|

وقتِ اشاعت :   January 29 – 2022

کسی زبان کو معیاری بنا نے کے معنی وہ عمل ہے جس سے اس زبان کے مر وجہ لہجوں کو مضبوط کیا جا تا ہے اور انہیں بر قرارکھا جا تا ہے ۔(Standardization of language is the process by which conventional forms of the language are established and maintained. )

معیار کا کام یا تو زبان کی قدرتی ترقی سے ہوجاتی ہے یا پھر اسکے بولنے والے دو، تین یا زیادہ لہجوں (dialects )کو ملا کر معیاری زبان کے طور پر لاگو کرتے ہیں۔ لہجہ زبان کی علاقائی قسم ہوتی ہے۔ ایک زبان میں کئی لہجے ایک فطری مظہر(natural phenomenon )ہے۔اور مختلف لہجوں کا مشترکہ نام زبان ہے۔انسانی خیالات اور تجربوں کو اگلی نسلوں تک پہنچانے اور بچوں کو اسکول میں پڑھا نے کے لیے لکھنے کی ضرورت ہوتی ہے جسے لکھنے کی زبان کہتے ہیں۔لکھنے کی زبان معیاری زبان ہی ہوتی ہے اورتمام لہجوں سے ملتی جلتی ہے لیکن کسی ایک لہجے سے مکمل تعلق نہیں رکھتی۔

برین سپونر(Brain Spooner ) کے مطابق، ’’ معیاری بلوچی تمام لہجوں سے ملکر بنتی ہے۔ایک لہجہ کی ترقی بلوچی زبان کی ترقی نہیں کہلائی جا سکتی۔‘‘ معیاری زبان ہر قوم کی مجبوری ہوتی ہے جسے لکھنے کی زبان کہتے ہیں۔معیاری زبان علمی ادبی اور تعلیمی زبان ہو تی ہے۔دراصل بلوچی لکھائی ہی قومی رشتوں کو ترتیب دیتی ہے اور یکسانیت (harmony ) کی ضامن ہو تی ہے۔معیاری بلوچی کیسے تر تیب دی جائے یہ ایک چیلنج ہے۔یہ کام بلوچ ادیبوں ،دانشوروں ،زبان زانت شخصیات اور بلوچی اکیڈمیز کی سر پرستی میں حل ہو سکتا ہے۔ محترم ڈاکٹر تاج بریسیگ نے اس مسئلے کے حل کے لئے ان چار پہلوؤں کی نشاندہی کی ہے
پہلا : لہجوں کا ادبی خزانہ

دوسرا : لہجوں کا جغرافیہ (geographical location of dialects) یعنی لہجوں کی آپس میں نزدیکی اور ملاپ ۔
تیسرا :کسی لہجے میں بات کرنے والوں کی تعداد اورانکے علاقے کی وسعت۔
چوتھا : ریاست اور اسکی سیاست۔کیو نکہ ریاستی اداروں کے پاس تعلیمی اداروں کی سر پرستی اور کنٹرول ہوتا ہے۔ہر دو زبا نوں یعنی لکھنے اور بات کرنے، کی ترقی مدارس کی تعلیم سے منسلک ہے۔
تھیم فارل کے مطابق، ’’معیاری زبان نہ تو لہجوں کو دھکیلتی ہے اور نہ انکی جگہ لے لیتی ہے۔ بلکہ وہ ان لہجوں کو اس طرح مکمل کر تی ہے کہ جن میدا نوں میں وہ خود پورا نہیں اتر تے انہیں پورا اتار تی ہے۔ معیاری زبان جب تعلیم میں استعمال ہو تی ہے وہ زبان کی سمت کو اس جانب متعین کرتی ہے جس جانب اسے جانا ہوتا ہے۔لہجے جو علمی ادبی خزانہ لاتی ہیں ان کے لیئے معیاری زبان میں کافی جگہ موجود ہوتی ہے۔بلوچی ایک ایسی زبان ہے جسے قدرت نے مختلف لہجوں اور متبادل لفظوں کے خزانوں سے نوازاہے۔یہ بڑی شرم کی بات ہوگی اگر ان خزانوں کو ضائع کیا جائے۔چاہے یہ زبان کی مضبو طی کے لئے کیوں نہ ہو، جو معیار سے آتی ہے۔‘‘

بلوچی زبان کے دو بڑے اور بنیادی لہجے مکرانی اور سلیمانی یا مغربی اور مشرقی ہیں۔دونوں کے ما بین براہوئی اور پشتو زبان کے علاقے پھیلے ہیں۔ مکرانی لہجے کو مزید ، رخشانی اور مکرانی یا شمالی اور جنوبی میں تقسیم کیا جا سکتاہے۔رخشانی اور مکرانی لہجے جغرا فیا ئی لحاظ سے آپس میں ملے ہوئے ہیں ۔سلیمانی لہجہ کو ئٹہ کے نزدیک کولپور سے لیکر دریائے سندھ اور شمال میں ڈیرہ اسمٰعیل خان سے لیکر جنو ب میںکراچی تک بولی جا تی ہے۔مشرق کی جانب سرائیکی اور سندھی زبا نیں بلوچی کو بری طرح چاٹ (erode )رہی ہیں ۔ یہ دونوں مار کیٹ کی زبانیں ہیں۔انگریزوں کے وقت کے مردم شماری میں سلیمانی بلوچی بولنے والوں کو مکرانی بلوچی بولنے والوں سے زیادہ بتایا گیا ہے ۔ گوکہ مغربی بلو چستان (ایرانی) اس مردم شماری میں شامل نہیں تھی۔1990-91 میں جب شہید نواب محمد اکبر خان بگٹی وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں نے بلوچی، براہوئی اور پشتو کوپا نچویں جماعت تک پڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ مکرانی اور سلیمانی لہجوں کو ملاکر ایک معیاری زبان کی بنیاد رکھی گئی۔اس کے لئے مدرجہ ذیل پانچ نئے حروف (نشان ) اپنائے گئے
(i ) فپ :ف اور پ کے لئے۔ جیسے لاف اور لاپ۔
(ii ) ت : ت اور ث کے لئے جیسے ماث اور مات ۔ (ت کے دو نکتوں کے نیچے ایک اور نکتہ)۔
(iii ) ذ : د اور ذ کے لئے جیسے واد اور واذ۔ (ذ کے نکتہ کے اوپر ایک اور نکتہ)
(v i ) ک : خ اور ک کے لئے۔ جیسے گنوخ اور گنوک ۔ ( خ کا سرا ک کے لڑے کے ساتھ لگا کر)
(v )ک : غ اور گ کے لئے ۔ جیسے ورغ اور ورگ ۔ ( غ کا سراک کے لڑے کے ساتھ لگا کر )
ان حروف کا فا ئدہ یہ ہے کہ لکھنے کی زبان ایک ہوگی اور الفاظ کی ادائیگی ہر کوئی اپنے لہجے میںکرے گا۔ اور دونوں لہجوں میں بات کرنے والوں کے لیے اسے اپنانا آسان ہے ۔ میرے خیال میں یہ حروف معیاری لکھائی کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ چھو ٹی بڑی تبدیلیوں کی گنجا ئش ہر وقت موجود رہتی ہے۔ اگر یہ نشان یا ایسی گنجا ئش کہ لکھنے کی زبان ایک ہو، نہ اپنا ئی گئی تو مستقبل میں دونوں لہجے دو الگ زبا نیں بن سکتی ہیں ۔ ڈیرہ غا زیخان کے اکثر لکھا ریوں نے اپسالا یونیورسٹی کے املا کو اپنا کر سلیمانی لہجے ( Sulemani Dialect ) میں لکھنا شروع کیا۔اپسا لا یونیورسٹی نے ،ح خ ص ض ط ظ ع غ اور ق کو ترک کیا۔انکی جگہ ملتی جلتی آوازوں کے دوسرے حروف استعمال کئے۔ایران ،افغانستان اور پاکستان میں اسکولوں میں بلوچی پڑھانے کے لیئے سیاسی ماحول اب تک موافق نہیں ۔اگر معیار کا فیصلہ ہو جائے تو آپس کی خط وکتابت، سو شل میڈیااور اکیڈمیز میں معیاری زبان کو استعمال کرکے زبان،کلچر،قو می یکجہتی اور قومی بقاکی کو ششوں کو تقویت دی جا سکتی ہے۔