|

وقتِ اشاعت :   January 20 – 2022

جناح کو جس بات نے ایک چھوٹی مہا جر اقلیت کی زبان کی حمایت کر نے پر آمادہ کیا وہ ایک سیاسی فیصلہ تھا۔اور اسکا تعلق زبان سے زیادہ اقتدار سے تھا۔پا کستان اس بیانیے پر وجود میں آیا کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں ۔یہ بات منطقی تھی کہ بنیادی اہمیت اس عنصر کو دی جاتی جو اس بیانیئے کو سہارا دے۔یعنی مسلمان ثقافتی محور(arboratum of muslim culture. )۔ جسے اتر پردیش کے اجنبی مسلمان اشرافیہ نے اپنے اقتدارکے ارد گرد بچھا رکھا تھا۔بنگال کے بارے انکا خیال تھا کہ وہ اس نام نہادثقا فتی مر کز (Cultural main land ) سے دور ہے۔

انکا خیال تھا کہ بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت تو ہے لیکن وہ زبان ،فن اور پکوان سے لیکر مختلف ہندو ثقا فتی اثرات سے گڈمڈ (melange ) ہیں۔اتر پر دیش اور پنجاب کے حکمران ٹولے کو تشویش تھی کہ بنگالی سماج ایسے نظریاتی تصور کا وفادار نہیں ہوگا۔اور انہیں خوف تھا کہ جو مسلم مخصوصیت (muslim exclusivity ) کا تصور انہوں نے بن رکھا ہے بنگالی اسے رد کریں گے۔بنگالی مسلمان ہو نے کے باوجود اپنے مقامی طرز زندگی پر فخر محسوس کر تے تھے۔جناح کا اعلان بالکل غیرضر وری تھا۔اس نے پا کستان بننے کے بعدزمینی حقا ئق کو مد نظر نہیں رکھا۔اور اس کے اعلان نے نو مولود ریاست کو ایک بڑے خطرے سے دوچار کیا۔تقسیم سے قبل مسلم قومیت کا تصور مثالی تھا جس نے تحریک کو چلائے رکھا ۔

لیکن تقسیم کے بعد زمینی حقا ئق ہی حقیقی سیاست کا تعین کر سکتے تھے۔اگر صاف ذہن سے دیکھا جائے ، یہ علاقے جن سے مل کر پا کستان بناتا ریخی ارتقائی اکا ئیاں ہیں ۔ہر اکائی کا ایک مخصوص اور جدا ثقافت اور زبان ہے۔اگر چہ عقیدہ اہم ہے لیکن متحد کر نے والی واحد کڑی ہے۔مشترکہ عقیدے پر زیادہ زور دینا لازمی رد عمل دکھا تا ہے۔اور وہ رد عمل بہت تکلیف دہ ثابت ہوئی تھی۔ہماری لیڈرشپ تاریخی حقائق کی پیچیدگیوں کو سمجھنے میں ناکام ہوئی اور اسکی بھاری قیمت اداکرنی پڑی ۔

جب مغربی پا کستان کی ریاستی طاقت کے بے رحمانہ اقدامات کے با وجود بنگال میں زبان کی تحریک ختم نہ ہو سکی تو 1954میں بنگالی زبان کو اردو کے ساتھ قومی زبان تسلیم کیا گیا۔یہ بنگا لیوں کے لیئے ایک بڑی کا میابی تھی ۔جودونوں بازوؤں کے ما بین اقتدار کی توازن کے لئے جدو جہد کر رہے تھے۔اقتدار میں شرکت کا مسئلہ جسکا اظہار زبان کے تصادم سے کیا جا رہا تھاآخرکار بنگلہ دیش بننے پر منتج ہوا۔لیکن خانہ جنگی کے نتیجہ میں بہت بڑی جانی اور مالی تباہی ہوئی۔اسے ہم دوسری تقسیم کہہ سکتے ہیں ، جو ویسی ہی خونی اور گھناؤنا تھی جیسی کہ پہلی تقسیم۔

زبان کے تصادم کی ایک اور مثال ترکی کی ہے جو اپنی بے قابو سا مراجی تسلسل (uncontrollable imperialistic streak )سے کرد اقلیت پر ظلم ڈھا رہی ہے۔ترکی نے 1980 میں کردی زبان پرعوامی اور نجی زندگی میں پا بندی لگا کر کھلے عام اپنی غرور کا ظالمانہ مظاہرہ کیا اور کردی زبان بولنا ،لکھنا جرم قرار دیا۔ وہ لوگ جو ہمت کر کے کردی بولتے، لکھتے یا گاتے انہیں جیل بھیج دیا جا تا۔کردوں پر اس ظلم کا حقیقی مقصدترک طاقت کا مظاہرہ تھا ۔ تاکہ بہادر کردوں کے حوصلے پست کئے جا سکیں۔جنہوں نے ترکوں کی یکسا نیت (monolith ) کو ماننے سے انکار کیاتھا۔یہ سچ ہے کہ زبان اقتدار کے سیاست کی نما ئندہ(proxy ) ہے۔ایک گروہ کی دوسرے گروہ پر بالا دستی کی خواہش یا ایک گروہ کی دوسرے گروہ کی بالادستی کے خلاف مزا حمت، دونوںکے لیے زبان ایک آلہ (tool ) کی طرح کام کر تی ہے۔

دوسرے لفظوں میں زبان ایک نہ ختم ہونے والے غلبے کے خلاف کمزور کے لیے ایک ہتھیار ہے۔غلبہ کے دو اہم سیاسی اور ثقافتی پہلو ہیں۔انتو نیو گرامچی اٹلی کے ایک قابل ذکر مفکر اور نظریہ ساز تھے۔انہوں نے اپنے مشہور’’ ثقافتی تسلط ‘‘ کے نظریئے کا جیل سے اعلان کیااور بتا یا کہ کیسے حکمران اشرا فیہ، اقدار ، سماجی عادات اور کئی اوزار کا استعمال کر کے دنیا کے بارے اپنی سوچ کا صحیح تاثردیکر محکوم لوگوں پر اپنی بالا دستی قائم رکھتی ہے۔ اسطرح کی ثقافتی بر تری حکمران طبقے کی اپنی بنا ئی گئی اقتدار کے ڈھانچے پر اسکی مجموعی بر تری کو ظاہر کرتی ہے۔پا کستان میں تسلط اور سیاسی طاقت کا کھیل ثقافتی بالا دستی کے ذریعے پنجابی اشرافیہ کھیل رہی ہے۔

لیکن ایک فرق کے ساتھ۔ وہ ایک مستعار ثقافتی نقاب پہن کریہ کھیل کھیل رہی ہے۔اور نا سمجھی میں اسے اپنا چہرہ کہتی ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ وہ اپنی زیادہ آبادی اور ریاستی اداروں میں اکثریت کے سبب اقتدار پر مکمل قا بض ہو گیاہے۔اس نے مہاجر بر تری کی جگہ بھی سنبھال لی۔اس میں اسے کوئی مشکل پیش نہ آئی۔کیونکہ اس نے پہلے سے اتر پر دیش کی زبان اور ثقافت اپنا لی تھی جسے بر طانوی سا مراج نے 1849 میں پنجاب پر قبضہ کے بعدمسلط کیاتھا۔اردو زبان مسلط کر نے کے بعد پنجاب اپنی زبان ، کلچر اور تاریخ سے جدا(disconnect ) ہو گیا۔نو آبادیاتی ڈھانچہ نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے پنجاب میں اس بڑھتی بیگانگی کا فا ئدہ اٹھا یا۔لیکن تحریک پا کستان اور ریاست کے وجود میں آنے کے بعدیہ بیگانگی ایک نئے اوزار(tool ) میں بدل گئی۔

اس نے ما بعد نو آبادیاتی ریاست( post-colonial state)اور سامراج ایجنٹ اشرافیہ(comprador elite )کے مفادات کی خدمت ، عقیدہ اور قومی سالمیت کے نام پر کرنا شروع کی۔بہر حال ملکی سیاسی تاریخ بتا تی ہے کہ یہ ایک شاندار لیکن غلط آغاز ثا بت ہوا۔ کئی وجوہات کی بنا پرجن کا مکمل تجزیہ نہ کیا جا سکا پنجابی حکمران ٹولہ نوشتہ دیوار نہ دیکھ پایا۔وہ ثقافتی قوم دوستی کے بھیس میں طاقت کا کھیل سامنے لایا۔جسکا مقصد یکسا نیت (homogeniety )قائم کر نا تھا۔جو حقیقت میں اردو آئیزیشن یا یو پی آئیزیشن(Urduization or UP- ization ) ہی ہے۔اس کے خلاف دوسری قومیتوں نے جب ردعمل دکھا یا تو وہ اپنی ناسمجھی کی بنا پر حیران ہوا۔پنجابی اشرافیہ کا منطق ہے کہ انہوں نے پا کستان کی خاطر اپنی زبان اور ثقافت چھوڑدی دوسرے ایساکیوں نہیں کر تے؟ مخالفین کا موقف ہے : پا کستان ہماری زبان اور ثقافت کے تحفظ اور ترقی کے لیے وجود میں آیا نہ کہ انکی تباہی کے لیے۔دوسری قو میتوں کا کہنا ہے کہ پنجابی حکمران پا کستان کے علاقوں کی تاریخی تنوع (diversity ) کو تسلیم کریں۔تنوع کو رد کرنا اختلافات کو جنم دیگی جو کمزور ریاست پر ناقا بل برداشت بوجھ ڈالے گی۔

زبان کی سیاست وسیع تنا ظر میں اقتدار کے کھیل کا ایک گندا پیغام ہے۔طاقت کا استعمال اگرما سوائے طاقت کے کی جائے پھر بھی وہ طاقت کی اصلیت(nature of power ) کو کم نہیں کرتی۔ اسطرح کی طاقت یقینی طور پر زیادہ گمراہ یا کج رو (deceptive or deflective ) بن جا تی ہے۔زبان کی سیاست کا معروضی مطالعہ اور تجزیہ کے لیے ہمیں اسے طاقت کے وسیع ڈھانچہ میں دیکھنا چا ہیے۔جس کے ساتھ وہ نا میاتی طور پر منسلک ہے۔ہمیں نہیں بھولنا چا ہیے کہ طاقت کے رشتے جو طاقت کے سانچے ہی سے برآمد ہوتے ہیں متعلقہ ہر ایک کے عمل کو بیان کرتے اورتعین کر تے ہیں۔
زبان کا مسئلہ زبان سے زیادہ ہے۔جیسا کہ تھار سٹین ویبلن (Thorstein Veblen ) اپنی کتاب ’’بالائی طبقہ کا نظریہ‘‘ (The theory of the leisure class. )میں ہمیں بتا تا ہے ۔ بالائی طبقے کے شریف آدمی کی چھڑی چلنے میں مدد دینے سے زیادہ اسکی طاقت کا غماز ہے۔(An upper class gentlemans walking stick is more than an aid of walking; it exhibits his power. )اور یہی حال زبان کا ہے زبان بات کرنے سے زیادہ طاقت کی سیاست کا اظہار کرتی ہے۔ختم۔