عبدالخالق رند |لالہ صحافت۔ لالہ صدیق بلوچ

| وقتِ اشاعت :  


انتہائی کٹھن حالات ، وسائل کی کمی ، مشکل صورتحال میں کس طرح پرسکوں رہ کر کام کرنا ، فرائض انجام دینا اور جرات و بیباکی سے سچ عوام تک پہنچانا ہے یہ فن اگر کسی نوجوان صحافی یا مستقبل میں صحافت کے میدان کا انتخاب کرنے والے کسی نوجوان نے سیکھنا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ لالہ صدیق بلوچ کی زندگی کا بغور مطالعہ کرے ، مشکلات اور ناموافق حالات کی باتیں کرنے والے صحافی اگر اپنی زندگی میں ہی صحافت کے شعبے میں لیجنڈ کا درجہ رکھنے والے لالہ صدیق بلوچ کی جدوجہد سے آگاہی حاصل کرلیں تو پھر شاید ان کے لئے اپنے فرائض کی تکمیل کے لئے کسی بھی مشکل کی پراوا نہ کرتے ہوئے آگئے بڑھنا ہی مقصد ہوگا۔



ریاض سہیل | میرے چچا ،میرے کامریڈ

| وقتِ اشاعت :  


یہ 1994 کی بات ہے جب میرے والد سہیل سانگی نے سندھی زبان میں ہفت روزہ “آرسی” کا اجراء کیا تھا، یہ سندھی کا پہلا نیوز میگزین تھا۔ ان کے ہمراہ ان کے دیرینہ دوست بشیر ملاح بھی تھے جو میر غوث بخش بزنجو کے ساتھ سیاسی سفر کرچکے تھے، میں نے ابھی صحافت کا کوئی باضابطہ سفر شروع نہیں کیا تھا لیکن اس میگزین کے کچھ انتظامی امور میں دلچسپی لینا شروع کی تھی۔ جب بات آئی کہ بلوچستان کی صورتحال پر کون لکھے گا، تو والد نے بتایا کہ اپنا کامریڈ صدیق بلوچ ہے نا کوئٹہ میں، وہ لکھیں گے۔



محمودخان ابڑو | ماما صدیق… صوفی منش انسان !! زندگی کی آخری سانسوں تک سچ لکھنے کو ترجیح دی

| وقتِ اشاعت :  


حقیقی فلسفہ حیات یہی ہے کہ موت صرف جسم کی ہوتی ہے۔ روح اور کردار کی موت ہرگز نہیں ہوتی۔ روح اپنے اصل مقام جا کر پہنچتی ہے اور کرداراس جہان رنگ وبو میں بسنے والوں کے لئے ایک مشعل راہ ہوتا ہے۔اسی طرح ایک مشعل نما شخصیت بلوچستان کی سیاست اور صحافت میں ایک بڑا نام ماما صدیق کا ہے۔ وہ ایک صوفی منش ،غریب پرور ، محنت کش اور ہر دلعزیز شخصیت کے مالک تھے۔ماما صدیق ایک ایسا باکمال کردار تھے کہ زندگی کے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کے ساتھ ان کا رویہ اسی طرز کاہوتا تھا۔ وہ اپنی شخصیت میں ہر فن مولا تھے ، تبھی تو میں نے انہیںایک صوفی منش انسان کہا ہے۔



عزیز سنگھور |صدیق بلوچ، ایک عہد تمام ہوا

| وقتِ اشاعت :  


سینئر صحافی اور سیاسی، معاشی اور اقتصادی امور کے ماہر صدیق بلوچ کی شخصیت اور صحافتی زندگی کا احاطہ چند الفاظ میں کرنا ممکن نہیں ہے۔ وہ پوری زندگی آزادی صحافت کا درس دیتے رہے۔ اْنہوں نے اپنے نظریات اور اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، آخری دم تک اپنے نظریات پر سختی سے ڈٹے رہے۔ وہ انتہائی کٹھن حالات کا مستقل مزاجی سے مقابلہ کرتے رہے۔ جب انہوں سیاست کا آغاز کیا تو انہوں نے قیدوبندکی صعوبتوں اور اذیتوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔ وہ نہ کبھی ٹوٹے ،نہ جھکے، بلکہ اشرافیہ کے سامنے پہاڑ بن کر کھڑے رہے۔



میں، آپ اور ہم

| وقتِ اشاعت :  


یار ابھی اس سے کوئی بحث مت کرنا، خان صاحب کیفیت میں ہیں، سردار جی کے بارہ بج گئے کیا؟ لاہوریوں سے راستہ پوچھنے کی غلطی مت کرنا،گوشت کھانا کیوں چھوڑ دیا، ہندو ہوگئے ہو کیا؟ ہر بات پر عورتوں کی طرح ٹسوے نہ بہایا کرو، چوڑے، مچھر، کھٹمل، میراثی، کرانچی والے،را جا جی، الغرض ایک لمبی اور نہ ختم ہونے والی فہرست ہے جو کسی ایک طبقے، فرقے،ذات یا علاقے کو نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ ایسے کئی جملے ہم سب بچپن سے سنتے اور ان پر ہنستے آئے ہیں اور اپنی گفتگو میں بے محابا انکا استعمال بھی کرتے ہیں۔ہم میں سے شاید ہی کوئی ہو جو یہ دعویٰ کرسکے کہ اس نے آج تک کسی دوسری قوم، طبقے یا فرقے کے بارے میں اس قسم کے ٹیگ اور لیبل استعمال نہیں کئے ہیں۔



گوادر کرکٹ اسٹیڈیم کی جلوہ نمائی

| وقتِ اشاعت :  


کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مٹی کا یہ اسٹیڈیم ایک دن دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن جائے گا۔ لیکن حالیہ دنوں میں اپنے خوبصورت جغر افیائی محل و وقوع اور سبزہ کی وجہ سے گوادر کرکٹ اسٹیڈ یم کی جلوہ نمائی نے سوشل میڈ یا پر بڑی دھوم مچائی ہوئی ہے۔



عنوان:سوشل میڈیا کی مہربانی اور والدین کی لاپرواہی غلطی کس کی؟

| وقتِ اشاعت :  


سب سے پہلے میں سوشل میڈیا پر کچھ پوائنٹس رکھنا چاہتی ہوں جو کہ میری نظر میں بہت ضروری ہیں اور وہ یہ کہ سوشل میڈیا سے ہم کیا سیکھ رہے ہیں یا ہمارے بچے کیا سیکھ رہے ہیں ۔سوشل میڈیا پر روز نیوز ہوں یا ڈرامہ ہوں کیا دکھایا جا رہا ہے اور کیا دیکھ کر ہم سیکھ رہے ہیں اور ہمارے بچوں پر سب سے زیادہ اثر کیا ہو رہا ہے جب ہم چھوٹے تھے مجھے یاد ہے اس وقت دو چینل آتے تھے پی ٹی وی اور ایس ٹی این تب کے سوشل میڈیا میں اور آج کے سوشل میڈیا میں بہت زیادہ فرق ہے ہمارے وقت میں جو ڈرامے دیکھے جاتے تھے وہ پوری فیملی ساتھ بیٹھ کر دیکھتی تھی اور آج جو دکھا جا رہا ہے۔



ڈیڑھ لاکھ سے زائد آبادی کے حامل چھٹا بڑا شہر اور ڈویژنل ہیڈ کوارٹر، قبرستان سے محروم، ذمہ دار کون

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان میں شہری آبادی میں روز بروزاضافہ ہوتا جا رہا ہے شہروں میں آبادی کا سب سے بڑا سورس ذرائع آمدن کی سہولیات، روزگار کے وسیع مواقع اور حصول ذرائع معاش ہے۔ جہاں لوگ مختلف اقسام کے کاروبار سمیت محنت و مزدوری کرکے اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیں وہاں ان شہروں میں کاروبار تجارت روزگار کے ساتھ ساتھ مسائل کے بھی انبار لگتے جا رہے ہیں۔ بلوچستان ملک کا بلکہ پورے ایشیاء کا غریب ترین علاقہ ہے جہاں غربت کی شرح پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔



جعلی خبروں کا زہر

| وقتِ اشاعت :  


سیاسی و معاشی فوائد کے لیے جھوٹ اور افوائیں پھیلانا صدیوں کا آزمودہ حربہ ہے۔ 24صدیوں پہلے اسے ’’ارتھ شاستر‘‘ میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، اس کتاب کو ریاستی امور چلانے اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے آج بھی نصاب کا درجہ حاصل ہے۔ فتنہ و انتشار پھیلانے کے سبھی ہتھ کنڈے اس میں شامل ہیں اور اس اعتبار سے ارتھ شاستر کو ہائیبرڈ وار کی قدیم ترین کتاب قرار دیا جاسکتا ہے۔ مودی نے اس نصاب کو گھول کر پی رکھا ہے اور اسی لیے جھوٹ اور جعلی خبریں پھیلانے کو باقاعدہ فن بنا دیا ہے۔ ارتھ شاستر کا مصنف کوٹلیہ، جو چانکیہ کے نام سے معروف ہے۔



بیلہ شریف

| وقتِ اشاعت :  


بیلہ کے ساتھ شریف کا نام سن کا آپ کو یقین ہونا چاہیے کہ بیلہ واقعی شریف اور سادہ لوگوں کا علاقہ ہے،اتنا سادہ جتنا سادہ پان ہوتاہے،گوکہ تھوڑا چوناسا لگا ہوتاہے لیکن لگانے والا بھی پوچھ کر یا بتا کر لگاتا ہے،بالکل بیلہ کے لوگ بھی اس طرح ہی ہوتے ہیں،ہماری خوش قسمتی ہے کہ بیلہ کے حلقے سے منتخب جام کمال خان وزیر اعلیٰ بلوچستان کے منصب پر فائز ہیں اور پورے بلوچستان کے ترقیاتی عمل میں اپنا بھرپورکردار ادا کررہے ہیں،جام خاندان کی شان دیکھیں کہ پورا لسبیلہ ان سے بے پناہ محبت کرتاہے،اور جام صاحب کی محبت کا اندازہ لگائیں کہ اپنے ڈھائی سال کے دور حکومت میں صرف دو مرتبہ بیلہ کا دررہ کرچکے ہیں۔