اس حکومت کے غیر ذمہ دارانہ اقدامات ،ناقص پالیسیوں اور بیڈ گورننس نے جہاں مہنگائی، کرپشن اور بے روزگاری کے باعث عام آدمی کا جینا دو بھر کیا ہوا ہے ،وہیں آئے روز اس حکومت کی ناقص حکمت عملیوں کی وجہ سے مختلف قسم کے سانحات کارونما ہونا اس حکومت کی نا اہلی کو مزید ثابت کر رہے ہیں۔
ایک بار پھر بلوچستان قدرتی آفات کی زد میں آگیا۔ بیشتر اضلاع میں سیلابی صورتحال سے نظام زندگی مفلوج ہوگئی ہے۔ بدقسمتی سے ہماری سرکار کے پاس قدرتی آفات سے نمٹنے کی کوئی پیشگی منصوبہ بندی نہیں ہوتی ۔ سیلاب اور طوفان سے بچاؤ سے متعلق کوئی بھی حکمت عملی نہیں اپنائی جاتی ، جس سے تباہ کاریاں زیادہ ہوتی ہیں۔ اور انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوجاتا ہے۔ خاندان کے خاندان سیلابی ریلے کی نذر ہوجاتے ہیں۔ حکومتی ادارے قدرتی آفات کے تاک میں ہوتے ہیں۔ ہلاکتوں اور املاک کے نقصانات کا تخمینہ لگایا جاتاہے۔
منشیات ہمارے نسلوں تک میں پھیل چکی ہے۔ جوان، بچے، بوڑھے اب حتیٰ کہ خواتین بھی اس لت میں تیزی سے مبتلا ہورہی ہیں۔کافی تعداد میں گٹر ندی نالوں میں پٹے اور گندے کپڑے پہنے منشیات کے عادی لوگ اس ٹھٹھرتی سردی میں مدہوش پڑے ہوتے ہیں۔ ان میل کچیل سے بھرپور لوگوں کے علاوہ اب ہمارے سفیدپوش تازہ دم خوبرو نوجوان بھی بڑی تعداد میں اس لت میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں۔
ہمارے رقیب جس قدر شاطر ہیں اْس سے ہزار گناہ ہم بے وقوف ہیںَ یہ بات طے ہے کہ دشمن نے جو چال چلی ہے وہ تیغ وتلوار سے کئی گناہ زیادہ خطرناک ہے عنقریب دشمن کی اس چال سے ہماری تعلیمی نظام سے اٹھتا ہوا دھواں ا س قوم کو تباہی کی طرف لے جانے والی ہے اور سب سے بڑھ کر افسردگی کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہم خود کررہے ہیں ہمارا تعلیمی نظام ہمارے ہی ہاتھوں تباہ ہورہا ہے۔
ازل سے یہی ہوتا آرہا ہے ہر دور کا صاحب اقتدار عوام کے تحفظات کو دور کرنے میں ناکام رہا ہے۔
کیونکہ جو لوگ اقتدار میں آتے ہیں وہ نا اہل اور صلاحیتوں سے خام ہیں اس متعلق مولانا عبید اللہ سندھی رحمتہ علیہ فرماتے ہیں کہ۔جس میں جتنی اہلیت اورصلاحیت ہو اسکو اسکی اہلیت و صلاحیت کے مطابق ذمہ داری دی جائے۔
پیپلزپارٹی کے سابقہ دور حکومت میں ملک کے جمہوریت پسند قوتوں نے صوبوں اور ملکی اکائیوں کو خود مختیاری یعنی زیادہ اختیارات دینے والا بل قومی اسمبلی وسینٹ سے پاس کرکے 18 ویںترمیم کی صورت میں ایک بااختیار اور آئینی حوالے سے صوبوں کو ان کے وسائل وساحل کا حق ملکیت اور اختیارات تفویض کر دیا۔ اس طرح اٹھارویں ترمیم سے قبل بہت سے وفاقی محکمے جو مرکزکے پاس تھے وہ سب صوبوں کے حوالے کر دیئے گئے۔
بلوچستان کے وسائل کو لوٹنے کا سلسلہ نہ نیا ہے اور نہ ہی قابل فہم، پاکستان ایک وفاق ہے جس کے استحکام کیلئے ہم آہنگی اور اتفاق کو برقرار رکھا جانا ضروری ہے۔ قوموں کے احساسِ محرومی کو دور کرکے مطمئن اور آسودہ رکھ کر ہی وفاق کو محفوظ و مستحکم بنایا جاسکتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ آئے روزوفاق نت نئے طریقوں سے بلوچستان کے مسائل کولوٹنے کی تگ و دو میں رہتا ہے۔
گوادر کو حق دو تحریک سے بلوچستان کو حق دو کے دھرنے سے شہرت پانے والے مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے گزشتہ روزکراچی پریس کلب کا دورہ کیا، انھوں نے میٹ دی پریس سے خطاب کیا اور بعد ازاں کراچی پریس کے بلوچ صحافیوں سے ملاقات کی اور بلوچستان کو حق دو تحریک کے مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔
اسلام آباد کی سرکار بلوچستان کی معدنیات کا سودا کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ قانونی و آئینی طور پر محکمہ معدنیات ایک صوبائی معاملہ ہے۔ جس کا فیصلہ صرف بلوچستان حکومت کرسکتی ہے۔ وفاقی حکومت بلوچستان سے نکلنے والی معدنیات کسی بھی ملکی یا غیر ملکی کمپنی کے حوالے نہیں کرسکتی۔
ملک میںبلوچستان پسماندگی اور عدم ترقی کے حوالے سے یقینا مشہور و معروف ہے جہاں سالانہ اربوں روپے ترقیاتی منصوبوں یا نام نہاد عوامی ترقی پر خرچ ہوتے آ رہے ہیں تاہم نہ تو عوام ان اربوں روپے کی ترقیاتی منصوبوں سے مستفید ہو رہے ہیں اور نہ ہی بلوچستان کے طول و عرض میں ان اربوں روپے کی مد میں ہونے والی ترقی عام وخاص کو نظر آ رہی ہے۔ بلوچستان ستر سالوں میں جتنی ترقی اور خوشحالی کاغذوں میں کی ہے شاید ہی پاکستان کے کسی دوسرے صوبے نے کی ہو۔