پاکستان میں کرپشن اور بدعنوانی کا بڑا مسئلہ ہے جس پر تاحال قابو نہیں پایاجاسکا ہے جتنے بھی دور گزرے ان میں محض دعوے ہی کئے گئے کیونکہ بڑے پیمانے پر کرپشن میں ملک کی اہم شخصیات ملوث ہیں جو کسی نہ کسی سرپرستی کے ذریعے کرپشن اور بدعنوانیاں کررہے ہیں جب ان پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے تو تمام تر مشینری کو حرکت میںلانے کے لیے پورا زور اداروں پر ڈالا جاتا ہے ۔پھر ایک اور المیہ یہ بھی ہے کہ جن اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کرپشن کے تدارک کے لیے مؤثر اقدامات اٹھائیں بغیر کسی دباؤ کے کام کریں۔
استحکام وعدم استحکام کامعاملہ خطے میں موجود ہے مگر اس کا مقابلہ اس وقت کیا جاسکتا ہے کہ جب اندرون خانہ ملک میں سیاسی استحکام موجود ہو مگر گزشتہ چند برسوں کے دوران یہ دیکھاگیا ہے کہ حکومت اوراپوزیشن کے درمیان سیاسی جنگ جاری ہے اب تو اس میں مزید شدت آرہی ہے اس قدر معاملہ سنگین ہوتا جارہا ہے کہ دونوں فریقین ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں اور الزامات کا سلسلہ بھی جاری ہے اس کا فائدہ یقینا ملک اورعوام کو نہیں ہے بحرانات مزید سنگین شکل اختیار کرینگے حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جن پر کرپشن کے کیسز ہیں ان کے خلاف کارروائی کرے اور پھر فیصلہ عدلیہ پر چھوڑدیاجائے جبکہ اپوزیشن کیسز کاسامنا کرے اگر وہ مقدمات کو الزامات سمجھتی ہے تو قانونی طریقہ اختیار کرے البتہ جنگی ماحول جیسی صورتحال کا ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے عوام کی لائیوکال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ شہبازشریف کو میں اپوزیشن لیڈر نہیں قوم کا مجرم سمجھتا ہوں۔
عوام کے جان ومال کے تحفظ کی ذمہ داری ریاست کی ہے اور ریاست کے اندر موجود قانون نافذ کرنے والے ادارے قانون کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ایمانداری کے ساتھ نبھاتے ہوئے جرائم پیشہ عناصر کا معاشرے سے خاتمہ کریں اوران تمام منفی سرگرمیوں جو مہذب معاشرے کے لیے زہرقاتل ہیں ان کا قلع قمع کرنا بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے مگر افسوس کہ کئی دہائیوں سے ملک میں پولیس کے اندر بڑے پیمانے پر اصلاحات نہیں ہوئیں اور نہ ہی کسی قسم کا چیک اینڈ بیلنس رکھا گیا کہ پولیس محکمے کے اندر موجود جرائم کی سرپرستی اور براہ راست ملوث ہونے والے آفیسران و اہلکاروں کو عبرت کا نشان بناتے ہوئے محکمے کے اندر موجود کالی بھیڑوںکو نکالاجاسکے ۔
ملک اوربلوچستان کی ترقی کا جھومر گوادر سے اول روز سے بہت سی امیدیں لگی ہوئی ہیں کہ گوادر سی پیک سے شروع ہونے والے منصوبوں سے بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی کے نئے سفر کا آغاز ہوگا اور بلوچستان میں موجود بحرانات، مسائل محرومیوں سب کا ازالہ ہو گا۔ دہائیوں سے پسماندگی کا شکار صوبہ اپنے محاصل کے ذریعے نئے منصوبوں کے ذریعے صنعتیں، بجلی گھرسمیت دیگر پروجیکٹ شروع کرتے ہوئے روزگار کے نئے مواقع پیدا کرے گا مگر کچھ عرصہ سے سی پیک منصوبہ انتہائی تعطل کا شکار دکھائی دے رہا ہے جبکہ گوادر ڈیپ سی پورٹ بھی اس طرح فعال نہیں کہ جلد ہی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ہوسکے مگر اس جانب توجہ دینا اشد ضروری ہے ۔
بلوچستان خوبصورتی کے لحاظ سے اپنی منفرد پہچان رکھتا ہے کوئٹہ سمیت دیگر اضلاع میںباہر کے شہروں کے لوگ سیاحت کیلئے بھی آتے ہیں مگر گزشتہ چند برسوں کے دوران اس رجحان میں بہت کمی آئی ہے جس کی بڑی وجہ اپنے صوبے کو خوبصورت بنانے کے ساتھ انفراسٹرکچر پر توجہ نہ دینا ہے۔ ہر وقت اس اہم مسئلے کی جانب توجہ دلائی گئی ہے کہ میٹروبس، گرین لائن بس اور بی آر ٹی جیسے بڑے منصوبے لاہور، کراچی اور پشاور میں بنائے گئے ہیں مگر کوئٹہ شہر میں گرین لائن بس سروس کا وعدہ آج تک وفا نہ ہوسکا المیہ تو یہ ہے کہ بنیادی مسائل تک حل نہیں کئے گئے جس میں سڑکیں، پل، انڈر پاسز، پانی فراہمی، سیوریج سمیت دیگر مسائل کا سامنا شہریوں کو ہے اور یہ تمام منصوبے کوئٹہ پیکج میں موجود ہیں اس پیکج پر اول روز سے ہی توجہ دی جاتی تو آج کوئٹہ شہر کا نقشہ ہی بدل جاتا ،آبادی کا بڑھتا تناسب روز بہ روز مسائل کی وجہ بھی ہے کیونکہ اسی تناسب کو مد نظر رکھ شہر کی تعمیر کی پلاننگ کی جاتی ہے۔
ملک میں معاشی صورتحال روز بروزابتر ہوتی جارہی ہے اول روز سے حکومت یہی باتیں کررہی ہے کہ جلد عوام کو ریلیف فراہم کیاجائے گا موجودہ مہنگائی کو کبھی عالمی وباء کورونا وائرس سے جوڑا جاتا ہے تو کبھی ملک میں دہائیوں سے ہونے والے کرپشن لوٹ مارکو اس کا سبب قرار دیا جاتا ہے مگر موجودہ معاشی میکنزم کیا ہے اس کی سمت کیا ہے اور مستقبل میں کس طرح سے بہتری لائی جائے گی اس حوالے سے واضح طور پر کوئی تسلی بخش بات سامنے نہیں آتی ۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے ملک بھر میں کورونا کیسز بڑھنے کے بعد نئی پابندیاں نافذ کر دیں۔این سی او سی اجلاس میں ملک میں کورونا کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔اجلاس میں کورونا کی شرح 10 فیصد سے زائد والے اضلاع اور شہروں میں ان ڈور تقریبات پر پابندی اور آؤٹ ڈور تقریبات میں 300 افراد کو شرکت کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا گیا۔اجلاس میں یہ فیصلہ بھی ہوا کہ 10 فیصد سے کم شرح والے شہروں میں ان ڈور تقریبات میں 300 ویکسی نیٹڈ افراد شرکت کر سکیں گے جبکہ آؤٹ ڈور تقریبات میں 500 ویکسی نیٹڈ افراد کو شرکت کی اجازت ہو گی۔نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے مطابق کورونا پھیلاؤ والے علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن لگایا جائے گا اور 10 فیصد سے زائد شرح والے علاقوں میں ان ڈور ڈائننگ پر 24 جنوری سے مکمل پابندی ہوگی۔
حکومت اور ن لیگ کے درمیان تناؤ کم ہونے کانام ہی نہیں لے رہا، دونوں طرف سے ایک دوسرے پر بھرپور الزامات کی بوچھاڑ اور بیانات داغے جارہے ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں کی بیانات کا محورومرکز اسٹیبلشمنٹ ہے کہ سیاسی حوالے سے کس کا ہاتھ کس کے اوپر ہے حالانکہ گزشتہ دنوں ڈی جی آئی ایس پی آر نے نواز شریف کی وطن واپسی کے متعلق واضح طور پر اپنی بات رکھی اور اس سے قبل بھی ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر متعدد بار یہ بات دہراچکے ہیں کہ سیاسی معاملات میں فوج کو درمیان میں نہ لایاجائے اور یہی بات حکومت بھی کرتی آرہی ہے۔
بلوچستان کی پسماندگی اور محرومیوں کے ازالے کاوقت آچکا ہے گزشتہ کئی دہائیوں سے صوبے کی غریب عوام بنیادی سہولیات تک سے محروم ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ بلوچستان معدنیات سے مالامال ہونے کے باوجود یہاں کے بڑے منصوبوں سے بڑے پیمانے پر ریونیو حاصل بھی کی جارہی ہے، بڑے پروجیکٹس پر غیرملکی کمپنیاں کام بھی کررہی ہیں مگر بلوچستان کو ہر بار اس کے حقیقی حصے سے محروم رکھا گیا ہے۔ سونا، تانبا، گیس سمیت دیگر وسائل سے مالی منافع کمایاجارہا ہے۔
گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت پارلیمانی پارٹی کا اجلاس منعقد ہوا،اجلاس میں وزیر دفاع پرویز خٹک اور وزیراعظم کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا ۔قومی اسمبلی میں منی بجٹ کی منظوی سے قبل ارکان قومی اسمبلی کو اعتماد میں لینے کیلئے پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کیا گیا تھا تاہم اجلاس میں معاملہ مزید بگڑ گیا، پرویز خٹک، نور عالم و دیگر ارکان نے منی بجٹ، مہنگائی،