بی این پی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کا کہنا ہے کہ” وہ جام صاحب کو نکالنے کے ثواب میں شامل ضرور ہیں لیکن قدوس بزنجو کے لانے کے گناہ میں شامل نہیں۔” سردار صاحب نے یہ جملہ اپنے ایک حالیہ گفتگو کے دوران ادا کیا جس کی کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں غالباً سردار صاحب میڈیا کے نمائندوں کی جانب سے پوچھے گئے سوالوں کے جواب دے رہے ہیں۔
2018ء کے انتخابات میں ایک نئی سیاسی پارٹی’’ بلوچستان عوامی پارٹی‘‘ کے نام سے بنی اور اْس نے اندازوں سے بڑھ کر نشستیں بھی جیتیں۔جام کمال خان کی قیادت میں نہ صرف بلوچستان عوامی پارٹی قائم ودائم رہی ہے بلکہ صوبے میں اچھی حکمرانی کی بنیاد رکھنے میں بھی جام کمال کا نام سر فہرست ہے۔ سابق وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف بغاوت کا آغاز ان کے حلف اٹھاتے ہی ہو گیا تھا کیونکہ انہی کی پارٹی کے سپیکر قدوس بزنجو بھی وزارت اعلیٰ کے امیدوار تھے۔
جناح کو جس بات نے ایک چھوٹی مہا جر اقلیت کی زبان کی حمایت کر نے پر آمادہ کیا وہ ایک سیاسی فیصلہ تھا۔اور اسکا تعلق زبان سے زیادہ اقتدار سے تھا۔پا کستان اس بیانیے پر وجود میں آیا کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں ۔یہ بات منطقی تھی کہ بنیادی اہمیت اس عنصر کو دی جاتی جو اس بیانیئے کو سہارا دے۔یعنی مسلمان ثقافتی محور(arboratum of muslim culture. )۔ جسے اتر پردیش کے اجنبی مسلمان اشرافیہ نے اپنے اقتدارکے ارد گرد بچھا رکھا تھا۔بنگال کے بارے انکا خیال تھا کہ وہ اس نام نہادثقا فتی مر کز (Cultural main land ) سے دور ہے۔
یہ مضمون روز نامہ ڈان کے 22 -27 دسمبر2021 کے شمارے میں چھپا۔تاریخی اہمیت کے پیش نظر اسکا اردو ترجمہ قارئین کی خدمت میں حا ضر ہے۔مجاز حلقے بار بار اسکا اعادہ کرتے ہیں کہ مادری زبان اپنے بولنے والوں کو ایک منفرد اور مخصوص شناخت سے نوازتی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ زبان ایک طاقت ہے۔
بلوچ سماج تیزی سے ارتقائی عمل سے گزررہا ہے۔ معاشرتی اور ثقافتی ارتقاء نے بلوچ سماج کو ایک اہم اور مثبت موڑ پر لاکر کھڑا کیا ہے جس سے بلوچ سماج کا ڈھانچہ جدید سائنسی بنیادوں پر استوار ہوگیا ہے جس کی وجہ سے جدید نیشنلزم کا ابھار ہوا۔ بلوچ سیاست میں خواتین کی بھرپور شرکت نے مزید روشن خیالی اور ترقی پسندانہ سوچ کو فروغ دیا۔
ہم عجیب قوم ہیں ، جب تک کوئی سانحہ نہ ہو جائے اور چند اموات نہ ہو جائیں ہم ہوش میں نہیں آتے۔ اور حکمران تو انسانی نسل سے لاتعلق اور انسانی صفات سے محروم محسوس ہوتے ہیں۔ ہم ہر سیزن کو انجوائے کرنا چاہتے ہیں۔لیکن ہر تہوار کو ہم مقتل بنا دیتے ہیں۔ حال ہی میں مری میں برف باری میں پھنس جانے اور بروقت مدد نہ ملنے کے باعث 21 افراد جاں بحق ہو گئے۔
تیاری عروج پر تھی اور سب پرجْوش تھے۔یہ گزشتہ مہینہ کی بات ہے جب ہم بی آر سی ( بلوچستان ریزیڈینشل کالج تربت ) کی طرف سے گوادر ٹوْر پر جارہے تھے اور “حق دو تحریک” ابتدئی مرحلے میں تھا۔ گوادر کو دیکھنے کے لیے ہمارے بہت سے دوست پرجوْش تھے کیونکہ آج تک انہوں نے صرف تصویروں اورو یڈیز ( Videos) میں گوادر کو دیکھا تھا۔کوئٹہ اور بلوچستان کے دوسرے علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبا مہرین ڈرائیو ( Road Drive Marine) کو دیکھنے کے لئے بہت بے چین تھے اور ان کا انتظار قابل دید تھا۔کیونکہ کوئٹہ والوں نے صرف وزیر اعلیٰ بلوچستان اور دوسرے وزراء کی ٹیوٹر ( Account Twitter) پر لگی ہوئی تصویریں اورویڈیوز دیکھ کر حیران رہ گئے تھے اور گوادر کو دبئی اور سنگاپور سمجھنے لگے تھے۔اسی دوران مجھے ایک کالم یاد آیا جو میں نے ماضی میں پڑھا تھا جس کا عنوان ” تصویر کا دوسرا رخ ” تھااور اسی طرح شاید میرے ان دوستوں کو تصویر کے دوسرے رخ کا پتہ نہیں تھا۔لیکن گوادر کے آغاز ہی سے میرے دوستوں کو گوادر کی دوسرے رخ کا پتہ چلا جب ان کو معلوم ہوا کہ حق دو تحریک کا احتجاجی دھرنا چل رہا ہے اور 4G سروس نیٹ ورک بند ہے۔
گوادر اس وقت ترقی کے افق پر نمودار شہر مانا جاتا ہے۔ یہ شہر سی پیک کا مرکز بھی ہے اور دنیا کے منفرد اہمیت کے حامل گہرے بندرگاہ کا شہر بھی ہے۔ گوادر بندرگاہ کی تکمیل کا منصوبہ پندرہ سال پہلے مکمل کیا گیا ہے۔ گوادر بندرگاہ کو رابطہ سڑکوں سے ملانے کے لئے ایکسپریس وے کا منصوبہ بھی قریب تر پہنچ چکا ہے اور سی پیک منصوبے کے تحت بہت سے منصوبے مکمل کئے جارہے ہیں۔
اس حکومت کے غیر ذمہ دارانہ اقدامات ،ناقص پالیسیوں اور بیڈ گورننس نے جہاں مہنگائی، کرپشن اور بے روزگاری کے باعث عام آدمی کا جینا دو بھر کیا ہوا ہے ،وہیں آئے روز اس حکومت کی ناقص حکمت عملیوں کی وجہ سے مختلف قسم کے سانحات کارونما ہونا اس حکومت کی نا اہلی کو مزید ثابت کر رہے ہیں۔
ایک بار پھر بلوچستان قدرتی آفات کی زد میں آگیا۔ بیشتر اضلاع میں سیلابی صورتحال سے نظام زندگی مفلوج ہوگئی ہے۔ بدقسمتی سے ہماری سرکار کے پاس قدرتی آفات سے نمٹنے کی کوئی پیشگی منصوبہ بندی نہیں ہوتی ۔ سیلاب اور طوفان سے بچاؤ سے متعلق کوئی بھی حکمت عملی نہیں اپنائی جاتی ، جس سے تباہ کاریاں زیادہ ہوتی ہیں۔ اور انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوجاتا ہے۔ خاندان کے خاندان سیلابی ریلے کی نذر ہوجاتے ہیں۔ حکومتی ادارے قدرتی آفات کے تاک میں ہوتے ہیں۔ ہلاکتوں اور املاک کے نقصانات کا تخمینہ لگایا جاتاہے۔