کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں لاک ڈاؤن میں 5 مئی تک توسیع کردی گئی جس میں تمام پابندیاں بدستور برقرار رہیں گی۔ نوٹیفکیشن کے مطابق عوامی مقامات پر 10یا 10سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی برقرار ہے جبکہ نجی اور سرکاری مقامات پر ہر قسم کے اجتماعات پر بھی پابندی ہے۔اس کے علاوہ درباروں، درگاہوں سمیت تمام مقامات پر اجتماعات پر بھی پابندی برقرار ہے۔نوٹیفکیشن کے مطابق شہر، بین الاضلاعی، بین الصوبائی ٹرانسپورٹ پر پابندی رہے گی جبکہ خاتون یا معمرافراد کے علاوہ موٹرسائیکل کی ڈبل سواری اور کار میں 2 افراد سے زائد کی سواری پر بھی پابندی رہے گی۔
ملک بھر میں اس وقت کورونا وائرس کے نئے کیسز مقامی سطح پر سامنے آرہے ہیں جس کی بڑی وجہ شعور کا فقدان ہے، لوگ اسے عام بخار یا فلو سمجھ رہے ہیں اور ٹیسٹ کرنے سے گھبرارہے ہیں،اس کے لئے ضروری ہے کہ مقامی سطح پر اسے کنٹرول کرنے کیلئے آگاہی پروگرام شروع کیا جائے وگرنہ کیسز کی شرح مزید بڑھتی جائے گی جوکہ صورتحال کو مزید گھمبیر کردے گی۔ عوام کو ایک طرف وائرس کا خطرہ ہے تو دوسری جانب معاشی صورتحال کی فکر ہورہی ہے جس کیلئے صوبائی حکومتوں کو جامع حکمت عملی اپنانی چاہئے تاکہ مقامی سطح پر کوروناوائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔
این ایف سی ایوارڈ صو بوں کی مالیاتی اور اقتصادی معاملات میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے جس کیلئے صوبائی حکومتوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ معیشت پر بہترین گرفت اور صوبہ کو درپیش مالی مسائل کا مقدمہ وفاق کے سامنے بہتر انداز میں پیش کیا جاسکے، اسی بنیاد پر این ایف سی ایوارڈ کیلئے تکنیکی رکن کی نامزدگی کافیصلہ انتہائی سوچ بچار اور خاص کر ماہرین معیشت کے ساتھ مشاورت کے بعد کیاجاتا ہے جس میں صوبہ کے محکمہ خزانہ کو لازمی طور پر اعتماد میں لیاجاتا ہے۔
ملک بھر میں اس وقت لاک ڈاؤن برقرار ہے،معمولات زندگی بالکل محدود ہوکر رہ گئی ہیں جبکہ ماہ صیام میں چند روز باقی رہ گئے ہیں۔اس ماہ مبارک کے دوران نہ صرف عوام کی بڑی تعداد عبادت کیلئے نکلتی ہے بلکہ اس دوران بہت سے چھوٹے کاروبار بھی بڑے پیمانے پر ہوتے ہیں کیونکہ عوامی ضروریات بڑھ جاتی ہیں۔
ملک بھر میں غذائی اجناس کی مہنگائی کی بڑی وجہ ذخیرہ اندوزی ہے جس میں بڑے مافیاز ملوث ہوتے ہیں اور کئی دہائیوں سے یہ سلسلہ چلتا آرہا ہے۔ غذائی اجناس کو ذخیرہ کرنے کا بنیادی مقصد بڑے پیمانے پر منافع خوری کرکے عام لوگوں پر مصنوعی مہنگائی مسلط کرنا ہے،یہ عام طور پر دیکھنے کو ملتا ہے کہ ملک کے تمام بڑے چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں منافع خور ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔
ملک بھر میں لاک ڈاؤن میں توسیع کے احکامات جاری کردئیے گئے ہیں جس کا بنیادی مقصد کوروناوائرس کے پھیلاؤ کو روکنا ہے مگر باوجود اس کے لوکل ٹرانسمیشن کے ذریعے کیسز کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ لاک ڈاؤن کے مقاصد حاصل نہیں ہورہے اور دن بہ دن کیسز کی شرح میں تیزی آرہی ہے جو کہ ایک تشویشناک صورتحال کی نشاندہی کرتی ہے قبل اس کے حالات کنٹرول سے باہر ہوجائیں، وفاق سمیت صوبائی حکومتوں کو سختی برتنی ہوگی مگر اس بات کا خاص خیال رکھتے ہوئے کہ عوام فاقہ کشی کا شکار نہ ہوں۔
یورپ سمیت دنیا بھر کے مختلف ممالک میں احتیاطی تدابیر کے ساتھ لاک ڈاؤن میں نرمی کا سلسلہ شروع ہوگیاہے جبکہ کورونا وائرس سے امریکا اور یورپ کے مختلف ممالک میں ہلاکتیں بھی ہورہی ہیں۔ یورپی ملک ڈنمارک واحد ملک ہے جہاں اسکول کھول دیے گئے ہیں۔ڈنمارک میں اسکول اور دیگر تعلیمی ادارے 12 مارچ سے بند تھے جنہیں بدھ کے روز احتیاطی تدابیر کے ساتھ کھولنے کا اعلان کیا گیاہے۔رپورٹس کے مطابق اعلان کے باوجود 35 فیصد اسکول ہی کھلے ہیں۔دوسری جانب اٹلی میں بھی کورونا وائرس سے ہزاروں اموات کے بعد لاک ڈاؤن اور پابندیوں میں نرمی کردی گئی ہے۔
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے وزیراعظم عمران خان نے بھی ملک بھر میں جاری لاک ڈاؤن میں مزید دو ہفتے کی توسیع کا اعلان کردیا ہے۔ گزشتہ روز نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہاکہ جزوی لاک ڈاؤن دو ہفتے تک جاری رہے گا، صوبوں کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ وفاق زبردستی نہیں کرے گا جبکہ تعمیراتی صنعت کو کھولنے کا بھی اعلان کیا جس کا مقصد کنسٹرکشن انڈسٹری سے روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے تاکہ لوگوں کو روزگار مل سکے۔ وزیراعظم عمر ان خان کا کہنا تھا کہ کنسٹرکشن انڈسٹری کے لیے ایک آرڈیننس لارہے ہیں۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ملکی حالات کا موازنہ کرنا مناسب نہیں کیونکہ ہماری معیشت اور دیگر شعبے اس حوالے سے اتنے مضبوط نہیں کہ مالی نقصانات کو ایک طویل عرصے تک برداشت کرتے ہوئے بحرانی کیفیت پر قابو پالیں۔ کورونا وائرس سے دنیا کے بیشتر ممالک متاثر ہوئے ہیں جہاں انہوں نے صحت کے حوالے سے ایمرجنسی نافذ کردی ہے وہیں لاک ڈاؤن سے لوگوں کو گھروں میں محدود کرکے رکھا گیا ہے یہاں تک کہ معیشت کا پہیہ بھی جام ہے مگرایسی صنعتوں کو چلایاجارہا ہے جہاں سے روزمرہ کے کام کاج جاری رہ سکیں جبکہ لوگوں کو گھروں کے اندر رہ کر بھی کام کرنے کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ آنے والے دنوں میں کورونا کا دباؤ بڑھے گا مگر حکومت ڈاکٹروں اور طبی عملے کی حفاظت کے لیے کام کر رہی ہے۔وزیراعظم نے پشاور کے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کا دورہ کیا جہاں انہیں کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے لیے کیے گئے اقدامات کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔اس موقع پر وزیراعظم نے کہا کہ حکومت کو ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کے تحفظ کا احساس ہے۔ میں یقین دلاتا ہوں ہم آپ کے ساتھ ہیں اور آپ کی حفاظت کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔