بلوچستان کا مقدمہ

| وقتِ اشاعت :  


پاکستان بنتے ہی ملک دشمن عناصر سرگرم ہو جائیں گے۔ اندرونی طور پر بے چینی پھیل جائے گی۔ قومیت ولسانیت کے شعلے بھڑکیں گے۔ چھوٹی اور بڑی قوموں میں حقوق کے حوالے سے کشمکش رہے گی۔ اور پاکستان کا پڑوسی ممالک کے ساتھ ہمیشہ تناؤ رہے گا۔ یہ ان پیشین گوئیوں کا حصہ ہے جو مولانا ابوالکلام آزاد نے مختلف تقریروں میں کی تھیں۔ بلوچستان کو 1948 میں قومی دھارے میں داخل کیا گیا۔ کس طرح اور کیسے یہاں کے باشندوں کو قائل کیاگیا۔



’’ایجوکیٹرز’’کی بھرتیاں

| وقتِ اشاعت :  


اگر آپ ماسٹرز پاس یا گریجویٹ ڈگری ہولڈر ہیں تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ منسٹری آف ایجوکیشن نے ایمرجنسی میں بیروزگار نوجوانوں کے لیے مسئلے کا انوکھا حل نکال ہی لیا ہے۔ ٹیسٹ و انٹرویو دئیے بغیر ہی آپ “ایجوکیٹرز’’ بن سکتے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ ایس ایس ٹیز کی 3500 آسامیاں خالی ہیں۔ 



ہماری قومی زبان اردو ہے یا انگریزی

| وقتِ اشاعت :  


کچھ عرصہ قبل ایک ایسے دفتر جانے کا اتفاق ہوا جہاں ٖایف ایس سی کے بعد طالب علم فارم حاصل کرتے ہیں انٹری ٹیسٹ دینے کے لیئے تاکہ میڈیکل کی تعلیم میں داخلہ لے سکیں۔کچھ طالب علم دوستوں کے ساتھ اور کچھ طالب علم اپنے والدین کے ساتھ آئے ہوئے تھے۔ دل خون کے آنسو رو رہا تھا جب ان ذہین اور نو عمر طالب علموں کو بھکاریوں کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے دیکھا۔ صرف یہ پوچھنے کے لیے کہ فام کی اس شق میں کیا لکھنا ہے۔ 



مکالموں کی سرجری

| وقتِ اشاعت :  


میرا ضدی دوست نہ جانے کن خیالات کا مالک ہے بات بات پر اصرار کرتا ہے مکالمہ کرتا ہے سوالات کا انبار لگا تا ہے ۔ اکتا جاتا ہوں ۔ چھٹکارا پانے کی کوشش کرتا ہوں بیزار ہوکر کہیں دور چلا جاتا ہوں۔ مسجد گیا مندر گیا مزارات پر حاضری دی, دعائیں کیں، منتیں مانگیں نہ دعاؤں کا اثر ہوا اور نہ ہی منتیں پوری ہوئیں ۔ ہمت ہار کر بیٹھ گیا۔ وہ یکطرفہ مکالمے کا آغاز کرتا ہے میں چپ کرکے سنتا ہی چلا جاتا ہوں۔ روز نئے قصے کہانیاں۔ ایک نیاقصہ جو اُس نے چھیڑ دیادل ہی دل میں سلامتی کا خیال آیا۔ 



سوشل میڈیا آفت یادر یافت

| وقتِ اشاعت :  


’’آج کل کے بچوں کی نانی اماں فیس بک ہے۔واٹس ایپ ان کا دوست اور انسٹاگرام ہمدرد ہے‘‘۔ دبئی میں میرے ساتھ کام کرنے والے میرے ایک پاکستا نی ساتھی شکیل صاحب کی یہ بات مجھے آج بھی یا دہے۔ پہلے کہتے تھے کہ دریا کو کوزے میں بند کر دینا ناممکن ہے مگر اب کہتے ہیں کہ گوگل میں دنیا کو بند کر دینا ممکن ہے۔ یہ اب حضرتِ گوگل کی کرامات ہیں یا فیس بک کا جادوجو سر چڑھ کر تو کیا چھت پر چڑھ کر بھی بولتا ہے۔



بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کے نام کھلا خط

| وقتِ اشاعت :  


میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کی طالبہ ہو ں اورحال ہی میں اپنے ایک کزن کی شادی کے سلسلے میں گھروالوں کیساتھ کوئٹہ آنا ہوا۔ میرا ننیال یہاں کوئٹہ کے طوغی روڈ پر مقیم ہے۔ میرے نانا بطور سپاہی بلوچستان پولیس میں تعینات ہوئے اور 60 سال کی عمر تک بلوچستان کے مختلف اضلاع میں اپنے خدمات سرانجام دینے کے بعد بطور ڈی ایس پی پولیس ریٹائرڈ ہوئے ۔انہوں نے اخبارات کے مطالعے کو اپنا معمول بنایاہواہے۔ 



گوادر کے ریڈ انڈینز

| وقتِ اشاعت :  


ایک حکومتی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ چنیوٹ کی سرزمین قدرتی معدنیات سے مالا مال ہے۔ یہاں پائے جانے والے لوہے کے ذخائر 125 سال تک ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوں گے۔ اس کے علاوہ یہاں سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر بھی موجود ہیں۔ اس موقع پر سابق وزیر اعظم نے تمام قوم کو مبارک باد بھی دی تھی۔



بلوچستان سڑک حادثات، ریسکیو 1122کا قیام

| وقتِ اشاعت :  


سڑک حادثات بھی کسی دہشتگردی سے کم نہیں، ایک ہی حادثے میں کئی جانیں چلی جاتی ہیں بے شمار لوگوں کو عمر بھر معذوری کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔پاکستان بالخصوص بلوچستان میں سڑک حادثات کو کنڑول کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں۔ سڑک حادثات کیوں رونما ہوتے ہیں، اس کے محرکات کیا ہیں؟ 



18 ویں ترمیم کیوں کھٹک رہی ہے؟

| وقتِ اشاعت :  


1929 میں مسلم لیگ کے 14 نکات میں درج ذیل دو نکات بھی شامل تھے: * مستقبل کے آئین کی طرزوفاقی ہو نی چاہیئے جس میں باقی ماندہ اختیارات صوبوں کے پاس ہوں۔ * تمام صوبوں کو یکساں خود مختاری دی جائے گی۔



روز مرہ زندگی میں پلاننگ کی اہمیت

| وقتِ اشاعت :  


آج کے کالم کا عنوان تحریر کرتے ہوئے میر ے ذہن میں آیا کہ قارئین یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ آج میں فیملی پلاننگ کی بات کرنے لگا ہوں، تو جناب میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ میں آج انتہائی اہم موضوع پر بات کرنے لگا ہوں جو آج ہماری زندگی سے بالکل مفقود ہو کر رہ گیا ہے۔ہم سب کچھ سوچتے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم نے کبھی کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں کی۔