہاں سمندر، پہاڑ، دریا، صحرا اور میدان ایک دوسرے کے ساتھ ایک لڑی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔خارپشت کو بلوچی زبان میں ”دجوک”اور”جدوک“ کہا جاتاہے۔ حالیہ چند عرصے میں تواتر کے ساتھ بارشیں ہونے کی وجہ سے جب کھیت آباد ہوگئے ہیں اور لہلاتی فصلیں نظر آنے لگے۔تو ایک بار پھر پرندے اور جنگلی جانور نمودار ہورہے ہیں۔
آج پورے ملک پاکستان کی ویران ریلویز ویران ایئرپورٹ میٹرو بس سروس اور عظیم شان سڑکیں چیخ چیخ کر اس ملک کے حکمران طبقے کو احساس دلا رہے ہیں کہ ہسپتال ان چیزوں سے بہت ضروری تھے جو ہم نے نہیں بنائے ہیں جو ہم اس ملک کے عوام کو نہ دیں سکے ہیں۔
کرونا وائرس کی روک تھام و تدارک کے لیے بلوچستان سمیت ملک بھر میں اٹھائے گئے حفاظتی اقدامات سے عوام کو وقتی طور پر تکالیف ضرور درپیش آئیں گی تاہم اس کے سوا اس موذی وباء کا پھیلاؤ روکنا نا ممکن ہے۔ حکومت نے معاشی ماہرین و متعلقہ محکموں کو ہدایت کی ہے کہ اس کڑے وقت میں غریب اور مزدور پیشہ طبقات کی معاونت کیلئے قابل عمل منصوبہ بندی کی جائے۔
زندگی سے محبت دوسروں کی زندگیوں کو تحفظ فراہم کرنے اور اپنی زندگی کو دوسروں کے لئے کارآمد بنانے میں پوشیدہ ہے۔کرونا وائرس بھی ایک نا دیدہ ظالم دشمن ہے۔انسانیت کے خلاف بیماریاں ہوں یا جنگیں انہیں شکست دینے کے لیے احتیاط کے ساتھ ساتھ اتفاق اور مکمل دانشمندی پہلا عمل ہے، اس کے پھیلنے کی اصل وجوہات وباء کے دنوں میں فطرت سے لاتعلقی کا اظہار ہے وہ قومیں صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں ماضی میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں جب قوموں نے پھیلنے والی بیماریوں اور وباؤں سے دانشمندی کے ساتھ نمٹنے کی بجائے اپنی جاہلانہ طاقت کا مظاہرہ کیا وہ ڈھیر ہوتے گئے۔جس کا ایک ہی نتیجہ نکلا کہ لاکھوں کروڑوں انسان تلف ہوئے۔
سال 2019ء کے آخر میں چین کے شہر اوہان میں پہلی بار ایک وائرس نے جنم لیاجس کو بعد میں کورونا وائرس کا نام دیا گیا جو چند ہی دنوں میں وباء کی شکل اختیار کرگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے صرف چین میں 81ہزار سے زائد لوگوں کو متاثر کیا اور کورونا وائرس سے 3ہزار سے زائد لوگ جاں بحق ہوئے۔اس کے کورونا وائرس نے ایران کا رُخ کیا اور وہاں بھی اپنے فتح کے جھنڈے گھاڑ دئیے اور کورونا وائرس نے ایران میں ساڑھے 19ہزار کے لگ بگ افراد کو متاثر کیا اور تقریباً 15سو کے قریب لوگ جاں بحق ہوئے۔
کرونا وائرس ترقی یافتہ ممالک چین امریکہ اٹلی ایران سعودی اربیہ سمیت دیگر ممالک سے ہوتا ہوا ملک کے دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی داخل ہو گیا ہے حفاظتی اقدامات کے پیش نظر صوبہ لاک ڈؤان ہو چکا ہے سرکاری دفاتر تعلیمی ادارے بکرا منڈیاں بند ایک خوف کا عالم بنا دیا گیا ہے اس کے بدلے میں حکومت کیا کر رہی ہے سب کو پتہ ہے حکم نامہ پر حکم نامہ عمل صفر ہے بلوچستان حکومت کے پاس وزیر صحت نہیں ہے۔
چین سے شروع ہونے والا یہ وائرس دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں پھیل گیا اور ایران سے ہوتا ہوا غلطی سے بلوچستان آپہنچا۔ ہاں اس وائرس سے تو بڑی غلطی ہوئی, اس مہلک وائرس سے تو پہلے ہی انگنت وائرس بلوچستان میں آئے روز لوگوں کی جان لے رہے ہیں۔ بلوچستان میں بھوک کا وائرس ہے جس نے لاکھوں بچوں کو غذائی قلت کا شکار کر دیا ہے مگر کسی نے افسوس کا اظہار نہیں کیا۔
بادشاہت کا دور تھا،ایک دن بادشاہ نے سوچا، جب سے بادشاہ بنا ہوں کوئی درخواست گزار نہیں آیا۔ وزیروں مشیروں کو طلب کیا سب نے کہا،جناب آپ کی حکومت میں عدل ہے انصاف ہے، عوام کو بنیادی سہولیات صحت،تعلیم، پینے کا صاف میسر ہے اس لیے کوئی شکایتی نہیں ہے۔ بادشاہ عقل مند تھا، سوچا کچھ گڑ بڑ ہے اس نے اعلان کیا کہ شہر کے داخلی وخارجی راستوں کی چیک پوسٹوں پر آنے جانے والوں کوصبح شام دو دو جوتے ماریں۔یہ سلسلہ شروع کردیا گیا شام ہو گئی کو ئی شکایتی دربار نہیں آیا۔ دوسرا دن،تیسرا دن گزر گیا کوئی نہیں آیا آخر چوتھے دن آٹھ دس بندے بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے،بادشاہ خوش ہوا کچھ لوگ تو شکایت لے کر آئے۔
تعلیم کی اہمیت اورافادیت سے ہر کوئی واقف ہے۔ تعلیم کے بغیرکوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ علم سیکھنے اورسکھانے سے متعلق قرآن واحادیث میں بیشمارفضائل بیان ہوئے ہیں۔مگرافسوس کیساتھ کہناپڑتاہے کہ صوبہ بلوچستان تعلیم کے حوالے سے پسماندہ صوبہ جاناجاتاہے۔صوبہ بلوچستان دیگرانگت مسائل سے دوچارہونے کیساتھ ساتھ تعلیمی بحران کا بھی سامناکررہاہے۔ بلوچستان میں سینکڑوں سکول زبوں حالی کا شکار ہیں۔ ہزاروں قابل اساتذہ پرائیویٹ سکولوں میں چکرکاٹتے پھرتے ہیں۔ بلوچستان کے لاکھوں بچے تعلیم وتربیت سے محروم گلی کوچوں میں پھرتے ہیں یاپھرگیرج، تندور یاہوٹل والوں کے رحم وکرم پررہ کرصلاحیتوں کوبرباد کررہے ہیں۔
بلوچستان کے معاشرے کےبارے میں عام تاثر ہے کہ یہ ایک روایتی اورقدامت پسند معاشرہ ہے،،،اس معاشرے میں خواتین گوناگوں مسائل کا شکار ہیں ،،ان میں تعلیم اور صحت کےمسائل نمایاں ہیں جن کااندازہ صرف دو باتوں سے لگایاجاسکتا ہے کہ جس میں ایک کی شرح ملک میں سب سے کم اور دوسرے کی سب سے زیادہ ہے،،یعنی ملک میں خواتین میں سب سے کم شرح خواندگی اسی صوبے میں ہے اور اسی طرح زچگی کے دوران ماوں کی شرح اموات بھی اسی صوبے میں سب سے زیادہ ہے،،،،،،اور اگر بات ہو غیرت کے نام پر قتل کی تو اس کی شرح بھی کم وبیش بلوچستان میں زیادہ گردانی جاتی ہے،،،،یہ اور اس طرح کےدیگر مسائل بلوچستان کا مثبت کی بجائے ایک منفی تاثر اجاگر کرتے رہے ہیں۔۔