
آج روزنامہ آزادی کے19سال پورے ہونے پر یقیناًمسرت کا اظہار کیاجارہا ہے،مگر روزنامہ آزادی کے اس طویل سفر اور عوامی مقبولیت کا سہرا مرحوم ماماصدیق بلوچ کے سر جاتا ہے۔
روزنامہ آزادی | وقتِ اشاعت :
آج روزنامہ آزادی کے19سال پورے ہونے پر یقیناًمسرت کا اظہار کیاجارہا ہے،مگر روزنامہ آزادی کے اس طویل سفر اور عوامی مقبولیت کا سہرا مرحوم ماماصدیق بلوچ کے سر جاتا ہے۔
روزنامہ آزادی | وقتِ اشاعت :
روزنامہ آزادی کی تاریخ کو جاننے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ آپ تخلیق کار لالا صدیق بلوچ کی تاریخ کا مطالعہ کریں،روزنامہ آزادی صدیق بلوچ کی تاریخی کاوشوں میں سب سے بڑی کاوش ہے جس کی بدولت آج پرنٹ کی شکل میں ملک بھر خصوصاً بلوچستان کے کونے کونے میں عوام کو معلومات فراہم ہو رہی ہے جبکہ ویب سائٹ اور سوشل میڈیا کیذریعے بلوچستان و پاکستان کی حالات سے پوری دنیا کو باخبر رکھا جا رہا ہے۔
روزنامہ آزادی | وقتِ اشاعت :
بے نسلے لوگ! یہ جملہ ہم کئی بار اپنی روز مرہ کی زندگی میں سنتے ہیں اور اس کی زد میں اکثر وہ لوگ آتے ہیں جن کے ساتھ ہمارا تعلق یا زندگی کا تجربہ زیادہ خوشگوار نہیں ہوتا، بعض اوقات سننے اور دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ ہم اپنے خونی رشتوں کے بارے میں بھی جانے انجانے میں ایسا بول جاتے ہیں۔
روزنامہ آزادی | وقتِ اشاعت :
جب آپ فکشن پڑھتے ہیں تو اس میں زندگی کا احاطہ تصورات کی شکل میں کیا جاتا ہے۔ مختلف کرداروں کو کہانیوں کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ کہانی کا خاکہ کیسا ہو، اس میں ٹوسٹ کیا لانی ہے،کون کون سے کردار شامل کرنے ہیں کہانی کو اختتامیہ کیا دینا ہے؟یہ سب کہانی کار پر منحصر ہے۔۔۔کہانی ایسی کہ اختتام تک قاری کو اپنی گرفت سے آزاد نہ ہونے دے۔ مختلف تصویروں کی صورت میں دماغ پر محو پرواز ہو کر کہانی کو بار بار دہراتے رہیں۔ دھندلاتی تصویریں واقعاتی صورت میں نظر کے سامنے پھرتی رہیں۔ کچھ کہانیاں ایسی کہ عام قاری ان کی مفہوم تک سمجھ نہیں پائے اور دنگ ہو کر رہ جائے کہ آخر ہو کیا رہا ہے۔
شبیر رخشانی | وقتِ اشاعت :
جام کمال نے نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریکوڈک کا کیس عالمی سطح پر چل رہا ہے قوی امکان ہے کہ ہم پر اربوں ڈالر کا جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ یہ رقم صوبے نے ادا کرنا ہے اور اس کا سارا بوجھ حکومتِ بلوچستان پر آئے گا۔ کتنی… Read more »
محمد نذیر نور | وقتِ اشاعت :
انسانی تاریخ اور سماجی ارتقاء عظیم دانشوروں،فلاسفروں، انقلابی اور قومی رہنماؤں کے کارناموں اور قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ جنہوں نے اپنی علمی، فکری جدو جہد اور خیالات سے قوموں کی ارتقاء کی راہوں کا تعین کرکے سماجی زندگی میں اہم کلیدی کردار ادا کرکے قوموں کی ترقی، آزادی اور خوشحالی کیلئے مضبوط اور مستحکم بنیادیں فراہم کیں۔ انہی نظریات، خیالات اور سوچ نے انہیں قومی ہیرو اور تاریخ میں ہمیشہ زندہ رکھا ہوا ہے۔
سعید کرد | وقتِ اشاعت :
زلزلہ ایک قدرتی عمل اور کائنات کے نظام کا حصہ ہے اور زمین پر ہزاروں لاکھوں سالوں سے زلزلے آتے رہے ہیں اور اپنی تباہ کاریوں کے باعث انسانی تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں زمین کی تھر تھراہٹ نے ہمیشہ زمینی مخلوقات کو بے شمار نقصان پہنچا ئے ہیں زلزلوں کی تاریخ میں 31مئی 1935کو کوئٹہ میں آنیوالا زلزلہ بھی ایک قیامت خیز زلزلہ تھا انسانی جانوں کے نقصان کے اعتبارسے کوئٹہ کا زلزلہ دنیا کے بڑے تباہی پھیلانے والے زلزلوں میں پندرھویں 15نمبر پر آتا ہے کوئٹہ میں 31مئی1935کو نیم شب کو آنیوالے زلزلے میں ایک انداز ے کے مطابق 60ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے آج بھی اس زلزلے کو یاد کرتے ہوئے لوگوں کے رونگٹھے کھڑے ہوجاتے ہیں گو کہ زلزلوں میں عمارتیں اور دیوار ے گرنے سے ہلاکتیں ہوتی ہیں لیکن بعض لوگ زلزلے کے خوف سے ہی مر جاتے ہیں۔
ڈاکٹر سلیم کرد | وقتِ اشاعت :
میر یوسف عزیزپہلے بلوچ نواب تھے جنہوں نے قبائلی نظام میں دراڑیں ڈالنے کے لئے جبری تعلیم کانظام رائج کیا۔ انہوں نے دینی و دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ انگریزی علوم اور سائنس کی تعلیم کی ضرورت پر زور دیا تعلیم مقصد کے حصول کے لئے یوسف عزیز مگسی علاقہ میں ایک عظیم تعلیمی منصوبہ کا آغاز کیا انہوں نے۵۱ اکتوبر ۳۳۹۱ء کوجھل مگسی میں جامعہ یوسفیہ کا سنگ بنیاد رکھا وسیع وعریض رقبے پر محیط جامعہ یوسفیہ بقول پر وفیسر محمود علی شاہ جوانہوں نے ایک سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ یوسفیہ اب بھی رقبے کے لحاظ سے بلوچستان یونیورسٹی سے بڑا ہے۔
شبیر رخشانی | وقتِ اشاعت :
بلوچستان سے اچھی خبریں نہیں ملتیں یہ خطہ اپنے جسم کو خون سے تر کرتا چلا آر ہا ہے۔ حکومتی دعوؤں کے باوجود امن فقط ایک خواب کی صورت میں دھندلی تصویر کے ماننددکھائی دیتی ہے۔ جنگ و جدل کی اس فضا میں بلوچستان کا میدان سیاسی،سماجی،معاشی اور تعلیمی حوالے سے بیک فٹ پر چلا گیا ہے۔ گراؤنڈ پر ایک ہیجانی سی کیفیت موجود ہے۔ ان مسائل پر بہت کم بات کی جاتی ہیجن سے یہاں کے باشندے آئے روز متاثر ہوتے ہیں۔
شبیر رخشانی | وقتِ اشاعت :
بلوچستان کی آبادی کا ایک حصہ معاش کے حصول کے لیے بیرونی ممالک کا رخ کرتا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جنھیں گھر کی دہلیز پر مزدوری بھی دستیاب نہیں، اور محنت مزدوری کے لیے سالہا سال باہر زندگی گزارتے ہیں۔ کمائی کا آدھا حصہ خود پر خرچ کرتے ہیں اور بچ جانے والی رقم گھر والوں کے لیے بھیجتے ہیں۔ چونکہ بلوچستان کی دیہی آبادی بجلی، گیس اور پانی کی سہولت سے محروم ہے تو یہ لوگ بہ نسبت شہریوں کے یوٹیلٹی بلوں سے آزاد ہیں۔ سو اگر بجلی، گیس، پانی کی قیمتیں بڑھ بھی جاتی ہیں تو بھی دیہی لوگوں پر اس کا براہِ راست اثر نہیں پڑتا (یہ نہیں کہ وہ ان سہولیات سے استفادہ حاصل نہیں کرنا چاہتے) اگر اثر پڑتا ہے تو اشیاء خوردونوش کی قیمتیں بڑھ جانے کا اثر ہوتا ہے۔