وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ناراض بلوچوں سے مذاکرات کی بات کے بعد بلوچستان کے سیاسی ومعاشی حالات پرملک بھر میں ایک نئی بحث جاری ہے خاص کر میڈیا پر سیاستدان اور مبصرین اپنی رائے کا اظہار کررہے ہیں۔ ماضی سے لیکر حال تک کی صورتحال پر بات کی جارہی ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ کس طرح حل ہوسکتا ہے اور بلوچستان جودہائیوں سے پسماندگی اور محرومیوں کا شکار ہے انہیں دور کرکے خوشحال بلوچستان کے خواب کو حقیقی جامہ پہنایاجائے۔
مشیر برائے قومی سلامتی امور ڈاکٹر معید یوسف نے واضح طور پر کہا ہے کہ اگر حالات خراب ہوئے تو پاکستان افغان مہاجرین کو قبول کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔غیرملکی ذرائع ابلاغ کو انٹرویودیتے ہوئے ڈاکٹرمعید یوسف کا کہنا تھا کہ پاکستان نے مذاکرات کی راہ ہموار کی لیکن کبھی بھی مذاکرات کا حصہ نہیں تھا۔ طالبان پر کبھی ہمارا کنٹرول تھا اور نہ اب ہے۔ اگر کسی کیمپ میں شامل ہونے کا دباؤ آیا تو پاکستان کا فیصلہ سب کو پتہ ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے عسکریت پسند بلوچوں سے بات چیت کے اعلان کے بعد ایک نئی بحث چھڑ چکی ہے تاہم نوابزادہ شاہ بگٹی کو معاون خصوصی کا عہدہ دے کر ناراض بلوچوں سے بات چیت کا ٹاسک دیا گیا ہے تاکہ وہ اس عمل کو آگے بڑھاسکیں۔ ابھی چند روز ہی نہیں گزرے کہ حکومتی حلقوں کی جانب سے اسے مختلف تناظر میں دیکھا جارہا ہے بہرحال وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات فوادچوہدری نے میڈیا کو بریفنگ کے دوران بتایا کہ کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ جن لوگوں کے تعلقات بھارت کے ساتھ ہیں ان سے بات چیت نہیں کی جائے گی۔
کوروناوائرس کی چوتھری لہر کے خطرات کے پیش نظر حکومتی سطح پر زیادہ اقدامات ہونے چاہئیں۔ فوری پابندیوں کا اطلاق لوگوں کومزید مشکلات میں مبتلا کردینے کے مترادف ہے ۔عیدالضحیٰ سر پر ہے اور اس موقع پر لوگوں کی بڑی تعداد قربانی کے جانور خریدنے کیلئے مویشی منڈیوں کا رخ کرتے ہیں،اس حوالے سے پیشگی بتایاگیا تھا کہ ایس اوپیز پر عملدرآمدکرانا حکومت اورضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری بنتی ہے جبکہ مال مویشی فروخت کرنے والوں کیلئے یہ سب سے بڑا کاروبار کا سیزن ہوتا ہے اگر اس دوران سختی برتی گئی تو بڑے پیمانے پر چھوٹے کاروباری طبقے کو نقصان پہنچے گا.
افغانستان کے صوبائی دارالحکومت قلعہ نو سے اب یہ اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ طالبان آزادانہ گھوم رہے ہیں اور موٹرسائیکلوں پہ سوار ہو کر شہر کا معائنہ کررہے ہیں جبکہ لوگوں کی بڑی تعداد یا تو اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئی ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کی سب سے بڑی اتحاد پی ڈی ایم کی بنیاد جب رکھی گئی تو یہ طوفان برپاکیاگیا کہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں ایک پیج اور سیاسی حکمت عملی کے ذریعے حکومت کو گھر بھیجیں گی۔ آغاز تو بڑے بڑے جلسے جلوسوں سے کیاگیا اور تقاریر بھی سب کے سامنے ہیں کہ کس طرح سے ماضی کی مخالف جماعتیں ایک اسٹیج پر کھڑے ہوکر مستقبل میں ساتھ چلنے کے وعدے کررہے تھے اور ایک دوسرے پر کبھی بھی تنقید نہ کرنے کے دعوے کرتے دکھائی دے رہے تھے۔
وزیراعظم عمران خان نے پہلے بھی گوادرہ کا درہ کیا تھا مگر گزشتہ روز ہونے والے دورہ کوبہت اہمیت دی جارہی ہے کیونکہ پہلی بار وزیراعظم عمران خان نے بلوچستان کے عسکریت پسندوں کے ساتھ بات چیت کا ذکر چھیڑا ہے اور جب سے عمران خان وزیراعظم بنے ہیں انہوں نے کبھی بھی اس حوالے سے یہ بات نہیں کی اور نہ ہی موجودہ حکومت کے کسی اہم عہدے پر موجود شخصیت نے بلوچستان کی عسکریت پسند تنظیموں سے مذاکرات کا ذکر کیا ہے۔
افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان دوحہ امن معاہدے پر ایک اور مسئلہ کھڑاہوچکاہے جس میں امریکی افواج کی افغانستان میں موجودگی ہے اور اس کی باقاعدہ تصدیق ترجمان پینٹاگون نے میڈیا بریفنگ کے دوران کیا تھااب سب سے بڑی تشویشناک بات یہ ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان مسائل بڑھ گئے تو یقینا یہ معاملہ جنگ کی طرف چلاجائے گا اور اس وقت پاکستان میں بھی تشویش کا اظہار کیاجارہا ہے کہ اگر افغانستان ایک بار پھر خانہ جنگی کی طرف گیا تو پاکستان کیلئے بہت سے مسائل دوبارہ جنم لے سکتے ہیں.
ملک میں پیاز، ٹماٹر، لہسن، گھی، انڈے،آلو، گوشت، دال مونگ اور گڑ سمیت دیگر ضروری اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات نے ہفتہ وار مہنگائی کی تفصیلات پر مبنی رپورٹ جاری کردی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہفتہ واربنیادوں پرمہنگائی کی شرح میں 0.53 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان نے امریکی افواج کی واپسی کے بعد چھوڑی گئی فورسز کی گاڑیوں اور بکتر بند گاڑیوں پر قبضہ کرلیا ہے۔میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر افغان طالبان کی کچھ تصاویر سامنے آنے کے بعد کی جانے والی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ طالبان نے گزشتہ ماہ جون میں 700 فوجی گاڑیوں کو قبضے میں لیا ہے جنہیں اب طالبان اپنی کارروائیوں کے لیے استعمال کریں گے۔طالبان کی جانب سے جاری ایک ویڈیو میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ انہوں نے افغان فورسز کے بھی متعدد ہتھیار قبضے میں لے رکھے ہیں۔غیر ملکی میڈیا کا بتاناہے کہ 30 جون تک کی جانیوالی تحقیقات میں یہ شواہد سامنے آئے کہ طالبان نے 715 عام گاڑیوں کو بھی تحویل میں لیا ہے