افغانستان پر طالبان نے اپنا کنٹرول مکمل کرلیا ہے اور اپنی عبوری حکومت کی تشکیل کے حوالے سے حکمت عملی تیار کررہے ہیں، ان کی جانب سے واضح طور پر بتایاجارہا ہے کہ وہ افغانستان میں کسی اور فریق کے ساتھ مل کر حکومت ہرگز نہیں بنائینگے۔صدارتی محل پر بھی طالبان براجمان ہوچکے ہیں اس وقت افغانستان کا پورا کنٹرول طالبان کے پاس ہے۔
بلوچستان کی سیاست میں تبدیلی کے متعلق گزشتہ تین سالوں کے دوران بہت زیادہ قیاس آرائیاں کی گئی کہ موجودہ حکومت کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی تیاری کی جارہی ہے بلوچستان عوامی پارٹی کے اندر پھوٹ پڑچکا ہے بعض سینئر ارکان ناراض ہیں اندرون خانہ فاروڈ بلاک بن چکا ہے۔
افغان حکومت نے ملک کی بگڑتی صورتحال کو دیکھتے ہوئے طالبان سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کر لیاہے۔صدارتی محل کی طرف سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے سیاسی اور قبائلی رہنماؤں سے مشاورت کی ہے جس میں طے پایا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔افغان صدر اشرف غنی نے طالبان سے بات چیت کے لیے مذاکراتی کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔
پیٹرول مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔ پیٹرول 50 پیسے جبکہ ڈیزل کی قیمت میں اڑھائی روپے اضافہ کرنے کی سفارش کی گئی۔وزارت خزانہ کو پیٹرولیم ڈویژن کی طرف سے ارسال کردہ تجاویز موصول ہو گئیں ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 2 روپے 50 پیسے جبکہ پیٹرول کے نرخ میں 50 پیسے فی لیٹر اضافے کی سفارش کی گئی ہے۔
پاکستان میں عالمی وبا کوروناوائرس کے باعث اموات کی مجموعی تعداد 24 ہزار 266 ہو گئی۔نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی جانب سے جاری تازہ اعدادو شمار کے مطابق ملک بھر میںمزید 4 ہزار 619 کورونا کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ کوروناکے مجموعی کیسز کی تعداد 10 لاکھ 89 ہزار 913 ہو گئی ہے جبکہ مثبت کیسز کی شرح 7.76 فیصد رہی۔سندھ میں کورونا کیسز کی تعداد 4 لاکھ 7 ہزار 892، خیبر پختونخوا میں ایک لاکھ 50 ہزار 708، پنجاب میں تین لاکھ 69 ہزار 358، اسلام آباد میں 92 ہزار 768، بلوچستان میں 31 ہزار 396، آزاد کشمیر میں 28 ہزار 654 اور گلگت بلتستان میں 9 ہزار 137 ہو گئی ہے۔
گزشتہ چند ماہ سے افغانستان میں جاری جنگ سے خطے کے ممالک شدید تشویش میں مبتلا ہیں کہ اگر افغانستان پھر ایک بار پھرخانہ جنگی کی طرف گیا توافغانستان میں انسانی بحران تو جنم لے گا مگر ساتھ ہی اس کے انتہائی منفی اثرات خطے کے ممالک پر بھی پڑینگے۔اس لئے کوشش یہی کی جارہی ہے کہ افغانستان میں اندرون خانہ جو جنگ جاری ہے اسے بات چیت کے ذریعے فریقین کے درمیان حل کیاجائے تاکہ افغانستان سمیت خطے میں امن کا خواب پورا ہوسکے جو کہ دہائیوں سے ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔ امریکی اور اتحادی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں جاری جنگ میں تیزی آئی ہے۔
کسان کسی بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور ملک کی ترقی میں ان کا کلیدی کردار ہے مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے زراعت پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔اگر بلوچستان کی بات کی جائے تو صوبے کے ذرائع معاش کا نصف سے زیادہ حصہ زراعت سے چلتا ہے لوگوں کی بڑی تعداد کا روزگار اسی سے وابستہ ہے۔المیہ یہ ہے کہ بلوچستان میں پانی بحران اور بجلی جیسے مسائل نے اس شعبے کو بہت زیادہ متاثر کرکے رکھ دیا ہے جو پیداواری قوت ہے ان بحرانات کی وجہ سے بری طرح متاثر ہے۔ اس وقت بھی زمینداروں کو پانی اور بجلی جیسے سنگین بحرانات کا سامنا ہے جس سے ان کی فصلیں متاثر ہورہی ہیں اگر ان دونوں مسائل کو حل کیاجائے تو کسی حد تک کسان بہتر فصلیں کاشت کرسکتے ہیں۔
امریکہ نے افغانستان سے اپنی فوجوں کا انخلاء تقریباً مکمل کر لیا ہے تاہم وہ اب بھی طالبان پر فضائی حملے کر رہا ہے۔واضح رہے کہ افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی میں گزشتہ چند دنوں کے دوران تیزی دیکھی گئی ہے اور انھوں نے پانچ دنوں میں چھ اہم شہروں پر قبضہ کر لیا ہے۔گزشتہ اتوار طالبان نے قندوز کے علاوہ شمالی شہر سرِ پْل اور تالقان پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ قندوز وسطی ایشیا کا دروازہ کہلاتا ہے اور اسی کی اسٹریٹیجک اور معاشی لحاظ سے بہت اہمیت ہے۔ان تینوں شہروں پر کنٹرول کے بعد جمعہ سے لے کر اب تک مجموعی طور پر چھ صوبائی دارالحکومت طالبان کے قبضے میں جا چکے ہیں جن میں سمنگان، قندوز، سرِ پْل، تالقان، شبرغن اور زرنج شامل ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی 2008ء کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد بلوچستان سمیت مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی تھی مگر جیسے ہی حکومتی مدت ختم ہوگئی پیپلزپارٹی کی سیاست بلوچستان میں مکمل طور پر ختم ہوکر رہ گئی تھی اور بلوچستان میں پیپلزپارٹی کے پاس ایسی قد آور شخصیات نہیں تھیں کہ وہ 2013ء اور 2018ء کے عام انتخابات میں چند نشستیں لینے میں کامیاب ہوجاتی کیونکہ بلوچستان میں بیشتر ووٹ بینک قبائلی شخصیات کے اپنے ہی ہوتے ہیں جو اپنے علاقے میں اثرورسوخ رکھتے ہیں ۔قبائلی شخصیات جن جماعتوں میں جاتے ہیں پارٹی بیانیہ سے ہٹ کر انہیں ووٹ ملتا ہے ۔
افغانستان میں حالیہ شورش کے براہ راست اثرات پاکستان پر پڑھنے کے قوی امکانات ہیں گزشتہ کئی دہائیوں سے افغانستان میں جاری جنگ کی وجہ سے خطے میں سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوا ہے پاکستان کی ہر بار یہی کوشش رہی ہے کہ افغانستان میں دیرپا امن قائم ہوسکے تاکہ پاکستان میں دہشت گردی کی روک تھام یقینی ہوسکے مگر بدقسمتی سے افغان حکومت نے کبھی بھی پاکستان کے ساتھ سنجیدگی کے ساتھ تعلقات کے متعلق نہیں سوچا بلکہ افغانستان کی جانب سے مسلسل پاکستان پر الزامات ہی لگائے گئے۔