اغواکار بمقابلہ سرکار

| وقتِ اشاعت :  


نیورو سرجن ڈاکٹر ابراہیم خلیل 48روز بعد بازیاب ہو کر گھر واپس پہنچ گئے ،زندہ واپسی کی خبر ان کے اہل خانہ کے لیے کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ ان کی یہ بازیابی تاوان کے عوض عمل میں آئی۔ 13دسمبر 2018کو شہباز ٹاؤن کوئٹہ سے انہیں اغوا کیا گیا تھا جبکہ ان کی بازیابی کراچی سے عمل میں آئی ۔



چلو مان لیتے ہیں

| وقتِ اشاعت :  


چلو یہ مان لیتے ہیں کہ ہم شہر خموشاں کے مغربی حصے کے خاموش باسی ہیں۔ ہم بھی ملک کے دوسرے شہریوں کی طرح ہر پانچ سال بعد اپنا حق رائے دہی استعمال کرکے اپنے لئے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔ چلو یہ بھی مان لیتے ہیں کہ روزگار سفارش کے تحت من پسند سیاسی حمایتیوں اور کارکنوں کا حق ہے۔ اور ہمیں یہ حق نہیں کہ ہم کسی منتخب نمائندے سے یہ سوال کریں؟ کہ ہمیں روزگار کیوں نہیں مل رہا ۔



خود پر ہنسیں اور کامیاب ہو جائیں

| وقتِ اشاعت :  


لافٹرتھراپی سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ اس کا ایک اشتہار دیکھ کر اس کے بارے میں جاننے کا اشتیاق ہوا۔میرے ایک مہربان دوست سرمد اقبال نے مجھے بتایا کہ لاہور میں باقاعدہ یہ تھراپی ہو رہی ہے اور لوگ پانچ ہزار روپے فیس دے کر کچھ دیر ہنستے ہیں اور اس سے ان کی بہت سی بیماریوں کا علاج ہوتا ہے۔ 



جدوجہد جاری رہے

| وقتِ اشاعت :  


کینسر کے مرض میں مبتلا دس سالہ حمل ظفر آغا خان ہسپتال کراچی میں زیرعلاج ہیں۔ ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے خطیر رقم کے مطالبے نے ان کے والد ظفر اکبر اور دیگر ساتھیوں کو سوشل میڈیا پہ تعاون کی اپیل کرنے پر مجبور کیا۔ اپیل کے بعدبڑے پیمانے پر چندہ مہم کا سلسلہ شروع کیا گیا۔



پنجگور آگ کے شعلوں میں جل گیا

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال صاحب جن کی حکومت کو 6 مہینے ہونے کو ہیں, جیسا کہ سب کہ علم میں ہے کہ موصوف گاڑی دوڑانے کے بھی شوقین ہیں جنہوں نے گوادر آف روڈ ریلی میں بھرپور انداز میں شرکت کی۔



بلوچستان کا مقدمہ

| وقتِ اشاعت :  


پاکستان بنتے ہی ملک دشمن عناصر سرگرم ہو جائیں گے۔ اندرونی طور پر بے چینی پھیل جائے گی۔ قومیت ولسانیت کے شعلے بھڑکیں گے۔ چھوٹی اور بڑی قوموں میں حقوق کے حوالے سے کشمکش رہے گی۔ اور پاکستان کا پڑوسی ممالک کے ساتھ ہمیشہ تناؤ رہے گا۔ یہ ان پیشین گوئیوں کا حصہ ہے جو مولانا ابوالکلام آزاد نے مختلف تقریروں میں کی تھیں۔ بلوچستان کو 1948 میں قومی دھارے میں داخل کیا گیا۔ کس طرح اور کیسے یہاں کے باشندوں کو قائل کیاگیا۔



’’ایجوکیٹرز’’کی بھرتیاں

| وقتِ اشاعت :  


اگر آپ ماسٹرز پاس یا گریجویٹ ڈگری ہولڈر ہیں تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ منسٹری آف ایجوکیشن نے ایمرجنسی میں بیروزگار نوجوانوں کے لیے مسئلے کا انوکھا حل نکال ہی لیا ہے۔ ٹیسٹ و انٹرویو دئیے بغیر ہی آپ “ایجوکیٹرز’’ بن سکتے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ ایس ایس ٹیز کی 3500 آسامیاں خالی ہیں۔ 



ہماری قومی زبان اردو ہے یا انگریزی

| وقتِ اشاعت :  


کچھ عرصہ قبل ایک ایسے دفتر جانے کا اتفاق ہوا جہاں ٖایف ایس سی کے بعد طالب علم فارم حاصل کرتے ہیں انٹری ٹیسٹ دینے کے لیئے تاکہ میڈیکل کی تعلیم میں داخلہ لے سکیں۔کچھ طالب علم دوستوں کے ساتھ اور کچھ طالب علم اپنے والدین کے ساتھ آئے ہوئے تھے۔ دل خون کے آنسو رو رہا تھا جب ان ذہین اور نو عمر طالب علموں کو بھکاریوں کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے دیکھا۔ صرف یہ پوچھنے کے لیے کہ فام کی اس شق میں کیا لکھنا ہے۔ 



مکالموں کی سرجری

| وقتِ اشاعت :  


میرا ضدی دوست نہ جانے کن خیالات کا مالک ہے بات بات پر اصرار کرتا ہے مکالمہ کرتا ہے سوالات کا انبار لگا تا ہے ۔ اکتا جاتا ہوں ۔ چھٹکارا پانے کی کوشش کرتا ہوں بیزار ہوکر کہیں دور چلا جاتا ہوں۔ مسجد گیا مندر گیا مزارات پر حاضری دی, دعائیں کیں، منتیں مانگیں نہ دعاؤں کا اثر ہوا اور نہ ہی منتیں پوری ہوئیں ۔ ہمت ہار کر بیٹھ گیا۔ وہ یکطرفہ مکالمے کا آغاز کرتا ہے میں چپ کرکے سنتا ہی چلا جاتا ہوں۔ روز نئے قصے کہانیاں۔ ایک نیاقصہ جو اُس نے چھیڑ دیادل ہی دل میں سلامتی کا خیال آیا۔ 



سوشل میڈیا آفت یادر یافت

| وقتِ اشاعت :  


’’آج کل کے بچوں کی نانی اماں فیس بک ہے۔واٹس ایپ ان کا دوست اور انسٹاگرام ہمدرد ہے‘‘۔ دبئی میں میرے ساتھ کام کرنے والے میرے ایک پاکستا نی ساتھی شکیل صاحب کی یہ بات مجھے آج بھی یا دہے۔ پہلے کہتے تھے کہ دریا کو کوزے میں بند کر دینا ناممکن ہے مگر اب کہتے ہیں کہ گوگل میں دنیا کو بند کر دینا ممکن ہے۔ یہ اب حضرتِ گوگل کی کرامات ہیں یا فیس بک کا جادوجو سر چڑھ کر تو کیا چھت پر چڑھ کر بھی بولتا ہے۔