گوادر پھر سے خبروں کی زینت بننے جارہا ہے۔ گوادر تو ہمیشہ سے خبروں کی زینت میں ہے۔ پھر ایسا کیا ہونے جارہا ہے کہ گوادر خبروں کی شہہ سرخیوں میں آرہا ہے؟۔ گوادر سنیٹر محمد اسحاق کرکٹ اسٹیڈیم کی جلوہ نمائی کے بعد اب بابائے استمان میر غوث بخش بزنجو فٹبال اسٹیڈیم کی خوبصورتی کے چرچے شروع ہوگئے ہیں۔ آج کل یہ فٹبال اسٹیڈیم اپنے سبزہ زار اور فلڈ لائٹس کی وجہ سے خبروں میں چھا جانے والا ہے۔
جنوری 2018 کی ٹھٹھرتی سردی میں پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور سے پچاس میل دور واقع شہر قصور میں سات سالہ زینب کے ساتھ پیش آنے والے ایک ہولناک واقعے نے پاکستانی عوام کے دل و دماغ منجمد کر دیئے۔ اس واقعے نے کمسن بچوں کے ساتھ ہونے والے جنسی استحصال سے متعلق قوانین اور حکومتی اداروں کی کارکردگی پر بحث کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔قصور کے رہائشی امین انصاری کی سات سالہ بیٹی زینب انصاری 4 جنوری 2018 کو گھر سے مدرسہ جاتے ہوئے لاپتہ ہوئی اور پھر پانچ دن بعد 9 جنوری کو اس کی نعش شہباز خان روڑ، قصور کے قریب کوڑے کے ایک ڈھیر سے ملی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ننھی زینب کو بد ترین جنسی زیادتی اور جسمانی تشدد کے بعد قتل کیا گیا تھا۔
چھاتی کا کینسر خواتین میں ایک مہلک اور جان لیوا بیماری ہے۔ کینسر میں مبتلاخواتین کا 44 فیصد چھاتی کے کینسر کے مریض ہیں۔ پاکستان میں ہر سال نوے ہزار نئے مریض رپورٹ ہوتے ہیں اور ان میں 50 فیصدجلد تشخیص نہ ہونے کی بنا موت کا شکار ہوتے ہیں ۔اگر تشخیص بر وقت ہو تو 98 فیصد مریض صحت یاب ہوجاتے ہیں۔پا کستان میں کینسر سے اموات کی شر ح ایشیاء میں سب سے زیادہ ہے۔اسکی وجوہات میں دیر سے تشخیص، آگاہی کا فقدان اور بیماری کا معیوب (taboo ) سمجھا جانا سرے فہرست ہیں۔اسکی ذمہ داری حکومت اور خاص کر محکمہ صحت پر عائد ہو تی ہے۔
بلوچستان میں یوریا کھاد کی ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کی وجہ سے کھاد کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ دوسری جانب کھاد کی افغانستان اسمگلنگ کے انکشاف نے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان چھوڑدیا۔ بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں کھاد کی مصنوعی قلت کے خلاف دھرنے اور احتجاج پھوٹ پڑے ہیں۔ انتظامیہ نے احتجاج کو روکنے کے لئے بعض علاقوں میں دفعہ 144 نافذ کردی ہے۔ سخت احتجاج کے بعد حکومتی ادارے حرکت میں آگئے۔
جس کسی نے فکشن کے متعلق یہ تصور بنا رکھا ہے کہ فکشن وقت گزاری اور وقت کا ضیاع ہے تو ’’دو نیم اپریل‘‘ اس کی اس تنگ نظری کو پاش پاش کرنے کی قوت رکھتی ہے بلکہ سوچ کا وہ دھارا فراہم کرتی ہے کہ کوئی بھی نان فکشن آپ کو یہ سب کچھ… Read more »
بی این پی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کا کہنا ہے کہ” وہ جام صاحب کو نکالنے کے ثواب میں شامل ضرور ہیں لیکن قدوس بزنجو کے لانے کے گناہ میں شامل نہیں۔” سردار صاحب نے یہ جملہ اپنے ایک حالیہ گفتگو کے دوران ادا کیا جس کی کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں غالباً سردار صاحب میڈیا کے نمائندوں کی جانب سے پوچھے گئے سوالوں کے جواب دے رہے ہیں۔
2018ء کے انتخابات میں ایک نئی سیاسی پارٹی’’ بلوچستان عوامی پارٹی‘‘ کے نام سے بنی اور اْس نے اندازوں سے بڑھ کر نشستیں بھی جیتیں۔جام کمال خان کی قیادت میں نہ صرف بلوچستان عوامی پارٹی قائم ودائم رہی ہے بلکہ صوبے میں اچھی حکمرانی کی بنیاد رکھنے میں بھی جام کمال کا نام سر فہرست ہے۔ سابق وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف بغاوت کا آغاز ان کے حلف اٹھاتے ہی ہو گیا تھا کیونکہ انہی کی پارٹی کے سپیکر قدوس بزنجو بھی وزارت اعلیٰ کے امیدوار تھے۔
جناح کو جس بات نے ایک چھوٹی مہا جر اقلیت کی زبان کی حمایت کر نے پر آمادہ کیا وہ ایک سیاسی فیصلہ تھا۔اور اسکا تعلق زبان سے زیادہ اقتدار سے تھا۔پا کستان اس بیانیے پر وجود میں آیا کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں ۔یہ بات منطقی تھی کہ بنیادی اہمیت اس عنصر کو دی جاتی جو اس بیانیئے کو سہارا دے۔یعنی مسلمان ثقافتی محور(arboratum of muslim culture. )۔ جسے اتر پردیش کے اجنبی مسلمان اشرافیہ نے اپنے اقتدارکے ارد گرد بچھا رکھا تھا۔بنگال کے بارے انکا خیال تھا کہ وہ اس نام نہادثقا فتی مر کز (Cultural main land ) سے دور ہے۔
یہ مضمون روز نامہ ڈان کے 22 -27 دسمبر2021 کے شمارے میں چھپا۔تاریخی اہمیت کے پیش نظر اسکا اردو ترجمہ قارئین کی خدمت میں حا ضر ہے۔مجاز حلقے بار بار اسکا اعادہ کرتے ہیں کہ مادری زبان اپنے بولنے والوں کو ایک منفرد اور مخصوص شناخت سے نوازتی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ زبان ایک طاقت ہے۔
بلوچ سماج تیزی سے ارتقائی عمل سے گزررہا ہے۔ معاشرتی اور ثقافتی ارتقاء نے بلوچ سماج کو ایک اہم اور مثبت موڑ پر لاکر کھڑا کیا ہے جس سے بلوچ سماج کا ڈھانچہ جدید سائنسی بنیادوں پر استوار ہوگیا ہے جس کی وجہ سے جدید نیشنلزم کا ابھار ہوا۔ بلوچ سیاست میں خواتین کی بھرپور شرکت نے مزید روشن خیالی اور ترقی پسندانہ سوچ کو فروغ دیا۔