پاکستان میں روز اول سے یہ منفی پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا ہے کہ بلوچستان میں سردار تعلیم اور ترقی کے خلاف ہیں۔ سرداروں کی وجہ سے بلوچستان میں تعلیم کا فقدان ہے۔ سردار تعلیم کے فروغ دینے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ دوسری جانب حکومت یہ کھوکھلے دعوے بھی کرتی رہی کہ حکومت چاہتی ہے کہ بلوچستان میں دودھ کی نہریں بہیں۔ تعلیم عام ہو۔ ہر غریب کا بچہ تعلیم یافتہ ہو وغیرہ وغیرہ کے جیسے نعرے لگاتے رہے۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں تمام سرداروں کو باکردار اور تعلیم دوست قرار دیاگیاکیونکہ تمام کے تمام نواب اور سردار پرویز مشرف کی حکومت کا حصہ تھے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی احتجاجی تحریک کا آغاز گوجرانوالہ اور کراچی کے بڑے اور کامیاب عوامی اجتماعات سے کر دیا گیا ہے۔ ابتدائی جلسوں میں عوام کی بڑی تعداد کی شرکت کو اپوزیشن اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے اور یہ دعویٰ بھی کر رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں کوئٹہ، پشاور، ملتان اور لاہور کے جلسوں میں بھی اسی طرح لوگوں کا ہجوم امڈ آئے گا اور موجودہ حکمرانوں کو دسمبر دیکھنا نصیب نہیں ہوگا۔ گوجرانوالہ جلسہ عام سے خطاب میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے موجودہ آرمی چیف کو تنقید کا نشانہ بنا کر ملکی سیاست میں ایک بھونچال پیدا کردیا ہے۔
وہ کہتے ہیں نا تعلق سے، دوستوں سے،انسان کی شخصیت کا اندازہ ہوتا ہے اور ہمارے معاشرے میں تو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے کہ کون کس خاندان سے ہے کس قبیلے سے ہے، کس کا کتنا قریبی تعلق ہے کتنا پرانا تعلق ہے اور کیسا تعلق ہے، کیسا رشتہ ہے، ماضی میں ایک دوسرے کے بارے میں کیسے کیسے خیالات کا اظہارہوتا رہاہے، اور اسی بنیاد پر مستقبل کو دیکھاجاتا ہے، حالات بھی بدلتے رہتے ہیں لیکن بنیاد کبھی نہیں بدلتی، اب اگر ہم پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے ماضی کو دیکھیں، ان کے تعلق کو دیکھیں اور کئی دہائیوں پر پھیلی ہوئی نفرتیں گنناشروع کریں تو کئی گھنٹے لگ جائیں گے۔
” بلوچستان جارہے ہو! پاگل ہو گئے ہو! کیوں یہ خطرہ مو ل لے ر ہے ہو!نہ جاؤ۔ جاؤ گے گا ڑی میں ا ور آؤ گے اخبار میں “۔ ا ن خدشات کا اظہار کچھ خیرخواہوں نے کیا جب اْن کوجواباً کہا کہ میں کوئی پہلی دفعہ نہیں جارہا تو جواب ملا کہ ” پہلے سرزمین میرے لیے ہمیشہ پْرکشش رہی ہے۔ اسکی وجہ یہاں یہا ں کے باسیوں کی مہمان نوا زی میں لپٹی محبت ا ور خلوص ہے۔ میں پہلے جب بھی بلوچستان گیا تو یہاں گزا رے گئے دنوں میں جو راحت ا ور رات کو میسر آنے والا سکون زندگی میں کہیں نہیں ملا۔یوں یہ تما م خدشات میرے سامنے ریزہ ریزہ ہوگئے ا ور میں نے رختِ سفر باندھ لیا۔
دنیا میں مختلف ادوار میں مختلف ایمپائرز (سلطنتوں) نے دنیا پر راج کیا۔ جن میں رومی، منگول، یونان، پرتگیز، برٹش وغیرہ شامل ہیں۔ ان سلطنت کے سلطانوں نے دنیا میں اپنی حاکمیت قائم کی ہوئی تھی۔ سلطنت کے اندر بہت سے عہدے ہوتے ہیں جن میں بادشاہ، ملکہ، وزیراعظم، وزیردفاع، خزانہ، وزیر افواج، وزیرتعلیم، باندھی، سپاہی اور دیگر بے شمار عہدے موجود ہوتے ہیں۔ لیکن سب سے بڑا عہدہ بادشاہ کا ہوتا ہے۔ہمارے خطے میں پرتگیز اور برطانوی راج تھا۔ پرتگیز دنیا کی تاریخ کی پہلی عالمی سلطنت تھی۔ جو جنوبی امریکا، افریقہ، ہندوستان اور جنوب مشرقی ایشیاء تک کے مختلف علاقوں پر قابض تھی۔
رائے عامہ میں یہ بات رفتہ رفتہ نظر انداز کردی گئی ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے پاکستانی معیشت کو کتنا نقصان پہنچایا۔ تحریک انصاف نے اس بارے میں حقائق آشکار کرنے میں تاخیر کی۔ یہ حکومت دیر سے ملک کے اقتصادی اور مالیاتی مسائل کی جانب متوجہ نہیں ہوئی اور دوسری جانب عالمی وباء نے عالمی معیشت کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ قیمتوں کی نگرانی کے نظام میں ہونے والی غفلت کے باعث مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ 2017-18میں جو شرح نمو 5اعشاریہ 6فی صد تھی وہ 2018-19میں 2اعشاریہ 4فی صد پر آگئی اور رواں مالی سال میں منفی 1اعشاریہ 5فی صد ہونے کی توقع ہے۔
بلوچستان کی قومی شاہراہوں پر گزشتہ چند سالوں کی متواترحادثات اور بیگناہ افراد کی اموات کی شرح کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ قومی شاہرائیں دراصل صوبے کے لئے خونی شاہرائیں بن چکی ہیں۔ قومی شاہراہیں جن میں کوئٹہ تا کراچی‘ کوئٹہ تا لورالائی ملتان‘ کوئٹہ تا ژوب ڈیرہ اسماعیل خان‘ کوئٹہ تاسبی جیکب آباد اور کوئٹہ تاتفتان کی شاہرائیں سنگل ہونے کی وجہ سے خونی شاہرائیں کہلائی جارہی ہیں۔کوئٹہ کراچی شاہراہ پر ٹریفک کی زیادتی کے باعث حادثات اور اس کے نتیجے میں انسانی جانوں کے ضیاع کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
گوادر شہر کا شمار پاکستان کی مشہور شہروں میں ہوتا ہے۔ اس شہر کو تین اطراف سے سمندر نے گھیرہوا ہے۔ اس شہر کی خوبصورتی اپنی مثال آپ ہے۔ یہ شہر خدا کی طرف سے ایک تحفہ ہے مگر افسوس کہ اس تحفہ کی قدر کسی کو نہیں ہے۔ گوادمیں دنیا کی سب سے بڑی اور گہری بندرگاہ موجود ہے۔ اس شہر پر بہت سارے ممالک کی نظریں ٹکی ہوئی ہیں کیونکہ آنے والے وقتوں میں یہ شہر بہت بڑا کاروباری اور تجارتی مرکز بن جائیگا۔۔ گوادر بندرگاہ کو بنے ہوئے کئی سال ہوچکے ہیں مگراب تک ملک کو کوئی بھی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ اس شہر کا دنیا بھر میں چرچا ہو رہا ہے۔
انسان اپنی قیمتی چیزوں کو حفاظت سے رکھتے ہیں اور اگر زیادہ قیمتی ہوں تو دوسروں کی نظروں سے بچا کر یا کسی کی زیر نگرانی رکھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو بھی بچپن سے ایک قیمتی چیز کی طرح پہرے میں رکھا جاتا ہے۔ وقت بدلنے کے ساتھ پہرے دار بدل جاتے ہیں۔ پہلے والدین اور پھر شوہر لیکن قیمتی اشیاء اپنی جگہ محفوظ رہتی ہیں۔چاہے مرد ہو یا عورت، دونوں انسان ہی پیدا ہوتے ہیں، مگر جنسی اعتبار سے مختلف ہونے کے باعث ایک کی رکھوالی کی جاتی ہے اور ایک رکھوالا بن جاتا ہے۔ سائنسی تحقیقات نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ فرق قدرت نے نہیں رکھا بلکہ مختلف معاشرے، مرد اور عورت کے سماجی کردار کے اعتبار سے ان کی پرورش کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو پہلے اچھی بیٹی اور بہن ہونے کے اصول سکھائے جاتے ہیں۔
ملک میں تیزی سے بڑھتی سیاسی محاذ آرائی پہلے سے موجود معاشی اور معاشرتی عدم استحکام کو نہ صرف مزید مہمیز کر سکتی ہے بلکہ ملک کو انتشار اور انارکی کے راستے پر گامزن کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔