بلوچستان خصوصاًمکران میں مذہبی جماعتوں میں بلوچ قوم پرستی کے عنصرنے بلوچ تحریک کومزید مستحکم ومضبوط کیاہے۔ دراصل مذہبی جماعتوں کی حالیہ پالیسیوں میں بلوچ نیشنل ازم کی عکاسی ہوتی ہے۔ مرکزیت (اسلام آباد) کی مضبوطی کی بجائے وہ صوبائی خودمختاری کی بات کررہی ہیں۔ بلوچستان کے ساحل و وسائل پر بلوچ حکمرانی کا مطالبہ کررہی ہیں جس کی وجہ سے یہ جماعتیں عام بلوچ کو اپنی طرف متوجہ کررہی ہیں۔ حالانکہ ان جماعتوں کی مرکزی پالیسیاں قوم پرستانہ نہیں ہیں۔
’’ بلوچ جدگال ریاست‘‘ کی آخری والی (سربراہ) ’’ مائی چاہ گلی‘‘ نے بلوچ معاشرے میں ایک نئی روح پھونک دی۔ مردانہ سماج کے ڈھانچے میں ایک عورت کی سربراہی نے سماج میں خواتین کے مساوی حقوق کی بنیاد ڈالی۔ فرسودہ رسم اور رواج کی روایت کا خاتمہ ہوا۔ اس طرح بلوچ معاشرے میں ایک ترقی پسندانہ معاشرے نے جنم لیا جس کو بلوچ معاشرے نے بھی قبو ل کرلیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے کبھی بھی آمر مطلق کے آگے سر نہیں جھکایا ،عوام کے حقوق پر کبھی سودا بازی نہیں کی۔ قوم و ملک کے وسیع تر مفاد میں کبھی بھی کسی دنیاوی سپر طاقت سے ڈکٹیشن نہیں لی ملک کو ایٹمی قوت بنانے کے لیے قومی مفاد کو ترجیح دی۔ امریکا روس فرانس برطانیہ کا دباؤ قبول نہیں کیا۔ کشمیر کے مسئلے پر کشمیری لیڈر شپ کو ساتھ لے کر بھارتی قیادت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہمیشہ بات کی ۔کبھی کسی امریکی صدر کے ٹیلیفون کا انتظار نہیں کیا۔
پون صدی تک پہنچتے پہنچتے ہمارے اسٹیبلشمنٹ کی نفسیات میں یہ بات مسلم رہی کہ پاکستان کو اگر عوام کے ہاتھوں میں دیا جائے تو پتہ نہیں اس کاکوئی انجام ہوگا، یہی احساس سبب بن گیا ہے کہ عوام الناس یہی سمجھیں کہ اس ملک کے حال و مستقبل میں اس کا کوئی حصہ نہیں… Read more »
بلوچستان میں آئے روز اپنی نوعیت سے بڑھ کر ایک نیا سانحہ رونما ہوتا ہے۔ ہر نئی دن بلوچستان کیلئے غم سے بھرپور گزرتا ہے۔ آئے روز بزرگ، جوان، بچے اور خواتین کو موت کی منہ میں دھکیلا جاتا ہے۔ ہر دن پرآشوب خون سے لت پت ہوتا ہے۔ موت کا رقص بلوچستان کے شہر وں،گلی کوچوں اور دیہاتوں میں جاری ہے۔ اندھی سیدھی گولیوں اور معلوم نامعلوم افراد کے ہاتھوں روزانہ نہتے معصوم بچے خواتین نوجوان قتل ہورہے ہیں۔ اہل بلوچستان اپنے تحفظ اور بقاء کیلئے چیخ چیخ کر پکار رہے ہوتے ہیں مگر سنگ دل حکمرانوں کے دل میں ذرا بھی ترس نہیں آتا۔ حکمران اپنے مفادات اور مراعات کی جنگ میں اس قدر مست و مگن ہیں کہ انہیں اب لاشوں سے بھی بلیک میلنگ کی بو آتی ہے۔
زندگی میں بعض کالم ، مضامین لکھنے سے قبل جذباتی کیفیت بے قابو ہوئی، تاہم یہ مواقع بہت کم پیش آئے۔ جب آپ کے جذبات آپے سے باہر ہوں گے تو غلطیاں ،کوتاہیاں ہونے کے مواقع امڈ آتے ہیں۔ تاہم صورت حال ایسی بھی پیدا ہوجاتی ہے کہ انسان جذباتی کیفیت میں اپنی زندگی کی سنہری یادوں کو سمیٹ لیتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسی کیفیت میںبعض خوبصورت شخصیات کی پیارو محبت کی عکاسی شاندارانداز میں کرجاتا ہے۔ بہر حال جونہی حقیقی محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رحلت کی خبر آنکھوں کے سامنے آئی، سارے اوسان خطا ہوگئے۔ محسن پاکستان کے ساتھ حقیقی کا لفظ اضافہ اپنے پورے ادراک سے کررہا ہوں۔ اگر ان کو محسن ملت بھی کہا جائے تو صادر آئے گا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان قوم و ملت کے دل و دماغ پر حکمرانی کرنے والے محسن ہیں۔
بلوچستان کی خواتین نے صنفی برابری، حقوق نسواں اور یکساں مواقع کی فراہمی کے لیئے ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کی ہے لیکن صوبے کی تاریخ میں پہلی بار بلوچستان کی خواتین اراکین اسمبلی نے وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان عالیانی کی رہنمائی، سرپرستی اور باہمی مشاورت سے نہ صرف ترقی نسواں بلکہ بچوں اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے صوبے کی روایات اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے موثر قانون سازی کا فریضہ سر انجام دیا ہے۔
ضلع کیچ ابھی تک تاج بی بی اور رامز خلیل کے قتل کے غم میں مبتلا تھا کہ کیچ کے علاقے ہوشاب میں دو معصوم بچے مارٹرگولہ کے فائر سے جان بحق ہوگئے۔ مارٹرگولے کی فائرنگ سے 7 سالہ اللہ بخش ولد عبدالواحد اور 5 سالہ بچی شرارتوں بنت عبدالواحد موقع پرجاں بحق ہوگئے۔ جبکہ مارٹر کی زد میں آکرایک بچہ مسکان ولد وزیر شدید زخمی ہوا۔ جاں بحق بچوں کی میتیں لے کرلواحقین نے تربت شہر کے مصروف ترین علاقہ شہید فدا چوک پر دھرنا دے دیا۔
پاکستان کے قیام کو 74 سال گزر گئے اس عرصہ میں جو بھی حکمران آیا وہ قوم کو ترقی و خوشحالی کے سبز باغ دکھا کر کے چلا گیا۔حکمران طبقے کی حالت کو بدل گئی لیکن قوم کی حالت مزید خراب ہوئی۔ آج سے 74 سال پہلے متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی ایک ریگستان کا منظر پیش کرتا تھا مگر وہاں کے حکمرانوں نے ایک میگا ترقیاتی پلان بنا کر اس پر عمل کرکے دبئی کو پوری دنیا کے لوگوں کا مسکن بنا دیا۔آج دنیا کے بعض ترقی یافتی ممالک میں وہ سہولتیں دستیاب نہیں ہیں جو دبئی میں موجود ہیں۔
بلوچستان کے ضلع بارکھان میں گیس کی دریافت کے بعد خوشی کی لہر غم میں تبدیل ہوگئی۔ ایک منصوبے کے تحت گیس فیلڈ میں غیر مقامی افراد کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ مقامی افراد کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی حکمت عملی پر عمل کیا جارہا ہے۔ حکومت نوآبادیاتی دور کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔