گوادر شہر کا مغربی ساحل مقامی کشتی ساز مزدوروں کا قدرتی صنعتی زون ہے۔ جہاں صدیوں سے ان کے آباؤ اجداد کشتی سازی کے پیشے سے وابستہ رہے ہیں مگر اب یہ کشتی ساز مزدور اپنے روزگار اور مقام کے مستقبل سے متعلق پریشان ہیں۔ کشتی سازوں کو مقامی لوگ ‘‘واڑو’’ کہتے ہیں۔
عزیز سنگھور کی تحریریں جاندار بھی ہیں اور جانبدار بھی مگر حقائق کی جانبداری اور مظلوموں کے حمایت مں حال ہی ان کی مضامین پر مشتمل ایک کتاب ’’سلگتا بلوچستان ‘‘شائع ہوئی ہے۔ بلوچستان کی حقیقی تصویر اور صورت حال کتاب میں مذکورہ ہے۔ کتاب کی ابتدائی مضامین سے لے کر اشاعت تک اہم اور بنیادی کردار بلوچستان کے مشہور پسندیدہ جریدہ‘‘ روزنامہ آزادی‘‘ کی ہے کہ جس کی لانچنگ پیڈ سے یہ حقائق لانچ ہو کر بلوچستان کی حاکمیت اور حاکم و محکوم کی حالت و حیثیت کو متلاطم کر چکے ہیں ۔
بچے کی خاطر ماں کے دودھ کی اہمیت مسلم ہے۔ یو نیسف نے برسوں کی تحقیق ، مشاورت اور تجربات کے بعد یہ حقیقت سامنے لائی کہ ’’ بچے کے لئے ماں کا دودھ سب سے اچھی غذاہے ‘‘۔امریکہ ،یورپ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں 84 فیصد مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں ۔لیکن پسماندہ ممالک جیسے پاکستان ، انڈیا ،بنگلہ دیش میں صرف 18 فیصد مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں ۔دوسری مائیں بچوں کو ڈبے (جو گائے کا ہی دودھ ہے) یا بکری،گائے،بھینس کادودھ پلاتی ہیں۔
بلوچستان بانجھ نہیں ہے قومی مزاحمتی تحریک کے حوالے سے یہ ایک زرخیز خطہ ہے بلوچ قومی مزاحمتی تحریک بہت پرانی ہے آج کی بات نہیں ہے۔ گل زمین بلوچستان نے جب بھی پکارا تو اس کے باسیوں نے سر بہ کف بچوں بوڑھوں جوانوں خواتین نے نہ صرف اس آواز پر لبیک کہا بلکہ عملی صورت میں وہ کرکے دکھایا جو ہمیشہ سے تاریخ کے صفحات پر کنندہ ہیں۔
ویسے تو ملک کے مختلف صوبوں اور شہروں سے کافی سکینڈلز سامنے آتے رہے ہیں مگر کوئٹہ میں ہونے والا یہ سب سے بڑا سکینڈل ہے ۔اس سے قبل بھی بلوچستان یونیورسٹی کا سکینڈل پیش آیامگر افسوس کہ اس معاملے کو دبادیاگیا اور ملوث مجرموں کو قانون کی گرفت سے آزاد کرایا گیا۔
جیسا کہ نام سے ظاہر ہوتا ہے بلوچستان کے عوام کے دلوں میں ایک ایسی آگ سلگ رہی ہے جس کو نہ بجھایا گیا تو لاوا بن کر پورے خطے کو لپیٹ میں لے سکتا ہے ۔ کتاب کے مصنف عزیز سنگھور جو خود ایک پیشہ ور صحافی ہیں انھوں نے اس کتاب کو ان قلم کاروں کے نام کیا ہے جنھوں نے پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے دوران جام شہادت نوش کیا۔
مکران کی ساحلی پٹی پر عوام کے احتجاج اور دھرنوں کے تسلسل نے نہ صرف اسلام آباد بلکہ بیجنگ کی سرکار کے بھی ہوش اڑادیئے ہیں۔ بیجنگ کے حکمرانوں نے پہلی بار بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر غلط بیانی کا سہارا لیا۔ چینی وزیرخارجہ کے ترجمان کے مطابق گوادر میں چائنیز ٹرالنگ کے خلاف کوئی احتجاج نہیں کیا گیا۔
یہ کامیاب ریلی بلوچ قوم پرست رہنما یوسف مستی خان کی قربانی کا ثمر ہے۔قوم پرست رہنما یوسف مستی خان کی عاجزی نے گوادر دھرنے کو طاقت سے بھرپور ایک نئی تازگی بخشی ہے، مستی خان کی گرفتاری نے اس کارواں کو منزل کے اور زیادہ نزدیک کر دیا،اس نے اپنی بہادری سے یہ ثابت کر دیا کہ کینسر جیسے موذی مرض کے باوجود وہ بلوچستان کے دکھ میں کٹ مرنے کو تیار ہے۔دھرنے پہ ہزاروں کی تعداد میں پولیس گردی نے آج کی ریلی میں آکسیجن کا کام کیا ہے، یہی پولیس جو کل شام لاٹھی اور بندوق لے کر کھڑی تھی آج ریلی میں شرکت کرنے کیلئے دھرنا گاہ میں بیٹھ چکی ہے۔
ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا کہ کوئی قدآور سیاسی و قبائلی رہنما پاکستانی سیاست سے بددل ہوکر سیاست کو ہمیشہ کے لئے خیرآباد کرنے کا سوچ رہا ہو بلکہ پاکستانی سیاست کی بھول بھلیوں میں گم ہوکر سیاست سے بددلی کا راستہ تلاش کرنے والے ایک سے زائد موجود ہیں۔ مشہور و معروف کالم نگار تجزیہ کار سابق فوجی افسر اور روس میں پاکستان کے سفیر رہنے والے چکوال کے بے باک انسان ایاز امیر کئی سال پہلے پاکستانی سیاست کو خیرآباد کر چکے ہیں وہ دو مرتبہ مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ جیکب آباد سندھ سے تعلق رکھنے والے مشہور و معروف سیاسی رہنما الہیٰ بخش سومرو نے آخری مرتبہ دو ہزار دو کے انتخابات میں حصہ لیا تھا وہ تین مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔