بلوچستان کی محرومیوں اور پسماندگی پر 70 سال سے زائد عرصہ سے آہ و فغاں جاری ہے مگر حکمرانوں کے دلوں میں رحم نام کی کوئی شہ نظر نہیں آتی بلکہ مزید اس صوبہ کو غربت کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ آج پورے ملک پر واضح ہے کہ یہاںکے مسائل کیا ہیں اور قوم پرستوں کے شکوئوں کے بنیادی اسباب کیا ہیں ؟اب یہ کہنا کہ بلوچستان کا مسئلہ کس طرح حل ہوگا اور اس کیلئے کیا روڈ میپ اور میکنزم اپنائی جائے کہ بلوچستان کے عوام کی ناراضگی وفاق کے ساتھ ختم ہوجائے ۔وہ تمام تر بنیادی وجوہات ستر سال کے دوران حکمرانی کرنے والی ہر وفاقی جماعت کے سامنے تفصیلی طور پر رکھی گئیں۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ڈھائی سال گزر گئے اب ہم ناتجربہ کاری کا بہانہ نہیں بنا سکتے ، ہمارے پاس سوا دو سال ہیں ، وزرا ء کو کارکردگی مزید بہتر بنانا ہو گی،وفاقی وزارتوں کو اہداف سونپنے سے متعلق تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پانچ سال بعد عوام فیصلہ کریں گے حکومتی کارکردگی کیسی رہی۔ وزیراعظم نے پاور سیکٹر کو سب سے بڑا چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاور سیکٹر کا سوچ کر راتوں کو نیند نہیں آتی، مہنگائی بھی چیلنج ہے،عوام پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پنشن کا پہاڑ چڑھتا جا رہا ہے۔
افغان طالبان کا امریکہ اور افغان حکومت کے درمیان امن معاہدے اور مذاکرات کے باوجود بھی افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات میںکوئی خاص کمی نہیں آرہی بلکہ آئے روز خود کش حملے ، بم دھماکے اور فائرنگ کے واقعات رونما ہورہے ہیں جس میں اہم حکومتی شخصیات اور عام شہریوں کونشانہ بنایاجارہا ہے۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے میں واضح طور پر اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ تشدد کی روک تھام کیلئے مشترکہ کوششیں کی جائینگی جبکہ ملابرادران امن عمل کو آگے بڑھانے کیلئے افغانستان میں موجود تمام گروپس سے بات چیت کرینگے۔
ملک میں سیاسی ماحول کی کشیدگی اپنی جگہ مگر اپوزیشن اور حکومت کے درمیان روزبروز مسئلہ نہ صرف شدت اختیار کرتا جارہا ہے بلکہ پیچیدگیاں بھی پیدا ہورہی ہیں۔ ایک طرف چند وزراء اپوزیشن کے ساتھ ڈائیلاگ کی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں تو دوسرے وزراء اپوزیشن کے حوالے سے سخت گیر مؤقف اختیار کرتے ہوئے ڈائیلاگ کو این آر او اور ریلیف سے جوڑدیتے ہیں ۔پھر اپوزیشن بھی جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے حکومت پر شدید تنقید کرتی ہے۔ بہرحال کسی بھی مسئلہ کا حل سیاسی ڈائیلاگ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
ملک میں سیاسی ماحول کی کشیدگی اپنی جگہ مگر اپوزیشن اور حکومت کے درمیان روزبروز مسئلہ نہ صرف شدت اختیار کرتا جارہا ہے بلکہ پیچیدگیاں بھی پیدا ہورہی ہیں۔ ایک طرف چند وزراء اپوزیشن کے ساتھ ڈائیلاگ کی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں تو دوسرے وزراء اپوزیشن کے حوالے سے سخت گیر مؤقف اختیار کرتے ہوئے ڈائیلاگ کو این آر او اور ریلیف سے جوڑدیتے ہیں ۔پھر اپوزیشن بھی جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے حکومت پر شدید تنقید کرتی ہے۔ بہرحال کسی بھی مسئلہ کا حل سیاسی ڈائیلاگ کے بغیر ممکن نہیں ہے چاہے ۔
زراعت کا شعبہ بلوچستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور پاکستان کا شمار دنیا کے بہترین زرعی ممالک میں ہوتا ہے جہاں پر بیشتر اشیاء کی پیداوار بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے اور بڑے پیمانے پر دیگر ممالک کو برآمدکر کے زرمبادلہ کمایا جاتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے چھوٹی صنعتوں کے فروغ کے لیے مقرر اہداف جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت قومی رابطہ کمیٹی برائے سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کا اجلاس ہوا۔
سانحہ آرمی پبلک اسکول کو 6 برس بیت گئے ۔ 6 سال قبل علم دشمنوں نے معصوم بچوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا تھا ۔ 16 دسمبر 2014 کو مہاجرین کے روپ میں پاکستان میںداخل ہونے والے سفاک دہشتگردوں نے مقامی افراد کی مدد سے آرمی پبلک سکول پر حملہ کیا تھا اور حصول علم میں مگن بچوں پر فائرنگ کردی تھی ۔واقعے کی اطلاع ملتے ہی سکیورٹی فورسز نے اسکول کا گھیراؤ کیا اور خود کار اسلحے سے لیس کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے 6 خود کش حملہ آوروں کو طویل آپریشن کے بعد ہلاک کیا تھا۔6 گھنٹے سے زیادہ کے آپریشن کے بعد اسکول کو کلئیر کیا گیا۔
وزیراعظم کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیٹرولیم بحران سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ پیش کردی گئی۔وزیراعظم نے پیٹرول بحران میں ملوث کمپنیوں کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا اور کہا کہ پیٹرول بحران میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی ہوگی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے انکوائری رپورٹ کی سفارشات کاجائزہ لینے کیلئے تین رکنی کمیٹی قائم کردی۔کمیٹی میں وفاقی وزیر شفقت محمود، شیریں مزاری اور اسد عمر شامل ہوں گے۔اسلام آباد میں وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں پیٹرولیم بحران سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ کی سفارشات پربحث کی گئی۔
بلوچستان کی ترقی کے بلندوبانگ دعوے ہر دور میں حکومتیں کرتی آئی ہیں ،مختلف پیکجز کا اعلان کرنے باوجود آج بھی بلوچستان کے مسائل اسی طرح برقرار ہیں اور ان میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ بلوچستان میں آج بھی نوجوانوں کی بڑی تعداد بیروزگاری کی وجہ سے پریشان ہے ،روزگار کے ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے انہیں پیٹرول وڈیزل جیسے کاروبار کرنے پڑتے ہیں ۔بڑی یونیورسٹیوں سے ڈگری حاصل کرنے والے طلباء بھی اس عمل کا حصہ مجبوراً بن جاتے ہیں جس کی بنیادی وجہ روزگار کے مواقع کا نہ ہونا ہے اور کس طرح سے روزگار کے ذرائع پیدا ہونگے ۔