حق دو تحریک: پاپولسٹ یا نیشنلسٹ تحریک

| وقتِ اشاعت :  


ایک حقیقت یہاں واضح کرنا ضروری ہے کہ پاپولسٹ تحریکوں کے اندر عوام کی سب سے بڑی بھیڑ اْس آبادی سے ہوتی ہے جو اس سے پہلے کسی سیاسی تنظیم یا جماعت کا حصہ نہیں ہوتے۔ سو، انہیں کوئی غرض نہیں ہوتا کہ انہیں لیڈ کرنے والا کون ہے یا کہاں سے آیا ہے بلکہ انکے نزدیک انکے غم و غصے اور جذبات کی درست ترجمانی اہم ہوتی ہے۔یہاں اگر قیادت باصلاحیت ہو اور انقلابی وژن رکھتی ہو تو ایسی تحریک جلد ہی بڑی پارٹی کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ ایسی پارٹیاں چوک و چوراہوں پر بن جاتی ہیں اور ان میں مزاحمت کا بڑا جذبہ بھی ہوتا ہے۔ اسی لئے بھی روایتی لیڈرشپ خوفزدہ ہوتی ہے کہ کہیں انکی روایتی پارٹیوں کے بالمقابل کوئی نئی پارٹی تشکیل نہ پائے۔جو سیاسی کارکنان دیگر پارٹیوں کے اندر موجود ہیں وہ اکثر اس غلطی فہمی کے اندر مبتلا ہوتے ہیں کہ چونکہ وہ اور انکے جاننے والے دوسرے کارکنان اس پاپولسٹ تحریک کا حصہ نہیں ہیں، اس لئے اسے سماج کی مسترد شدہ تحریک مان لینا چاہیے۔ یہ صریحاً اجارہ پرست سیاسی کارکنوں کی بہت بڑی غلط فہمی و نابودی ہے۔اسی بناء پر حق دو تحریک کو یکسر اِگنور کرکہ اسے عوامی حمایت سے بے بہرہ قرار دے دینا بھی خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا۔ حق دو تحریک کو عوام کے اندر پذیرائی حاصل ہے اور وہ ایک ایسے بڑے حلقے کو سڑکوں پر لے آئی ہے جو اس سے پہلے کبھی سیاسی سرگرمیوں کا حصہ نہ تھے۔ البتہ تحریک کی قیادت کا امتحان اب آن پہنچا ہے کہ وہ اسکے مستقبل کا کیا فیصلہ کریں گے اور کیسے اسے عوام کی وسیع تر حلقوں تک پہنچانے کی حکمت عملی ترتیب دینگے۔ تحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمان کی ہچکولے کھاتی کشتی اس تحریک کو کیسے نیّا پار کرائے گی اب تک اسکے امکانات واضح و روشن نہیں نظر آ رہے ہیں۔



کیا بلوچستان، حکومت چلانے والوں سے محروم ہے

| وقتِ اشاعت :  


اکثر و بیشتر لوگوں کو یہ تعجب ہے کہ عمران خان کی حکومت پارلیمانی طریقے سے گئی ہے یا کسی سازش کے تحت۔ بظاہر تو عمران نیازی کی حکومت ایک جمہوری طریقہِ کار سے فارغ ہوئی ہے۔ پھر ایاز امیر، عمران ریاض جیسے پڑھے لکھے دیگر صحافی کیوں کر اس سازشی بیانیہ کے حق میں ہیں۔ چلیں آج اس تعجب کو دورِ کئے دیتے ہیں۔ ایکوڈارا جیسے غریب ملک نے جب امریکہ سے امداد کی اپیل کی تو امریکہ نے اپنے من پسند عہدیداران اور ملک میں اپنے طرزِ احکامات صادر کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ جارج بش نے اپنے دورِ اقتدار میں نہ صرف صدام حسین کی تعریف کی بلکہ محکمہ خزانہ کو احکامات جاری کئے تھے کہ انہیں امداد مہیا کی جائے۔ یکم اگست 1990کو صدام حسین نے امریکی وفاداریوں کو خاطر میں نہ لاکر کویت پر حملہ کردیا یہ صدام حسین کی پہلی غلطی تھی جس کا بعد میں انہوں نے خود اظہار بھی کیا تھا۔



محنت اور جہد مسلسل

| وقتِ اشاعت :  


اس کی ابتدائی زندگی نہایت ہی غربت اور تنگدستی میں گزری مگر غربت اور تنگدستی اس کے حصول علم کی جستجو پر غالب نہ آسکی۔ اسے علم حاصل کرنے کا بے حد شوق بلکہ جنون تھا۔وہ رات کو اس وقت تک نہیں سوتا تھا جب تک کہ دن کا لیا ہوا سبق یاد نہیں کرلیتا۔اس دور میں چونکہ بجلی نہیں ہوتی تھی اس لئے اس کی چارپائی کے سرہانے مٹی کا ایک دیا جلتا تھا اسی کی روشنی میں وہ رات کو بہت دیر تک اپنے سبق کو یاد کرنے کے علاوہ اضافی مطالعے میں مصروف رہتا تھا۔ایک رات جب وہ پورے انہماک سے اپنے مطالعے میں مصروف تھا تو دیے کی روشنی مدھم ہونے لگی اور مدھم ہوتے ہوتے بج گئی دراصل دیے کا تیل ختم ہوگیا تھا۔



حق دو تحریک: پاپولسٹ یا نیشنلسٹ تحریک؟

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان جوکہ سات دہائیوں سے جبر و استحصال اور سامراجی تسلط کے زیر اثر ہے۔ بالخصوص دو دہائیوں سے تو یہ دھرتی جنگی اکاڑہ بنا دی گئی ہے جس سے مکمل آبادی متاثر ہے۔ ماس کلنگ، ماس مائیگریشن، اجتماعی قبریں و اجتماعی سزائیں، جبری گمشدگیاں، وسائل کی بے دریغ لوٹ مار، سیاست و صحافت و ادب پر پابندی، ذریعہ معاش پر بندشیں۔۔۔ الغرض ہر طرح سے زمین زادوں پر زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ جمہوری سیاست کے داعی قوم پرست جماعتوں کو یا تو پیچھے دھکیل کر ختم کر دیا گیا یا پھر ان کے اندر سے ساری مزاحمت کی گرمائش نکال کر انہیں مصلحت پسندی و تابعداری پر لگا دیا گیا۔ ایسے میں عوام کے جذبات کی درست ترجمانی کا خلا پیدا ہوگیا اور عوام نے قوم پرست لیڈرشپ اور انکی جماعتوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔



حق دو تحریک: پاپولسٹ یا نیشنلسٹ تحریک؟

| وقتِ اشاعت :  


عالمی سطح پر نظام کے بحران اور زوال کے نتیجے میں ہر طرف سیاسی عدم استحکام پیدا ہو چکا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر معاشروں کے بیلنس بگڑ چکے ہیں۔ افراتفری اور بیگانگی کی کیفیت پروان چڑھ چکی ہے۔ سماجی قدریں گِر چکی ہیں۔ عمومی سوچیں تنزلی کی شکار ہیں۔ تمام تر دانش اور تجزیے سطحی نوعیت پر چلی گئی ہیں۔ سائنس و نظریات کی جگہ نعرہ بازی اور لفاظی نے لے لی ہے۔



بابائے انسانیت مولانا عبدالستار ایدھی

| وقتِ اشاعت :  


اس وقت دنیا کی آبادی تقریباً 7 ارب ہے۔ دنیا میں ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ جن میں ہر مزاج کے لوگ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی نے دنیا میں کچھ لوگوں کو کسی خاص مقصد کے لیے بھیجا ہے جو صرف انسانیت کی خدمت کے لیے بھیجے گئے ہیں جن میں میڈم ڈاکٹر روتھ فاؤ، تھامس گرین مورٹن، بل گیٹس، ڈاکٹر ادیب رضوی، محمد رمضان چھیپا، جیسے کئی نام شامل ہیں۔ انصار برنی، اور مولانا عبدالستار ایدھی شامل ہیں اور فہرست بہت طویل ہے۔



نالج اکانومی اور پاکستان میں صدیوں پرانا نظام تعلیم و تحقیق

| وقتِ اشاعت :  


دنیا میں بک انڈسٹری کی گراؤنڈ بریکنگ آئیڈیاز پر مبنی بکس اور ان سے بننے والی فلمیں اور ڈاکومنٹریز معاشرتی تعلیم اور شعوری بلندی کر کے قومی ترقی اور خوشحالی میں اتنا بڑا کردار ادا کرتی ہیں جتنا کوئی بھی بڑا تعلیمی ادارہ اور ان اداروں کے ماہرین اور اساتذہ اپنی تعلیمی اور تدریسی اعلیٰ کارکردگی کے باوجود بھی نہیں کر سکتے۔



بلوچستان اور منشیات

| وقتِ اشاعت :  


پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 26 جون کو منشیات کے استعمال اور اس کی اسمگلنگ کی روک تھام کا عالمی دن منایا جاتاہے۔ منشیات سے پاک بین الاقوامی معاشرے کے مقصد کے حصول کے لئے کاروائی اور تعاون کومضبوط کرنے کے عزم کے اظہار کے طور پر 7 دسمبر 1987 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد کے زریعے اس دن کو منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد منشیات جیسی ناسور کے متعلق لوگوں میں بیداری پیدا کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم (UNODC) کی ورلڈ ڈرگ رپورٹ 2021 کے مطابق دنیا بھر میں منشیات استعمال کرنے والے افراد کی تعداد تقریباً 27 کروڑ 50 لاکھ ہے جب کہ 3 کروڑ 60 لاکھ سے زائد افراد منشیات کے استعمال کے عوارض کا شکار ہوئے ہیں۔



واہ ! کیا عروج تھا، آہ ! کیا زوال ہے

| وقتِ اشاعت :  


سلطان کے دل میں خیال آیا کہ اگر یہ اتنا بڑا ماہر فلکیات، ریاضی دان اور ستارہ شناس ہے تو کیوں نہ اس کا امتحان لیا جائے۔ اس نے اس ستارہ شناس کو بلایا اور اسے مخاطب کرکے کہا “میں محل کے ان چار دروازوں میں سے کس دروازے سے باہر نکل جاؤں گا” تم علم نجوم اور علم ریاضی کے اصولوں کی مدد سے حساب لگا کر کاغذ پر لکھ دو۔



لیڈر شپ اور اسکی ذمہ داری

| وقتِ اشاعت :  


کسی بھی قوم کی ترقی کا انحصار اس کی لیڈر شپ پر ہوتا ہے جس کے بغیر ترقی کی اْمید ایک خواب ہی ہو سکتی ہے۔ہر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے کچھ خاص خصوصیات اور صلاحیتیں رکھی ہیں۔کسی میں سائنسدان بننے کی صلاحیت پائی جاتی ہے ،کوئی فصیح و بلیغ خطیب بننے کی اہلیت رکھتا ہے۔کوئی اچھا طبیب بننے کی استعداد رکھتا ہے تو کسی میں لیڈر بننے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ہر انسان کسی ایک جیسی خوبی کا مالک نہیں ہوتاہر ایک کی اپنی انفرادی خصوصیات اور صلاحیتیں ہوتی ہیں۔یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ کسی بھی میدان میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر موجود خصوصیات یا صلاحیتوں سے آگاہ ہو۔انسان اپنی صلاحیتوں سے آگاہی حاصل کر کے کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔آج ہمارے معاشرے کے لوگوں کی ناکامی کا نصف سبب اپنی صلاحیتوں کی پہچان کے بغیر ہی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں وقت ضائع کرنا ہے۔ہمارے ملک کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کام کرنے والوں پر ذرا غور کیا جائے تو حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ بہت سے لوگ اپنی استعداد کے مخالف شعبے میں محنت کر رہے ہیں