سردی کی آمد،گیس بحران، عوام کی مشکلات حل کرنے کاکوئی فارمولہ نہیں

| وقتِ اشاعت :  


پاکستان میں جیسے جیسے سردی بڑھ رہی ہے گیس بھی نایاب ہوتی جا رہی ہے۔ملک کے بیشتر شہروں میں سردی میں اضافے کے ساتھ ہی گیس لوڈشیڈنگ شروع ہو گئی ہے جس کے باعث گھریلو صارفین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ کراچی، پشاور، کوئٹہ، حافظ آباد، گوجرانوالہ، ملتان، سکھر، میرپور خاص میں گیس کی قلت نے شہریوں کو آٹھ آٹھ آنسو رلا دیا ہے۔مہنگائی کے طوفان میں روز روز باہر کا کھانا بھی چیلنج بن گیا ہے جبکہ بلوچستان میں گھریلو صارفین دُہری اذیت کا شکار ہیں اور گرم چائے سے محروم شہری خون جماتی سردی میں گیس ہیٹر جلانے سے قاصر ہیں۔گھریلو صارفین کے علاوہ ملک کے مختلف صنعتی علاقوں میں بھی گیس کی قلت سے پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔



ملک میں معاشی بحران، عوام کیلئے خوشخبری ایک خواب

| وقتِ اشاعت :  


ملک میں مہنگائی کے اعداد وشمارمیںاضافہ ہوتاجارہا ہے اشیاء خورد ونوش سمیت دیگر چیزوں کی قیمتوں میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہورہا ہے شاید ہی کوئی ایسی چیز ہو جس کی قیمت کم ہوئی ہو، عام لوگوں کے لیے اب تو مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں اور صورتحال اس طرح دیکھنے کو مل رہی ہے کہ آئندہ مہنگائی مزید بڑھے گی، کوئی پالیسی نظر نہیں آرہی کہ مہنگائی پر قابو پایاجاسکے ۔بارہا یہی کہاجارہا ہے کہ عوام کو تسلیاں دی جارہی ہیں ناقص منصوبہ بندی اور پالیسیو ں کاملبہ ماضی کی حکومتوں کے گلے ڈال کر جان چھڑائی جارہی ہے مگر یہ پالیسی کب تک اس طرح جاری رہے گی۔



پارلیمان کی مضبوطی ہی چیلنجز کا حل ہے

| وقتِ اشاعت :  


گزشتہ تین سے چار سالوں کے دوران ملکی سیاست میں سب سے بڑی بحث اداروں کی سیاسی مداخلت پر رہی ہے اور یہ باتیں خود سیاسی جماعتیں ہی کرتی آرہی ہیں۔ انتخابات میں دھاندلی ، فیصلوں پر اثرانداز ہونے کا معاملہ ہو یا پھر خبروں اور تجزیوں میں ہر ادارے کو ہدف بناکر یہی کہا گیا کہ مخصوص ایجنڈے پر اور ڈکٹیشن کے ذریعے یہ سب کچھ ہورہاہے۔ بدقسمتی سے تمام سیاسی جماعتوں نے ہر وقت اپنے من پسند اورتعریف کے عمل کو ہی پسند کیا ہے چاہے حکومت ہو یا اپوزیشن اداروں کو نشانہ بناتے آئے ہیں یہی المیہ ہے کہ آج پارلیمان اس طرح مضبوط نہیں جس طرح سے ہونا چاہئے تھا ۔حکومتوں نے اپنے من پسند بلز کے ذریعے اپنے مفادات اور خواہشات کی تکمیل کو یقینی بنایا تاکہ ان کے لیے مستقبل میں بھی حکومتی ایوانوں تک رسائی کے راستے صاف ہوں ۔



ای وی ایم مشین،بلوچستان میں کس حد تک عمل ممکن ہوگا؟

| وقتِ اشاعت :  


وفاقی حکومت الیکٹرانک ووٹنگ مشین بل پاس کرنے میں کامیاب ہوگئی مگر ای وی ایم کا مستقبل کیا ہوگا،اس پر سوالات بہت اٹھائے جارہے ہیں کہ کس طرح سے اس کی شفافیت ممکن ہوگی، کیا ٹمپرنگ نہیں ہوگی ،اس کی گارنٹی کون دے گااور کس طرح سے پورے انتخابی عمل کو شفاف طریقے سے مکمل کیاجائے گاکیونکہ بعض ممالک میں ای وی ایم کے ذریعے انتخابات پر بہت زیادہ سوالات اٹھائے جاچکے ہیں دھاندلی کے الزامات بھی لگے ہیں یہ کہنا کہ مکمل طور پر اس میں شفافیت ہوگی توایسا نہیں ہے البتہ یہ پورے نظام کے اوپر منحصر ہے اور اس میں الیکشن کمیشن کا کلیدی کردار ہوگا ۔ دوسری جانب ملک کے ایسے حصے ہیں جہاں مواصلاتی نظام اور نیٹ تو موجود ہی نہیں ہے خاص کر بلوچستان کا بہت بڑاحصہ اس سہولت سے محروم ہے جس کی ایک مثال کورونا وباء کے دوران آن لائن امتحانات میں سامنے آیا۔



الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری، ای وی ایم کامستقبل آئندہ انتخابات پر منحصر

| وقتِ اشاعت :  


پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا،انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق مل گیا۔ اپوزیشن نے ہنگامہ آرائی کی، بل کی کاپیاں پھاڑ دیں اور ایوان سے واک آوٹ کیا۔وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان کی جانب سے انتخابی اصلاحات بل پیش کی گئی جسے کثرت رائے سے منظورکر لیا گیا، تحریک کے حق میں 221 جبکہ مخالفت میں 203 ووٹ آئے۔پیپلزپارٹی کی جانب سے ووٹوں کی گنتی پر اعتراض اٹھایا گیا جس پر اسپیکر نے دوبارہ گنتی کرائی، اس دوران ایوان میں شدید بدنظمی پیدا ہو گئی، اپوزیشن ارکان ،اسپیکر ڈائس کے سامنے اکٹھے ہو گئے اور نعرے بازی کرتے ہوئے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ایوان کا ماحول گرم ہوا تو سارجنٹ ایٹ آرمز نے وزیراعظم عمران خان کو اپنے حصار میں لے لیا،حکومتی ارکان وزیراعظم کے گرد جمع ہو گئے۔اپوزیشن ارکان نعرے بازی کرتے ہوئے ایوان سے چلے گئے اور حکومت نے مرحلہ وار بلز کی منظوری کا عمل جاری رکھا۔



حالیہ مہنگائی،ملاوٹی اشیاء کی فروخت کاخطرہ

| وقتِ اشاعت :  


ملک بھر میں حالیہ مہنگائی کے بعد ایک بڑا خدشہ یہ ہے کہ ملاوٹ مافیا خوردنی اشیاء کو عام مارکیٹ میں سستے داموں فروخت کرسکتے ہیں اور بڑے پیمانے پر اس کاروبار کو وسعت دینے کے لیے نیٹ ورک کا جال بچھاتے ہوئے پورے ملک میں اس کی سپلائی کرینگے یہ انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ثابت ہوگا ۔ایک طرف مہنگائی تو دوسری جانب عوام کی زندگیاں داؤ پر لگ جائیں گی کیونکہ عام لوگ اس مہنگائی کے دور میں سستی اشیاء خریدنے پر زیادہ زور دیتے ہیں تاکہ ان کے گھر کا چولہا دو وقت کم ازکم جل سکے ۔بدقسمتی سے مہنگائی پر قابو پانے کی بجائے آئے روز اشیاء خوردنی کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں اور کوئی ایسا میکنزم بھی دکھائی نہیں دے رہا کہ جلد مہنگائی پر قابو پالیاجائے گا۔



گوادرترقی کامرکز ومحور، وفاقی حکومت بڑے فیصلے کرے

| وقتِ اشاعت :  


سی پیک جو ملکی معیشت کا جھومر ہے اور بلوچستان اس کا مرکز ومحور ہے، گوادر ایک ایسے مقام پر واقع ہے جس کے سمندری اورخشک راستوں کے ذریعے دیگر ممالک سے تجارت بڑے پیمانے پر ہوسکتی ہے ۔بیسیوئوں بار یہ مثال دی جاچکی ہے کہ ایران پڑوسی ملک چابہار پورٹ کے ذریعے سینٹرل ایشیاء سے اربوں روپے ڈالر ماہاناکمارہا ہے، ریلوے ٹریک بچھاکر سینٹرل ایشیاء کے ممالک کے ساتھ کاروبار کو وسعت دے رہا ہے اوردیگر ممالک کے ساتھ بھی تجارتی سرگرمیوں کے حوالے سے کام کررہا ہے مگر اب تک گوادر میں اس طرح بڑے پیمانے پر کام نہیں ہوا ہے حالانکہ چابہار پورٹ کا فاصلہ دیگر ممالک کے ساتھ طویل ہے جبکہ گوادر بالکل ہی نزدیک پڑتا ہے باوجود اس کے کہ اہم منصوبوں پر تیزی کے ساتھ کام نہیں کیاجارہا ۔



قرضوں کابوجھ، وزیراعظم کی کابینہ کو احکامات، عوام ریلیف کے منتظر

| وقتِ اشاعت :  


پاکستان کے سرکاری قرضوں میں تین سال کے دوران 14 ہزار 906 ارب کا اضافہ ہوا اور مجموعی قرض 41 ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔وزارت خزانہ کی جانب سے ملک کے اندرونی وبیرونی قرضوں اور سود کی ادائیگی کی تفصیلات ایوان میں پیش کی گئیں، وزارت خزانہ کی ایوان بالا میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق حکومت قرضوں پر سود کی مد میں سات ہزار460ارب روپے ادا کر چکی ہے۔تحریری جواب میں بتایا گیا کہ تین سال کے دوران سود کی مد میں 50 فیصد ادائیگی کی گئی۔ موجودہ حکومت کے تین برسوں میں پاکستان کے اندرونی قرض میں 10 ہزار ارب کا اضافہ ہوا۔ جون 2018 میں ملک کے اندرونی قرض 16 ہزار ارب تھے۔اگست 2021 تک اندرونی قرض 26 ہزار ارب سے بڑھ گئے۔



بلوچستان کے غریب عوام کے ٹیکسزپر سرکاری اداروں کی عیاشیاں

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان میں گزشتہ چند دہائیوں کے دوران سرکاری محکموں کی گورننس کے ریکارڈطلب کرکے دیکھا جائے کہ ان محکموںنے کتنے احسن طریقے سے اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے صوبے اور عوام کی خدمت کی ہے۔ بمشکل چند ایک ہی محکمے شاید ایسے ہوں کہ ان کی کارکردگی قدرِ بہتر یا تسلی بخش ہو۔ یہ کہنا کہ بہت ہی عمدہ کام کرکے محکمے سے سرکار اور عوام کو فائدہ پہنچا یا گیا ہے اگر ایسا ہوتا توبلوچستان کے غریب عوام چھوٹے چھوٹے مسائل پر سڑکوں پر نکل کر سراپااحتجاج نہ ہوتے۔



کوئٹہ سے تبدیلی کی ہوا،لاہورپراس کے اثرات، سیاسی تبدیلی کی بازگشت متحدہ اپوزیشن نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے صلاح مشورے شروع کر دیا ہے۔اپوزیشن کے بعض ارکان کے مطابق سینیٹ میں حکومت اور اس کے اتحادی اقلیت میں ہیں اور ان کی تعداد 42 ہے جبکہ سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں کو 50 سے زائد ارکان کی حمایت حاصل ہے۔اپوزیشن ارکان کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ انہیں سینیٹ میں دلاور خان گروپ کے 6 ارکان کی بھی حمایت حاصل ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ ماہ بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کیخلاف بھی ان ہی کی جماعت کے باغی ارکان کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی تاہم جام کمال نے تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری سے ایک روز پہلے ہی عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کا تعلق بھی بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے اور انہیں حکمران جماعت پی ٹی آئی سمیت مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم پاکستان اور دیگر کی حمایت حاصل ہے۔ بہرحال یہاں جام کمال خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے ذکر کابنیادی مقصد یہی ہے کہ اندرون خانہ اختلافات کے باعث ہی جام کمال خان کو رخصت کیاگیا، اب معاملات اختیارات ،فنڈز سمیت دیگر کے تھے یہ زیادہ اہمیت نہیں رکھتی، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حکومتی اتحاد میں کتنا جول ہے اور اپوزیشن اس سے کس طرح فائدہ اٹھاسکتی ہے۔ بلوچستان میں حکومتی تبدیلی سے فتح حکومت کی نہیں ہوئی بلکہ اپوزیشن نے اس پر سیاسی برتری حاصل کی۔ اب اسی طرح کی تبدیلی کی گونج ایوان بالامیں سنائی دے رہی ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے گی۔ اپوزیشن اس لیے اتنی پُرامید ہوکر یہ بات کہہ رہی ہے کیونکہ حکومتی بلز کے معاملات پر قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد میں دراڑیں پڑچکی ہیں اور اس کا اظہار کھل کر ایم کیوایم پاکستان اور پاکستان مسلم لیگ ق کرچکے ہیں۔ گزشتہ روز شہباز شریف کی جانب سے دیئے گئے عشائیہ کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کاکہناتھاکہ شہباز شریف کا شکریہ جنہوں نے اپوزیشن کو اکٹھا کیا، اپوزیشن کی مشترکہ کاوشوں اور حکومتی اتحادیوں سے اپوزیشن کے رابطوں کی وجہ سے حکومت کو مشترکہ اجلاس مؤخر کرنا پڑا۔بلاول بھٹو کا کہنا تھاکہ حکومت پارلیمنٹ میں ہار چکی ہے، حکومت پر ان کے اپنے اتحادی بھی اعتماد نہیں کر رہے ، پارلیمان ہی وہ فورم ہے جس سے عمران خان کی پالیسیوں کو ناکام بناسکتے ہیں۔خیال رہے کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جمعرات کی صبح 11 بجے طلب کیا گیا تھا جس میں انتخابی اصلاحات، کلبھوشن و دیگر اہم معاملات پر قانون سازی متوقع تھی تاہم وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ٹوئٹ کے ذریعے اطلاع دی کہ اجلاس ملتوی کردیا گیا ہے۔فواد چوہدری نے کہا کہ انتخابی اصلاحات ملک کے مستقبل کا معاملہ ہے، ہم نیک نیتی سے کوشش کر رہے ہیں کہ ان معاملات پر اتفاق رائے پیدا ہو۔ان کا کہنا تھاکہ اتفاق رائے کے حوالے سے اسپیکر اسد قیصر کو اپوزیشن سے ایک بار پھر رابطہ کرنے کا کہا گیا ہے تاکہ ایک متفقہ انتخابی اصلاحات کا بل لایا جا سکے۔وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھاکہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو اس مقصد کیلئے مؤخر کیا جا رہا ہے اور ہمیں امید بھی ہے کہ اپوزیشن ان اہم اصلاحات پر سنجیدگی سے غور کرے گی اور ہم پاکستان کے مستقبل کیلئے ایک مشترکہ لائحہ عمل اختیار کر پائیں گے۔البتہ اپوزیشن جماعتوں کا پارلیمان میں حکومت کے خلاف اکٹھاہونے سے اتحادیوں کے اختلافات کے بعد پی ٹی آئی حکومت کی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ کیا کوئٹہ سے چلنے والی تبدیلی کی ہوا لاہور پر اثرانداز ہوگی اور اس کے بعد ایوان بالا میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اور پارلیمان میں بڑی تبدیلی متوقع ہوسکتی ہے یہ کہناقبل ازوقت ہوگا مگر سیاسی ماحول میں شدت ضرورپیداہوتی جارہی ہے۔ اپوزیشن انتہائی پُرامید دکھائی دے رہی ہے کہ وہ بڑی تبدیلی لانے میں کامیاب ہوگی ۔بہرحال ملکی سیاست میں ہلچل پیدا ہوچکی ہے اس کا خاتمہ کس کی کامیابی اور ناکامی پر ہوگا آئندہ چندروز میں سیاسی منظرنامہ واضح ہوجائے گا ۔

| وقتِ اشاعت :  


xمتحدہ اپوزیشن نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے صلاح مشورے شروع کر دیا ہے۔اپوزیشن کے بعض ارکان کے مطابق سینیٹ میں حکومت اور اس کے اتحادی اقلیت میں ہیں اور ان کی تعداد 42 ہے جبکہ سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں کو 50 سے زائد ارکان کی حمایت حاصل ہے۔اپوزیشن ارکان کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ انہیں سینیٹ میں دلاور خان گروپ کے 6 ارکان کی بھی حمایت حاصل ہے۔